سمینار - اردو ذریعہ تعلیم اوراس کا مستقبل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-18

سمینار - اردو ذریعہ تعلیم اوراس کا مستقبل

اردو کو نکارنا اپنے پیر کو تن سے جدا کر دینے کے مترادف ہے :جسٹس کاٹجو
اس تہذیب کو آزاد ہندوستان میں فنا کرنے کی ناپاک کوشش انجام دی گئی:محمد ادیب
"اردو ذریعہ تعلیم اوراس کا مستقبل" کے عنوان سے سمینار کا انعقاد

دہلی:حرمین ایجوکیشن سوسائٹی کے زیراہتمام حج منزل ترکمان گیٹ میں بہ تعاون قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان ایک سمینار کا انعقاد "بعنوان"اردوذریعہ تعلیم اوراس کا مستقبل" کیا گیا۔ اس موقع پر چند اردوصحافی اور سماجی کارکن اعزازات سے بھی نوازے گیے ۔ پروگرام کا افتتاح پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے کیا۔ مہمان ذی وقار ممبر آف پارلیمنٹ محمد ادیب نے بھی شرکت کی ۔ ان کے علاوہ ڈائریکٹر این سی پی یوایل ڈاکٹر خواجہ ا کرام الدین بھی مدعوتھے ۔ جب کہ نظامت عشرت جمیل کر رہے تھے ۔ پروگرام کا باضابطہ آغاز تلاوت کلام پاک سے حافظ امتیاز احمدنے کیا۔ اردو کی صورت حال کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے جسٹس مارکنڈے کاٹجونے کہاکہ ہندوستان میں جو جمہوریت قائم ہے اس کی بنیاد اکبر نے ڈالی تھی۔ اردو اورسنسکریت ہماری تہذیب کاحصہ ہے ۔ اردو کو نکارنا اپنے پیر کو تن سے جدا کر دینے کے مترادف ہے ۔ اردو کے ساتھ کافی نا انصافی ہوئی ہے،انگریزوں نے یہ نظریہ قائم کر دیاکہ ہندی ہندؤں کی اوراردو زبان مسلمانوں کی ہے ۔ جب کہ اردو خالص جمہوری زبان ہے ۔ اردو میں جس طریقے سے دل کی آواز بلند کی جاسکتی ہے ،وہ آواز دنیاکی کسی بھی شاعری میں نہیں کی جاسکتی ۔ مگر صدافسوس ہم اپنی وراثت کو فراموش کرتے جا رہے ہیں ۔ سبھی مذاہب کے لوگ اردو شاعری اورفکشن کو پڑھتے ہیں ،کسی اورزبان کی جانب رجوع کرنا مناسب نہیں سمجھتے کیوں کہ اردو کی چاشنی کہیں اورنہیں ملتی۔ اردو عوامی زبان تھی اورہے ۔ اپنی تہذیب کو فراموش کر کے کبھی ترقی نہیں کیاجاسکتا۔ آپ لوگوں کو حکومت اترپردیش سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ میں نے ۱۹۹۴ء میں اردو کو تیسری جماعت تاساتویں جماعت تک لازمی قرار دیے جانے کا فیصلہ دیا تھا، اسے نافذ کیاجائے ۔ اس کے بعد دیگر ریاستوں میں بھی یہ آواز بلند کی جائے تبھی اردوکوانصاف ملنا ممکن ہے ۔ ممبر آف پارلیمنٹ محمد ادیب نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ اردو زبان ایک تہذیب کا نام ہے ۔ اس تہذیب کو آزاد ہندوستان میں فنا کرنے کی ناپاک کوشش انجام دی گئی۔ اس زبان کے اتنے قاتل کھڑے ہو چکے ہیں کہ ان سے نجات حاصل کرنا مشکل امر ہو چکا ہے ۔ زبان اردو کے ساتھ تعصب کی انتہایہاں تک ہوئی کہ مغل اعظم جیسی فلموں کو بھی اردو کہنے کی کسی نے جرأت نہیں کی اور ان فلموں کو ہندی کا نام دیا گیا۔ جب کہ یہ وہ فلمیں ایسی ہیں جن کو سمجھنا آج بھی نئی نسل کے بس کی بات نہیں ۔ بدقسمتی تویہ ہے کہ اردو جاننے والوں کے جنگ آزادی میں احسانات کو بھی فراموش کر دیا گیا۔ جب کہ جنگ آزادی میں اردو صحافت نے جو کردار اداکیا ہے اسے فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ ڈاکٹر خواجہ ا کرام الدین نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہندوستان کثرت میں وحدت کا نمونہ ہے ۔ یہاں کی تہذیب اورزبان کو ایک دوسرے سے قطعی جدانہیں کیاجاسکتا ہے ۔ ہندوستان کی تمام زبانوں کی ماں سنسکریت مٹ گئی اورہماری مادری زبان اردو بھی فراموش کی جا رہی ہے ۔ اردو کو حق تبھی ملے گا جب اسے ذریعہ تعلیم بناجائے ۔ ہندوستان میں نہ صرف اردو بلکہ تمام زبانوں کو یہ حق دیاجائے،تاکہ اس زبان کو ذریعہ تعلیم بنایاجائے ،اور روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں ۔ کلیدی خطبہ دیتے ہوئے دہلی یونیورسٹی کے سابق صدرشعبہ اردو پروفیسر عتیق اللہ نے کہاکہ سب سے بڑا مسئلہ اردو کے مستقبل کا ہے جس پر مستقل گفتگو ہورہی ہے ۔ اردو مسائل اورذریعہ تعلیم کی نوعیت مختلف ریاستوں میں مختلف نظرآتی ہے ۔ سب سے بڑی وجہ ۴۷ سے قبل اور بعد ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے اردوکی جگہ ہندی تبدیل کیاجانا ہے ۔ اب سبھی ریاستوں میں ذریعہ تعلیم انگریزی ہوتاجا رہا ہے جس کے سبب مقامی زبانیں زوال پذیر ہیں ۔ ذریعہ تعلیم اگرہماری مادری زبان ہوتو ذہن وسیع ہوناممکن ہے ۔ کیوں کہ ہماری مادری زبان تخیل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔ سمینارکی صدارت پروفیسر عتیق اللہ،پروفیسر ابن کنول اورشیخ الدین اسعدی نے کی جب کہ مقالہ نگاروں میں پروفیسر غضنفر علی،پروفیسر انور پاشا،ڈاکٹر امحمدامتیاز،جمیل الرحمن پروفیسر اقبال مسعود وغیرہ قابل ذکرہیں ۔ شرکاء میں سابق کونسلر محمود ضیاء،علیم الدین اسعدی،فاروق انجینئر، حسنین اختر،حاجی قیام الدین،مسعود ضیاء، نثارحسین،سلمان فاروقی،عمردین، جمیل انجم دہلوی،شفیع دہلوی،محمد سبحان،چودھری عباس علی،نواب الدین،اسعدمیاں،محمدسبحان کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ پروگرام کے اختتام پر سوسائٹی کے جنرل سکریٹری فرید احمد نے اظہار تشکرکیا۔

سید عینین علی حق

Seminar on "Urdu, medium of instruction and its future"

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں