جنس کا جغرافیہ - قسط:7 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-17

جنس کا جغرافیہ - قسط:7



اگر کوئی سمجھے تو بے شک عورت، انسان اور فرشتے کے درمیان ایک مخلوق ہے ۔ وہ انسان کے ایک جگمگاتے مستقبل کی پیغامبر ہے ۔ عورت کو قدرت نے مرد کی رفاقت کیلئے بنایا ہے ۔ عورت پُر اسرار ضرور ہے لیکن یہ بھی نہیں کہ مرد اسے سمجھ ہی نہ سکے ۔ بس اتنا ہے کہ عورت ہو یا مرد۔۔۔۔انسان ایک زندہ حقیقت ہے ، کوئی جامد شئے نہیں ۔ جہاں بھی زندگی ہو گی، وہاں حیرت کا عنصر بھی ہو گا۔ عورت کوئی پہیلی ہوتی تو کبھی بوجھی جا چکی ہوتی۔ عورت تو ایک جیتا جاگتا جادو ہے ۔ ایک ایسی کشش ہے جو مرد کو زندگی کے معنی سمجھاتی ہے اور زندہ رکھتی ہے ۔
ہمارے یہاں عورت کو یا تو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا رہا یا پھر سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ایک معمہ! یہ دونوں صورتیں عورت کی حقیقت سے گریز کے مترادف ہیں ۔ ہم نے یہاں عورت کو ایک چلتی پھرتی حقیقت کے طور پر جاننے پہنچاننے کی کوشش کی ہے ۔ نفسیات، انسان کا مطالعہ اشرف المخلوقات سمجھ کر نہیں کرتی، کیونکہ اسے انسان ہی کا مطالعہ کرنا ہے ۔ اس لئے یہ اس ضمن میں کسی قسم کی رو رعایت روا نہیں رکھتی۔ جہاں تک عورت کا تعلق ہے ہمارے یہاں تو اسے شاعرانہ نگاہ سے یا پھر بزرگوں کے اقوال کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے ۔ مگر یہ انداز نظر و فکر انتہا پسند ہونے کی وجہہ سے خام ہے ۔
اگراول الذکر کے نزدیک عورت محض محبوبہ دل نواز اور تصویر کائنات کا رنگ ہے تو موخر الذکر کے بموجب اس کا وجود جہنم کی طرف لے جانے والا ہے ۔ عورت محض پیکر رنگ و بو ہی نہیں بلکہ گوشت پوست کے جسم کی بھی مالک ہے ۔ وہ مونا لیزا بن کر مصور کے تخیل کیلئے محرک کا کام بھی کروا سکتی ہے اور بیٹریس بن کر شاعر سے لازوال نغمات کی تخلیق بھی کرواسکتی ہے لیکن پھر بھی وہ عورت ہی رہتی ہے ۔ جس کا نظام عصبی ہے جس کا ایک ذہن ہے اور جس کے جسم کے مخصوص تقاضے ہیں ۔

عورت شعلہ بھی ہے اور شبنم بھی! پھول کی پتی بھی اور تلوار کی دھار بھی! صاف گو بھی اور کینہ ساز بھی! پیکر رحمت و شفقت بھی مجسم انتقام و حسد بھی! ڈرپوک بھی اور بہادر بھی! اس کے دل میں کچھ ہوتا ہے اور زبان پر کچھ ہوتا ہے ۔ بھولی بھالی بھی اور چالاک بھی! اس لئے مردوں کی اکثریت نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ عورت ایک ناقابل فہم پہیلی ہے ۔ بس اپنے کام سے کام رکھنا ہی درست ہے ۔ چکر میں پڑنا حماقت ہے ۔
مردوں کی اس حماقت کا یہ نتیجہ ہوا کہ دونوں صنفوں کے درمیان دوری بڑھتی گئی۔ نہ مرد عورت کی فطرت کو سمجھتا ہے اور نہ عورت مرد کی فطرت کو ۔ اس سے اختلافات اور غلط فہمیوں میں اضافہ ہوا۔ نت نئی ذہنی بیماریوں نے جنم لیا۔ گھٹن بڑھتی گئی۔ کھینچا تانی شروع ہو گئی۔ مرد نے کوشش کی کہ عورت کو بہلا پھسلا کر کام چلاتا رہے اور عورت نے مرد سے انتقام لینے کیلئے جنسی سرد مہری (ٹھنڈے پن) کا لبادہ اوڑھ لیا۔ اس خطرناک مسابقت یا رسہ کشی نے دونوں کو ذہنی سکون اور اطمینان قلب سے محروم کر دیا۔ اس تباہی اور بربادی کی ذمہ داری نہ صرف مرد پر ہے اور نہ صرف عورت پر۔
قصور دونوں کا ہے ، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مرد کی ذمہ داری زیادہ ہے ۔ اگر عورت محبت کا جواب گرم جوشی سے نہیں دیتی تو اس کی تمام تر ذمہ داری صرف عورت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ عورت تو یہ چاہتی ہے کہ اس کی شخصیت کا احترام کیا جائے ۔ اس سے بہ حیثیت ایک فرد محبت کی جائے ۔

ہم زندگی کے بنک سے وہی کچھ حاصل کرتے ہیں جو ہم نے جمع کیا ہے ۔ اگر ہم نے پیار نہیں دیا ہے تو پیار کس طرح پا سکتے ہیں ؟ نسوانیت کا احترام نہیں کیا ہے تو مردانگی کا احترام کس لئے کیا جائے ؟

عورت نہ تو آقا سے محبت کر سکتی ہے ، نہ غلام سے ، وہ تو ایک ہم سفر سے محبت کر سکتی ہے ۔ جو محبت کی راہ پر اس کے شانہ بشانہ چل سکے اور جو اس کی نسوانیت کا زیادہ سے زیادہ تحفظ کر سکے ۔ مرد جب تک آقا یا غلام رہیں گے وہ عورت کی محبت سے محروم رہیں گے ۔ البتہ جب وہ اپنے اپنے مقام سے ہٹ کر دوست کے مقام پر آ جائیں گے تو عورت اپنی محبت سے ضرور نوازے گی۔
اگر کوئی مرد یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی، ماں کی طرح اس سے پیار کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ کسی ماہر نفسیات سے صلاح و مشورہ کرے ، بصورت دیگر وہ خود بھی پریشان اور ناکام ہو گا اور بیوی کے ارمانوں کا بھی خون کرے گا۔
جہاں تک عورت اور مرد میں رفاقت کا تعلق ہے نہ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا، نہ کوئی مالک نہ کوئی ملکیت، نہ کوئی غلام بلکہ دونوں ہم سفر ہیں ۔ منزل ایک ہے ۔ لیکن دونوں کی فطرت مختلف ہے ۔ ایک تیزگام ہے ، ایک سست رفتار، ایک تحفظ کرنا چاہتا ہے ایک تحفظ کرانا چاہتا ہے ۔ ایک کے لئے محبت کا مطلب پیش قدمی ہے دوسرے کیلئے خود سپردگی ۔ اگر دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھیں تو سفر کے دوران پیش آنے والے مصائب کا مقابلہ آسانی سے کیا جاسکتا ہے اور دشواریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔

یقیناً عشق کا سفر بے حد مشکل ہے لیکن منزل بھی اتنی حسین ہے کہ جان کی بازی بھی ہنستے کھیلتے لگائی جا سکتی ہے ۔ کوئی چیز پیسیوں میں بھی مہنگی ہے اور کوئی شئے لاکھوں روپئے میں بھی سستی ہے ۔ سوال قیمت کا نہیں بلکہ مطلوبہ شئے کی افادیت کا ہے ۔ کسی کیلئے دس قدم چلنا بھی ایک دشوار کام ہے لیکن دو چاہنے والوں کیلئے مئی، جون کی چلچلاتی دھوپ میں میلوں کا فاصلہ طئے کر لینا آسان ہے ۔ فیصلہ بہرحال ہم کو کرنا ہے ۔ انتخاب کی آزادی سے لطف اندوز ہونا ہمارا فطری حق ہے ۔

ہم نے اب تک جو کچھ جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے اس سے عورت کی ایک ایسی تصویر اُبھرتی ہے جو دلچسپ اور عجیب تو ہے لیکن ناقابل فہم نہیں ۔۔۔۔ بے شک عورت پسلی کی طرح ٹیڑھی ہے ۔ اس سے اگر کچھ کام لینا ہے تو اس کے ٹیڑھے پن ہی کیساتھ ہی لیا جا سکتا ہے ۔ اگر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ ٹوٹ جائے گی۔ آسمانی صحائف میں عورت کو کھیتی سے تشبیہ دیتے ہوئے ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ اس کھیتی کی فصل کا محض ہل اور ہل چلانے والے کی طاقت یا مہارت پر ہی انحصار نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ زمین کی ساخت، موسموں کی تبدیلی اور ہواؤں کی بدلتی کیفیات کی پہچان بھی لازم ہے ۔

مرد کی نیرنگئ فطرت کامطالعہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ۔ مردوں کے طبائع اور کردار میں تضاد ہو سکتا ہے، لیکن ان کے برخلاف، عورتیں ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف ہوتی ہیں۔ ایک عورت دوسری عورت سے زیادہ پُر کاری لئے ہوئے ہوتی ہے ۔ اس لئے عورتوں کو چند اقسام میں باٹنا ممکن نہیں ۔ البتہ جہاں تک مردوں کا تعلق ہے ان میں اتنا اختلاف نہیں ہوتا اس لئے انہیں بعض اقسام میں محدود کیا جاسکتا ہے ۔ اگرچہ ایک قسم کے مرد دوسری قسم کے مردوں کی خصوصیات بھی رکھتے ہیں اس کے باوجود عام طورپر مردوں کو چھ قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔

Jins Geography -episode:7

2 تبصرے: