کولکاتا سمینار میں جرمن مصنفہ کی آمد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-16

کولکاتا سمینار میں جرمن مصنفہ کی آمد

کولکتہ سے شائع ہونے والے ماہنامہ انشاء کی دعوت پر جرمن اردو اسکالر ڈاکٹر محترمہ کرسٹینا اوئسٹر ہیلڈ کے کولکتہ آمد پر ان کے اعزازمیں پریس کلب میں ایک ادبی ملاقات کا اہتمام کیا گیا جس میں شہر کے ادبا و اساتذہ اور دانشور حضرات شامل ہوئے ۔ اس موقع پر موصوفہ نے جرمنی میں اردو تعلیم و ادب کے تراجم اور کولکاتا میں اردو ذریعہ تعلیم کے موضوع پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہاکہ جرمن میں اردو دوسری جنگ عظیم سے پہلے متعارف ہے ۔ تاہم اس کا باقاعدہ آغاز دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہوا۔ انہوں نے کہاکہ جب ان کی عمر 1973 میں 20سال تھی تو اس وقت سے انہوں نے اردو سیکھنا شروع کیا۔ آج ہیڈ برگ یونیورسٹی کے تحت ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ جدید جنوبی ایشیا کی لسانیت و ادبیات میں بی اے اور ایم اے میں باقاعدہ اردو پڑھائی جا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر ہندوستانی زبان پڑھانے کا نظم ہے ۔ محترمہ اسی یونیورسٹی میں سینئر لکچر ر ہیں ۔ آج یہاں برصیر کے نامور ادیبوں مثلاً علامہ اقبال، فیض، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، منٹو، جیلانی بانو، انور سجاد، بلراج کومل، وزیر آغا کی تحریروں کا جرمنی میں ترجمہ کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ کولکتہ میں اردو کا مستقبل اسی وقت تابناک محفوظ رہ سکتا ہے جب اسے سرکاری دفتروں اور نجی کمپنیوں میں دفتری زبان بنا کر روزگار سے جوڑا جائے گا۔ اردو کے رسم الخط کو تبدیل کرنے پر کہا گیا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو بہت بڑا المیہ ہو گا۔ شرکا کے پوچھے جانے پر کہ آپ کی اردو سے دلچسپی کیسے ہوئی تو انہوں نے کہاکہ اس زبان سے مجھے محبت ہو گئی۔ اس کی آواز اور تحریر مجھے اچھے لگنے لگے ۔ آج مذکورہ یونیورسٹی میں طلبہ اس کا رسم الخط 2'3 ہفتے میں سیکھ لیتے ہیں ۔ ماہنامہ انشاء کے مدیر ف سی اعجاز نے کہاکہ آپ لندن پریس کا نقشہ لے کر کولکتہ دہلی تا دہلی نہیں گھوم سکتے لیکن ادب ایک ایسا نقشہ ہے اسے کہیں بھی لے جائیں وہ کارآمد ثابت ہو گا۔ ادب دنیا کاپارلیمنٹ ہے ۔ ہماری شاعری میں فلسفہ کا عنصر ہونا ضروری ہے ، فلسفے کا منبع جرمن ہے ۔ اقبال ہمارے اردو کے پہلے فلسفی ہیں ۔ محترمہ اتنی اچھی اردو میں گفتگو کر رہی تھیں کہ انہیں لگ رہا تھا کہ وہ غیر اردو زبان کی خاتون ہیں ۔ اس پر شرکاء نے کہاکہ اتنے ہمارے بچے بھی اردو نہیں بولتے ۔ اس پر محترمہ نے کہاکہ یہ آپ کی مادری زبان ہے ۔ اس لئے اس کی آپ قدر نہیں کرتے ۔ یہی حال جرمنی زبان کے بولنے والوں کا بھی ہے ۔ موصوفہ نے انڈولوجی میں ہجولٹ یونیورسٹی، برلن کے تحت اسکول آف ایشین اینڈ افریقن اسٹڈیز سے 1975ء میں ایم اے کیا۔ اردو ان کا پہلا مضمون تھا اور ہندی و سنسکرت ثانوی مضامین تھے ۔ مہمان انیس رفیع نے کہاکہ آج کی گفتگو سے پتہ چلا کہ یہ ادب کا پارلیمنٹ ہے ۔ صرف مشرقی ادب کے حوالے سے بات چیت نہیں ہوئی بلکہ مغربی ادب سے بھی لوگوں کو روشناس کرایا گیا۔ پوچھے گئے شرکاء کی جانب سے سوالوں کا جواب محترمہ نے بڑے منطقی طورپر دیا۔ پروگرام کے صدر اور جن سنسار کے ایڈیٹر گنیش شرمانے کہاکہ آج جرمن محترمہ سے ملاقات کی سہراف س اعجاز صاحب کو جاتا ہے کہ انہوں نے اس طرح کے پروگرام کا انعقاد کیا۔


German Scholar Dr. Christina Oesterheld attended a seminar at Kolkata by Insha publications.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں