وبال ٹیلی ویژن اور موبائل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-30

وبال ٹیلی ویژن اور موبائل

آج سائنسی ترقی کی وجہ سے یوں تو عالم میں کئی تبدیلیاں ہوئی ہیں، نت نئے ایجادات سے سارے عالم میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے اپنی ایک جگہ بنالی ہے، ضرورت جہاں ایجادات کو جنم دیتی ہے، وہیںکچھ ایجادات انسانی تہذیب و تمدن میںخاطر خواہ فوائد اور نقصانات کو سمائے ہوئے ہیں، سائنس اور ٹیکنالوجی نے جتنا انسان کو دیا ہے، اتنا ہی انسان سے چھینا ہے، مثال کے طور پر ٹی وی ہی کو لے لیجئے ، ٹی وی عصر حاضر اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ایک بہت بڑی ایجاد ہے، لیکن اسی ٹی وی نے سارے عالم میں انسانوں کو اپنا غلام بنا لیا ہے، ساری دنیا کا انسان ٹی وی کے لیے جتنا وقت دیتا ہے، اتنے وقت میں اسے بہت کچھ کھونا پڑجا تا ہے، انسان اپنے قیمتی وقت کو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر گذار دیتا ہے، اور اسے اس کا پتہ بھی نہیں چلتا کہ اس نے ٹی وی کے ذریعے کیا پا یا ہے اور کیا کھو یا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹی وی بینی کی مشغولیت میں انسان اس کائنات کے بنانے والے کو بھول جاتا ہے، خالق کائنات نے انسان کو جس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے بھیجا ہے، وہی انسان اپنے اس مقصد کو بھول جاتا ہے، اور اس کی گفتگو، اس کا سوچ اور اس کے تمام خیالات ٹی وی کے ارد گرد ہی چکر لگاتے ہیں، اور کچھ ذی شعور لوگ اسی ٹی وی کا صحیح استعمال کرتے ہیں، اور ٹی وی کو ایک ذریعہ معلومات تک ہی محدود رکھکر اپنی دنیوی اور دینی ذمہ داریاں نبھانے میں لگ جاتے ہیں، اور دین و دنیا میں کامیاب ہوجاتے ہیں، مرد حضرات تو ایک طرف ٹی وی کے شو قین ضرور ہیں، لیکن زیادہ تر ٹی وی کا استعمال خواتین کے حصے میں آتا ہے، آج ہندوستان میں 80 فی صد گھروں میں ٹی وی نے اپنی جگہ بنالی ہے، جن خواتین کے لیے دنیا ہی سب کچھ ہے، ان کے لیے تو ٹی وی دیکھنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوگی، لیکن ملک بھر میں مسلمانوں کے گھروں میں ٹی وی نے قبضہ جمالیا ہے، ان گھرانوں کی خواتین کی حالت پر افسوس کرنے کا مقام ہے، جن خواتین کو اس صدی میں سلطان صلاح الدین ایوبی اور ٹیپو سلطان شہیدؒ، جیسے جانباز بیٹے اس قوم کو دینا چاہئے تھا، اسی قوم کی خواتین فحش و بے حیائی پر مبنی اور دین سے دور کرنے والے ٹی وی سیریلوں کی عادی ہوچکی ہیں، پہلے پہل اذان کے دوران ٹی وی کو بند کردیا جاتا تھا، اب وہ صبر باقی نہیں رہا ہے، اب تو صرف آواز بند کرکے مناظر دیکھنا جائز ہوگیا ہے، ایک زمانے میں جن گھروں سے فجر کی نماز کے بعد خواتین کی تلاوت قرآن پاک کی آوازیں سننے کو ملتی تھیں، اب انہیں گھروں میں فجر سے عشاء تک بھی ٹی وی سے موسیقی اور سیریلیوں کی ڈائیلاگ سنائی دیتی ہیں، ٹی وی میں دکھائی جانی والی فرضی کہانیوں اور فیشن اور تہذیب و تمدن کی مسلم خواتین تقریبا غلام بن چکی ہیں،ان کے رہن سہن ، ان کے فرمائش، ان کے بول چال، ان کے سوچ میں ٹی وی سیریلیوں کی کہانیوں کی شبیہ نظر آتی ہے، کئی خاندان اس ٹی وی کے فتنے سے بکھرے ہیں، اور حیا ان کے جسموں اور روح سے غائب ہوگئی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس کی ہر ایجادات خالق کائنات کے حد کردہ حدود کو پار نہ کرتے ہوئے ، اور خالق کائنات نے جو ذمہ داریاں بنی نوع انسان پر عائد کی ہیں اس سے غافل نہ ہوتے ہوئے اپنے استعمال میں لانے کا حق انسان کو حاصل ہے،جب تک ان ایجادات کاصحیح استعمال نہیں ہوگا، بے شک انسان کی زندگی خسارے ہی میں رہے گی، اسی طرح ایک اور سائنسی ایجاد جو عالمی سطح پر انسان کو اپنا غلام بنا چکی ہے، اس کا غلط استعمال بھی انسان اور بالخصوص مسلمانوں کے لیے کسی وبا سے کم نہیں ہے، وہ ہے موبا ئل فون ،جس کے ذریعے آج دنیا بھر میں اخلاق و کردار میں بہت بڑا بدلائو آچکا ہے، جس سے سارے عالم کا انسان بے خبر ہے، اور مسلمان با خبر رہنے کے باوجود ، شیطان کے جال میں پھنستا جا رہا ہے، اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تیس فی صد سے بھی زیادہ خانگی جھگڑے، شک و شبہات، نا جائز تعلقات، اسی موبائل فون کے ذریعے پنپ رہے ہیں، اس موبائل فون کے غلط استعمال سے ایک طرف نوجوان طبقہ تو دوسری طرف شادی شدہ جوڑے ، دونوں طبقے محفوظ نہیں ہیں، مس کال کے ذریعے لڑکیوں اور گھریلو شادی شدہ خواتین اور طلباء وطالبات کو نشانہ بنانے کے لیے کچھ اوباش قسم کے نوجوان ، معصوم لڑکیوں کو بڑی آسانی کے ساتھ نشانہ بنالیتے ہیں، مس کال کے ذریعے دوستی اور محبت کا جال بچھانے کے درمیان کسی کے رنگ، خوبصورتی، ذات پات، مذہب ، خاندانی اقدار، تہذیب و ثفاقت، مالی حیثیت آڑے نہیں آتی ہے، یہاں صرف نسوانی آواز ہی اس فتنے کو پنپنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے،انسان کی فطرت نسوانی آواز سے مرعوب ہونے والی فطرت ہے، لہذا مس کال سے شروع ہونے والے اس فتنہ کو تیزی سے پنپنے میں مدد ملتی ہے، نسوانی آواز اوراوباش مردوں کے چونچلے دونوں میں ایک قسم کی کشش ہوتی ہے، جس سے بڑی آسانی سے یہ کنکشن پروان چڑھ جاتی ہے، خاص کر گھریلو خواتین کو آنے والے مس کالس میں احتیاط برتنا ضروری ہے، ان خواتین کو فوری طور پر اس کی اطلاع گھر کے ذمہ دار مردوں کو دے دینا چاہئے، یا دوبارو اس طرح کسی انجان نمبر سے مس کال کے آنے پر فون گھر کے مردوں کے ہاتھ تھما دینے ہی میں ان عورتوں کی عافیت ہے، اگر انہوں نے ڈر اور خوف کی وجہ سے ایسے مس کال کے بارے میں بتانے سے گریز کریں گے، تو یہی بہت بڑی غلطی ہوگی، اور آگے چل کر ان کی زندگی جہنم بن سکتی ہے، مس کال اور کسی انجان نمبروں سے آنے والے ایس ایم ایس کو اگر مسترد کردیا جائے تو معاملہ وہیں رفع دفع کیا جاسکتا ہے، ایک سروے کے مطابق پچھلے زمانے میں لکھے جانے والے محبت بھرے خطوط کے مقابلے میں آج موبائل پر کی جانی والی پرکشش گفتگو ٹھوس محبت میں بدل کرانسان کو مسحور کردیتی ہے، اور انسان پر کشش گفتگو ،اور نسوانی آواز سننے کا عادی ہوجاتا ہے، خطوط اور ای میل کے ذریعے بھیجے جانے والے پیغام سے زیادہ ، فون کے ذریعے گفتگو میں زیادہ کشش ہوتی ہے، جس میں حس سماعت کا عمل دخل شامل ہے، مثال کے طور پر عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایک انسان کو اگر کوئی کہہ دے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں یا کرتی ہوں، تو اس میں کافی جاذبیت ہوتی ہے ، اور ہر کوئی اس جملہ کے سننے کو بے تاب رہتا ہے، یہ بلاشبہ انسانی فطرت ہے، اگر کوئی عاشق موبائل سے کال کر کے ذریعے ان جملوں کو دہر ادے تو دونوں صنف کے دلوں کے اندر ایک ہلچل پیدا ہوتی ہے، جو آگے چل کر اس موبائل کے ذریعے عشق کرنے والے پر اتنا اعتماد پیدا ہوجاتا ہے کہ موبائل فون کے عاشقوں کو ہی اپنے ہم سفر اور خیر خواہ کے طور پر تصور کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، کئی عورتوں ان کے جال میں پھنس کر اپنی زندگی تباہ کرچکی ہیں، اور کئی عورتیں نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوکر اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، اور کئی خاندان بکھر کر ٹوٹ چکے ہیں، اور کئی بچے اس کی وجہ سے آج بے سہارا ہیں، اور اسی موبائل سے پروان چڑھنے والی محبت کی وجہ سے کئی قتل بھی ہوچکے ہیں، جہاں تک موبائل فون پر بات کرنے والے عاشقوں کی نیت کا سوال ہے، ان کی نیت صاف ہونا کہیں سے بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے، موبائل فون کے عاشق صرف اپنے برے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جال بچھاتے ہیں ، ایسے جالوں میں پھنسنے سے بچنے کے لیے ان موبائل فون کے عاشقوں کو اہمیت ہی نہیں دینا چاہئے، اور اگر غلطی سے بھی کسی کا مس کال آجائے اور جواب دینے کے بعد ووبارہ اسی نمبر سے مس کال آتے ہیں تو گھر کی عورتوں اور لڑکیوں اور لڑکوں کو اپنے ما ں باپ اور بھائیوں یا ذمہ داروں کو اس کی اطلاع دے دینی چاہئے، اس کے علاوہ آج جو آزاد انہ ماحول اور مخلوط تعلیمی ادارے ، کمپنیاں، اور ٹی وی میں دکھائے جانے والے سیریلس، عریاں اشتہارات، مرد عورت کے درمیان مقابلے اور پروگرامس ، ان سب کی وجہ سے آج انسانی تہذیب کے دامن میں داغ لگ چکاہے، مسلمانوں کو خاص طور سے ان فتنوں سے دور رہنے ہی میں دین و دنیا کی عافیت ہے، اگر حتمی بات کہی جائے تو اسلام دشمنوں کی یہی سازش اور خواہش ہے کہ مسلمانوں کو اسلام سے دور کرکے ان کو برباد کر دیا جائے، اب وقت ہے کہ اس معاملہ میں مسلمان سنجیدگی سے سوچیں اور اس فتنہ اور زہر سے اپنے آپ کو بچالیں،والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو صرف ضرورت پڑنے پر ہی موبائل خرید کر دیں یا رکھنے یا استعمال کرنے کی اجازت دیں، اور خرید کر دے بھی دیں تو ان پر احتیاط کے ساتھ نگرانی کریں، اپنے بچوں کے موبائل فون میں موجود نمبروں کو وقتا فوقتا چیک کرتے رہیں، اور ان کو اس سلسلے میں اپنے بچوں پہلے ہی سے نصیحت کردیں اور اس موبائل فون کے فتنے کی جانکاری بھی دے دیں، اسی میں اپنے بچوں کی بھلائی ہے، بہر حال اگرٹیلی ویژن اور موبائل فون پر اگر حالات حاضرہ پر کچھ اور کہا جائے تو وہ یہی کہا جا سکتا ہے .... ذرا ایک نظر اپنے آس پاس دوڑائیں، افسوس کی بات ہے کہ بچے تو ہم پیدا کر رہے ہیں ، لیکن ان کی پرورش مغربی اور یہودی تہذیب کررہی ہے،وقت کا تقاضا ہے کہ والدین خواب غفلت سے جاگ جائیں، ورنہ ان کے خواب دنیا ہی میں ٹوٹ کر بکھر جائیں گے، اور ان کی اولاد ان کے لیے صدقہ جاریہ بننے کی بجائے ان کے لیے دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں وبال بن جائیں گی ،اللہ تعالی تمام مومن مرد اور مومن عورتیں کی حفاظت فرمائے آمین۔

مجاہد فانمی
mujahidfanami[@]gmail.com

Bad effects of TV and mobile - Article: Mujahid Fanami

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں