جدید لب و لہجہ کے شاعر رؤف خلش سے ایک مصاحبہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-18

جدید لب و لہجہ کے شاعر رؤف خلش سے ایک مصاحبہ

سوال:
رؤف خلش صاحب ! آپ حیدرآباد میں جدید شاعری کے آغاز سے ہی اس رجحان سے وابستہ رہے ہیں ۔ آپ کا نام ہماری شاعری کے معتبر شعرأ میں سرفہرست آتا ہے ۔ آپ یہ بتلائیے کہ وہ کیا محرکات تھے جن کی وجہ سے اس رجحان کی ابتدأ ہوئی؟
جواب:
روایتی شاعری کے ہر دور میں "جدید شاعری" کی اصطلاح عام ہوتی رہی ہے ۔ اس لحاظ سے غالب بھی اپنے عہد میں "جدید شاعر" رہے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے عہد کی روایتی شاعری کے اصول توڑے تھے ۔ یہ انیسویں صدی کی بات ہے ۔ بیسویں صدی میں اقبال اپنے وقت کے "جدید شاعر" تھے ۔ پھر 1936ء میں سجاد ظہیر "ترقی پسند ادب" کے میر کارواں رہے ۔ 1950ء کے آتے آتے "ترقی پسند ادب"، جسے بنیادی طور مارکسی ادب کہا جاسکتا ہے مارکسزم کی ادّعائیت سے متاثر ہوا اور اس کی جگہ نئے رجحانات اس میں داخل ہوئے جسے جدید ادب کا نام دیا جاسکتا ہے ۔ یہ صورتحال پورے ہندوستان میں ہر زبان کے ادب پر حاوی رہی۔ اس کی دو بنیادی وجوہات رہی ہیں ۔ پہلی وجہ ادب پر "ازم" کا حاوی ہونا اور دوسری وجہ موضوعات اور لب و لہجہ کی تبدیلی۔
سوال:
حیدرآباد میں جدید رجحان سے جو شعرأ روز اول سے وابستہ رہے ہیں ان میں کون شامل تھے ؟
جواب:
نام گنواؤں تو شعرأ کو شکایت ہو گی۔ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ خود ترقی پسند ادیب و شاعر اس میں شامل ہوئے جن میں مخدوم محی الدین، سلیمان اریب، خورشید احمد جامی وغیرہ کے نام لئے جا سکتے ہیں ۔ ان کے بعد آنے والے ادیب و شعرأ میں تاج مہجور، مصحف اقبال توصیفی، رؤف خلش، حسن فرخ، غیاث متین، مسعود عابد، اعظم راہی، ساجد اعظم، احمد جلیس، اعتماد صدیقی، انور رشید، علی ظہیر، طالب خوندمیری، علی الدین نویداور بعد میں آنے والوں میں محسن جلگانوی، مظہر مہدی، یوسف اعظمی، حکیم یوسف حسین خاں اور سنئیر شعرأ میں مضطر مجاز، شفیق فاطمہ شعریٰ، رضا وصفی وغیرہ شامل ہیں ۔ کوئی نام چھوٹ جائے تو معذرت خواہ ہوں ۔
سوال:
جدیدیت اور جدت پسندی کی مختلف تاویلات پیش کی جاتی ہیں ۔ کیا آپ اس باب میں کچھ تفصیل سے بتلانے کی زحمت کریں گے ؟
جواب:
جدیدیت اور جدت پسندی کی اصطلاحیں عموماً ترقی پسند ادب کے مقابل نئے لب و لہجے و نئے موضوعات کے طور پر رائج رہی ہیں ۔ مثال کے طور پر ترقی پسند ادب کا غالب رجحان عوام کے مسائل کو ادب میں جگہ دینا رہا ہے جبکہ جدیدیت کے رجحان نے اس کے مقابل شخصی و نجی مسائل کو جگہ دی اور محبت و عاشقی کے فرسودہ موضوعات کو بدل دیا۔ ایسے احساسات اور رجحانات کو جو بدلتے ہوئے معاشرے میں پیدا ہورہے تھے، ادب کا موضوع بنایا۔
سوال:
آج کے عہد کو مابعد جدیدیت کا عہد کہا جا رہا ہے ۔ اس مرحلہ پر میں آپ سے دو سوالات کرنا چا ہوں گا کہ کیا واقعی یہ عہد ما بعد جدیدیت کے عہد میں سانس لے رہا ہے ؟ اور کیا جدید رجحان کا عہد ختم ہو گیا؟
جواب:
آج کا عہد ہر عہد کی طرح دونوں رجحانات کا حامل رہا ہے ۔ آج کے ادیب و شعرأ پورے کے پورے نہ جدید رجحان کے حامی رہے ہیں اور نہ روایتی رجحان کے ۔ پتہ نہیں "ما بعد جدیدیت" کی اصطلاح کس نے اختیار کی کیونکہ "جدیدیت" کوئی مخصوص عہد کی دین نہیں ہے جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ ہر عہد میں روایتی اور جدید دونوں رجحان رائج رہے ہیں ۔ اسلئے یہ کہنا درست نہیں کہ جدید رجحان کا عہد ختم ہو گیا۔
سوال:
آپ ما بعد جدید عہد کو رجحان سمجھتے ہیں یا تحریک اور اس کی موجودہ عہد میں کیا معنویت ہے ؟
جواب:
جب جدید عہد کا تعین ہی مشکل ہے تو ما بعد جدیدعہد کا تعین کس طرح کیا جا سکتا ہے ۔ ویسے ترقی پسند ادب بھی ایک رجحان تھا جس کو تحریک کہا گیا البتہ موجودہ عہد میں موضوع اور لب و لہجہ کی تبدیلی کے لحاظ سے موجودہ ادب کی بڑی معنوعیت ہے۔ پھر بھی میرا یہ احساس اپنی جگہ قائم ہے کہ روایت اور جدیدیت ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں ۔
سوال:
حیدرآباد لٹریری فورم(مخفف:حلف)،جدید رجحان کے تخلیق کاروں کی انجمن رہی ہے، پچھلی صدی کے ساتویں اور آٹھویں دہے میں اس کی کارکر دگی بامِ عروج پر تھی، آج کل اس پر پژمردگی سی چھائی ہوئی ہے ۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟
جواب:
جب بھی کوئی رجحان اور تحریک کسی گروپ کے تحت فروغ پاتے ہیں تو لازماً اس گروپ کے ادیبوں اور شاعروں میں ایک قسم کا جوش پایا جاتا ہے اور حلف کی کارکر دگی بھی آپ ہی کے الفاظ میں بامِ عروج پر رہی۔ جہاں تک آپ کے کہنے کا تعلق ہے کہ آجکل اس پر پژ مردگی سی چھائی ہوئی ہے ۔ ایسا نہیں ہے ۔ اپنے اپنے طور پر سہی، انفرادی حیثیت سے اس فورم کا ادیب و شاعر آج بھی سرگرم عمل ہے ۔ جیسا کہ ترقی پسند تحریک کے زمانے میں رہا۔ کیا آج ترقی پسند ادب کام نہیں کر رہا ہے ؟بالکل کر رہا ہے البتہ اس کے رجحان میں تبدیلی آ رہی ہے ۔
سوال:
"حلف"کے اراکین کا ہمیشہ ایک مخصوص اور محدود حلقہ رہا ہے ۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس میں تازہ کار اور تازہ ذہن لوگوں کو شامل کیا جانا چاہئیے ؟
جواب:
حلف کے اراکین کا ایک مخصوص اور محدود حلقہ اس لئے رہا کہ حلف نے ہمیشہ ایسے ہی ادیبوں اور شعرأ کو شامل رکھا جو حلف کے مقاصد سے پوری طرح متفق رہے اور اس میں تازہ کار اور تازہ ذہن کو شامل کرنے کی ہمیشہ گنجائش رہی ہے بشرطیکہ وہ حلف کے اصولوں پر پورے اترتے ہوں ۔ ویسے بھی ان دنوں کسی انجمن یا فورم کی گنجائش نہیں رہی کیونکہ انفرادی طور پر ہر ادیب و شاعر اپنے اپنے طور پر تخلیقی کام انجام دے رہا ہے ۔ جس کی ایک واضح جھلک آج کے الکٹرانک سوشل میڈیا پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔
سوال:
آپ ایک طویل عرصے تک سعودی عرب میں برسرکار رہے ۔ اپنی ملازمت سے ہٹ کر وہاں آپ کی کیا ادبی مصروفیات رہیں ؟ اس پر کچھ روشنی ڈالیں ۔
جواب:
میں سعودی عرب میں کوئی 15 سال(1981ء تا 1996ء)تک برسرکار رہا۔ وہاں حیدرآباد کے علاوہ برصغیر ہند و پاک کے مختلف اردو علاقوں کے ادیب و شعرأ بھی برسر روزگار تھے جنھوں نے ایک ادبی انجمن قائم کر رکھی تھی جسے "حلقۂ اربابِ ذوق" کا نام دیا گیا تھا۔ دیگر ممالک سے جو ادیب و شاعر حج یا عمرہ پر تشریف لایا کرتے تھے انھیں بھی مہمانان خصوصی کے بطور اس انجمن کی محفلوں میں شریک کیا جاتا تھا جن میں قابل ذکر احمد ندیم قاسمی، صہبا لکھنوی، احمد فراز، والی آسی، حفیظ میرٹھی وغیرہ رہے ہیں ۔ احمد ندیم قاسمی کے تعلق سے ان دنوں وہاں کی محفلوں میں یہ فقرہ گونجتا تھا کہ موصوف تو کمیونسٹ ہیں ۔ یہ کس طرح طواف کعبہ کے لئے آ گئے ۔ اس وقت میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا تھا کہ موصوف نے اپنا قبلہ بدل لیا ہے ۔
سوال:
آپ کو نثر و نظم پر یکساں دسترس رہی ہے لیکن آپ کی اب تک کوئی نثری کتاب منظر عام پر نہیں آئی ہے ۔ کوئی خاص وجہ؟
جواب:
میرے مختلف مضامین پر مشتمل ایک نثری کتاب ابھی حال ہی میں یعنی ڈسمبر 2012ء میں بعنوان "حکایت نقد جاں کی" شائع ہوئی ہے ۔ جن میں تبصرے بھی ہیں، محفلوں کی روداد بھی اور شخصیات پر خاکے بھی ہیں ۔ ویسے میں بنیادی طور پر شاعر ہوں ۔ ان مضامین کی اشاعت کی جانب میں نے کوئی توجہ نہ کی تھی۔ میرے فرزند ثانی سروئیر سید معظم راز، جن کا نکھرا ستھرا ادبی ذوق ہے نے دلچسپی لیتے ہوئے میرے زائد از نصف صدی پر محیط ادبی سفر کے دوران تحریر کردہ ان گنت تحریروں میں سے دستیاب (52) مضامین کو اکٹھا کر کے کتابی شکل میں شائع کیا ہے اور میرے فرزند اولیٰ انجنئیرسید مکرم نیاز، جو خود بھی افسانہ نگار ہیں اور ہمیشہ اردو زبان وادب کی ترویج اور اس کو عصری ٹکنالوجی سے جوڑنے میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں ، میرے اس نثری مجموعے کے علاوہ اب تک کی شائع شدہ تمام تصانیف اور میرے فن و شخصیت سے متعلق تمام تر تفصیلات کو اپنے ادارے "تعمیر ویب ڈیولپمنٹ" www.taemeer.com کے تحت www.raoofkhalish.com نامی ویب سائٹ پر پیش کیا ہے۔
سوال:
شاعری میں آپ کی کون کون سی کتابیں منظر عام پر آئی ہیں ؟
جواب:
میرے اب تک چار شعری مجموعے منظر عام پر آئے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے : 1۔ نئی رتوں کا سفر(1979ء)، 2۔ صحرا صحرا اجنبی(1988ء)، 3۔ شاخِ زیتوں (1998ء)، 4۔ شاخسانہ(2007)۔
سوال:
نظم و غزل دونوں میں آپ کس صنف کو اہمیت دیتے ہیں اور کیوں ؟
جواب:
میری نظر میں غزل سے زیادہ نظم کی اہمیت ہے ۔ غزل کے سانچے تو بندھے ٹکے اور قافیہ ردیف کے حامل ہوتے ہیں اور ایک نو آموز شاعر بہ آسانی غزل کہہ سکتا ہے لیکن نظم کا فارم نسبتاً مشکل ہے اور شاعر نظم مقفیٰ، نظم غیر مقفیٰ اور حالیہ صنف "نثری نظم" میں اپنی صلاحیتوں کو منوا سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے مسائل چاہے وہ رومانی ہوں ، غیر رومانی ہوں یا سیاسی ہوں ،غزل سے زیادہ نظم میں جگہ پا سکتے ہیں ۔
سوال:
خورشید احمد جامی کو جدید شاعری کا اولین سربراہ مانا گیا ہے۔ کیا آپ اس سے متفق ہیں اگر ہاں تو کیوں ؟
جواب:
میں اس بات سے بالکل متفق ہوں کہ ہندوستان میں خورشید احمدجدید غزل کے اولین سربراہ ہیں ۔ اس کی وجوہات کئی ہیں، لیکن ایک اہم وجہ جامی صاحب کا برصغیر ہند و پاک کے جریدوں کا بہ نظرغائر مطالعہ ہے ۔ موصوف ان رسائل و جرائد میں شائع بھی ہوتے تھے ۔ وہ مشاعروں کے شاعر نہیں تھے لیکن ان کاذہن روایتی ڈھانچے کی غزلیہ شاعری سے مطمئن نہیں تھا۔ بطور نمونہ ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو ؂
یہ اور بات ہے کہ تعارف نہ ہو سکا
ہم زندگی کے ساتھ بہت دور تک گئے
سوال:
جدید شاعری کے ابتدائی ایام میں حیدرآباد میں کون کون سے شاعر تھے جن سے آپ متاثر رہے ؟
جواب:
شعوری طور پر تو میں کسی شاعر سے متاثر نہیں رہا البتہ غیر شعوری طور پر خورشید احمد جامی کا نام ذہن میں آتا ہے جن سے نہ صرف میں بلکہ میرے ساتھ بیشتر جدید شاعر متاثر رہے ہیں اس کی وجہ موصوف کا وہ نیاطرز کلام ہے جو انھوں نے اپنی ابتدائی شاعری کو(جو روایتی شاعری سے قریب تھی)چھوڑکر اپنایا تھا۔
سوال:
ان ادیبوں اور شاعروں کے نام بتائیں جنھوں نے حیدرآباد کے ادیبوں اور شاعروں کو برصغیر کی مختلف جہتوں تک پہنچایا؟
جواب:
پھر یہاں پر وہی جانب داری کا الزام مجھ پر لگ جائے گا۔ ویسے اس سوال کا جواب میں پہلے دے چکا ہوں جہاں آپ نے پوچھا تھا کہ حیدرآباد میں جدید رجحان سے جو شعرأ روز اوّل سے وابستہ رہے ان میں کون شامل تھے ۔
سوال:
آپ کے کن کن مشاہرین ادب سے مراسم وتعلقات رہے ہیں ؟
جواب:
سنئیر شعرأ میں مخدوم محی الدین، سلیمان اریب اور خورشد احمد جامی۔ ان میں جامی صاحب مشاعروں میں شرکت نہیں کرتے تھے ۔ صرف اپنا کلام ادبی رسالوں میں برائے اشاعت بھیجا کرتے تھے ۔ بعد کے ادیب و شعرأ میں حکیم یوسف حسین خان، مضطر مجاز، شفیق فاطمہ شعریٰ(جوتاحیات ہم محلہ رہیں )اورضا وصفی وغیرہ ہیں ۔
سوال:
ادھر پچھلے چند برسوں میں جدید تخلیق کاروں میں سے کئی لوگ رحلت کرگئے ۔ آپ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
جواب:
میں اس سوال کو سمجھ نہیں سکا۔ اگر آپ کی مراد ان جدید تخلیق کاروں کی ادبی زندگی سے ہے کہ ان جدید تخلیق کاروں نے عصری ادب پر کیا اثر ڈالا تو جواب یہ ہے کہ انھوں نے روایتی ادب کے اثرات کو کم کر کے جدت طرازی کے اثرات سے عصری ادب کو روشناس کروایاجو ہر دور کا تقاضہ رہا ہے ۔ اس ضمن میں مزید تفصیل آپ کے پچھلے سوال کے جواب میں ، میں نے دے دی ہے ۔
سوال:
آج جدید لہجے کے شاعروں اور ادیبوں میں کون سی شخصیات ہیں جو ہمارے شہر کی نمائندگی کرتی ہیں ؟
جواب:
اس سوال کا جواب بھی میں پہلے دے چکا ہوں جب آپ نے ابتدا ہی میں جدیدت کے رجحان سے روز اول سے وابستہ رہنے والے ادیب و شعرأ کے نام معلوم کئے تھے ۔
سوال:
آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے خود کو مشاعروں کی شہرت کی جانب راغب نہیں کیا۔ ایسا کیوں ؟
جواب:
مشاعروں میں جو شاعری پیش کی جاتی ہے وہ عام پسندیعنی عوام کی پسندیدہ ہوتی ہے اور شاعروں کو بھی اس کی سطح پر آنا پڑتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے مشاعروں کی شہرت کی جانب رغبت نہیں ہوئی۔
سوال:
آپ نے اپنے کلام کی ہند و پاک کے رسائل و جرائد میں اشاعت پر توجہ نہیں دی، کوئی خاص وجہ؟
جواب:
ایسی بات نہیں ہے ۔ کوئی ربع صدی قبل ہند و پاک میں بیسیوں ادبی رسائل وجرائد شائع ہوا کرتے تھے جن میں پابندی کے ساتھ میں اپنا کلام بغرض اشاعت بھیجا کرتا تھا اور مشاعروں میں کلام سنانے کو ضروری نہیں سمجھتا تھا۔ ان دنوں آپ خود اندازہ لگائیے کہ کتنے ادبی رسائل شائع ہورہے ہیں ؟ظاہر ہے پڑھنے والوں کی تعداد کم ہو گئی۔ رسائل بھی شائع ہونا کم ہو گئے ۔ البتہ عصر حاضر کی جدید تکنالوجی کے طفیل دنیا سمٹ کر "گلوبل ولیج" میں تبدیل ہو گئی ہے اور اب متبادل طور پر ای۔ میگزینس اور ادبی جرائد و رسائل کی اپنی ویب سائیٹس دستیاب ہیں ۔ بات اب اس عصری تکنالوجی کو اپنانے کی ہے ۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے ، اب میرا بیشتر تازہ کلام میری ویب سائٹ پر لفظ!فقرہ کی تلاش کی سہولت کے ساتھ یونیکوڈ اردو میں دستیاب ہے ۔
سوال:
جہاں تک مجھے یاد ہے ، آپ کا پہلا تعارف پیکر کانفرنس میں ہوا تھا جو"جشن پیکر"کا نام سے 1971ء میں منعقدہ ہوئی تھی۔ ان دنوں پیکر گروپ میں نئے اور تازہ کار و فعال نوجوان فنکار شامل تھے ۔ ادارۂ پیکر کس طرح وجود میں آیا اور کارکر دگی کیا تھی؟
جواب:
60ء کی دہائی میں ادبی رسائل و جرائد اپنے ناظر ین و قارئین کا وسیع حلقہ رکھتے تھے صحیح معنوں میں مداحوں کی مدح سرائی کا رواج عام تھا۔ اسی دور میں "پیکر" منظر عام پر آیا جو اپنے جلو میں نئے لکھنے والوں کی ایک کھیپ ساتھ لایا اور ایک مکمل ماہ نامے کا دعویٰ اس نے ایوان ادب میں نہایت خود اعتمادی سے کیا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ میرا پہلا تعارف "پیکر کانفرنس"میں ہوا تھا جو "جشنِ پیکر"کے نام سے اپریل 1971ء میں منعقد ہوئی تھی۔ یہ بھی درست ہے کہ نئے اور تازہ کار فعال نوجوان فنکار اس جانب راغب ہوئے ۔ وہ دور جدیدیت کے رجحان اور نئے لکھنے والوں کی یلغار کو طور پر یاد رکھا جائے گا۔ پیکر کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے نہ صرف باصلاحیت تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کی تخلیقات کو ردی کی ٹوکریوں میں ڈالنے کے بجائے پیکر کے صفحات کی زینت بنایا۔ ادارۂ پیکر نے ایک طرح سے نوشتۂ دیوار پڑھ لیا تھا کہ آنے والے ادبی افق پر یہی نئے لکھنے والے کہکشاں بننے والے ہیں ۔
سوال:
کہا جاتا ہے کہ یہی گروپ"حلف" میں تبدیل ہوا اور جدیدیت کی ابتدأ یہیں سے ہوئی ہے ؟اس میں کہاں تک سچائی ہے ؟
جواب:
یہ بات بالکل سچ ہے کہ جدیدیت کی ابتدأ "حلف"کے گروپ سے ہوئی جو "ادارۂ پیکر" سے وابستہ ادیبوں و شاعروں پر مشتمل تھا۔ 1936ء سے شروع ہونے والی ترقی پسند تحریک کوئی ربع صدی تک جاری رہی جس میں اشتراکی یا مارکسی نظریات کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا تھا لیکن وہ اپنی انتہاپسندی یا شدت پسندی کے سبب جلد ہی اختلافات کا شکار ہو گئی۔ 1960ء کے آس پاس اس تحریک کے ردّعمل کے نتیجہ میں جدیدیت کے رجحان نے زور پکڑا۔ اس رجحان نے یکسانیت کے عمل کو توڑا اور ٹھنڈی ہوا کے شاداب جھونکوں کی طرح ادب کی مختلف اصناف میں تازگی و تبدیلی پیدا کی۔ پیکر گروپ !حلف میں شامل ادیب و شعرأ کی سب سے بڑی خصوصیت"نا وابستگی" تھی یعنی یہ ادیب و شاعر کسی نظرئیے یا ازم کا "پرچارک" یا "مبلغ" نہیں تھے بلکہ ان کی وابستگی زندگی اور زندگی کے مسائل سے تھی یعنی غم ذات، تنہائی، فرد کی پہچان ان کی تخلیقات کا سبب بنی۔
سوال:
آج کا علمی و ادبی منظر نامہ دھندلا گیا ہے ؟آپ کا کیا خیال ہے ؟
جواب:
بالکل صحیح ہے ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ ایک تو آج کے نوجوانوں میں مطالعہ کا فقدان ہے اور وہ دیگر غیر ادبی مصروفیات میں زیادہ دلچسپی دکھاتے ہیں ۔ کوئی ربع صدی قبل ایسا نہیں تھا۔ اب تو رسالے بھی شائع ہونا کم ہو گئے ہیں ۔ دوسری اہم وجہ موجودہ نسل کی اردو زبان و ادب سے دوری ہے ۔ میں نے پہلے بھی کہیں لکھا ہے کہ کل کا قاری آج کا ناظر یا سامع بن گیا ہے ۔ وہ ادب کو راست کتاب کے ذریعہ پڑھنے کے بجائے اس کی ویڈیو فلم دیکھ لیتا ہے جو کسی افسانے یا ناول پر مبنی ہوتی ہے ۔ شاعری کی قرأت مجموعۂ کلام سے کرنے کے بجائے ٹیبلٹ پی.سی. یا اسمارٹ فون پر MP3پر سن لیتا ہے ۔ یہ تو خیر میرا اپنا خیال ہے لیکن جب میں اپنی اولاد اور ان کی ہمعصر نسل سے الکٹرانک سوشل میڈیا جیسے فیس بک [facebook] اور ٹویٹر [twitter] وغیرہ پر اردو شعر و ادب کی ترویج اور فروغ کی باتیں سنتا ہوں اور ایسے معاملات بھی میرے علم میں لائے جاتے ہیں کہ کس طرح عوامی سطح پر معروف و مقبول شعرا و ادبا کی معتد بہ تعداد سوشل میڈیا کے ان ذرائع سے معقول استفادہ کرتے ہوئے اردو زبان و ادب کی ترویج میں مصروف بہ کار ہے ، اور کس طرح آج کے نوجوان جدید اور کلاسیکی ادب کو انٹرنیٹ پر اس طرح محفوظ کر رہے ہیں کہ انگلی کی ایک جنبش پر کسی بھی شاعر کی غزل یا کسی بھی مشہور شعر کے دونوں مصرعے تلاش پر سامنے آ جائیں ، تب خوشگوار احساس ضرور ہوتا ہے کہ اردو کے علمی و ادبی زخیرے کو جدید تکنالوجی کے ذریعے جس طرح محفوظ کیا جا رہا ہے ، وہ ممکن ہے ادبی تاریخ کا مستند حصہ بنے اور مستقبل کی نسل کی تحقیق کے کام آئے ۔ اس کے باوجود میری ہی نہیں بلکہ ہر سنجیدہ ادب دوست کی یہی خواہش رہے گی کہ نئی نسل میں بھی نئے مخدوم اور جامی پیدا ہوں اور اس کے لیے ظاہر ہے کہ جہاں نئی نسل کو اپنے مطالعے کی گہرائی اور گیرائی کی سمت توجہ دیتے ہوئے اساتذہ سے تخلیقی سطح پر رہنمائی حاصل کرنا چاہیے وہیں شعر و ادب کے اساتذہ و ناقدین کا فرض بنتا ہے کہ وہ حقیقی تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ رکھیں ۔

***
Mohsin Jalganvi
Mob.: 09505967365
Flat No. 505, Block-A, Shanti Garden Apartments, Nacharam, Hyderabad-500076
محسن جلگانوی

An interview of Raoof Khalish by Mohsin jalganvi

2 تبصرے:

  1. واہ واہ بہت خوب مکرم نیاز روف بھائی کا انٹرویوپڑھ کر خوشی ہوئی

    جواب دیںحذف کریں