ورون گاندھی - مسلم دشمنی کے الزام سے بری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-03

ورون گاندھی - مسلم دشمنی کے الزام سے بری

مسلمانوں کے ہاتھ پیر کاٹ لینے کی دھمکیاں دینے والے بی جے پی ممبر پارلیمنٹ ورون گاندھی کو تمام الزامات سے "باعزت " بری کر دیا گیا ہے ۔
انہوں نے 2009ء کے پارلیمانی انتخابات کے دوران اپنے حلقہ پیلی بھیت میں دو ایسی تقریریں کی تھیں جنہیں فرقہ وارانہ طور پر انتہائی خطرناک قرار دیا گیا تھا۔ اسی لئے مقامی انتظامیہ نے ورون گاندھی کے خلاف تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے علاوہ عوامی نمائندگی قانون کی خلاف ورزی کا کیس بھی درج کیا تھا۔ ان کی تقریر کے بعد حالات اس حد تک خراب ہو گئے تھے کہ پولیس نے انہیں قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے ) کے تحت گرفتار کر کے تین ہفتے جیل میں رکھا۔
باقاعدہ فرد جرم داخل ہوئی لیکن جب مقدمہ عدالت میں پہنچا تو تمام کے تمام 24 گواہ اپنے بیانات سے مکر گئے اور پیلی بھیت کی ایک عدالت نے ورون گاندھی کو فرقہ ارانہ منافرت پھیلانے کے الزام سے بری کر دیا۔
سپریم کورٹ نے ورون کے اوپر سے این ایس اے ہٹانے کے احکامات پہلے ہی جاری کر دئے تھے ۔ سرکاری وکیل این پی ورما کا کہنا ہے کہ ورون کے خلاف ان کے پاس گواہوں کے علاوہ کوئی دوسرا ثبوت ہی نہیں تھا لہذا تمام گواہوں کے منحرف ہو جانے کے بعد یہ معاملہ ختم ہو گیا۔

قابل ذکر ہے کہ پچھلے دنوں ورون گاندھی نے اترپردیش کی اکھلیش یادو سرکار سے گذارش کی تھی کہ مایاوتی انتظامیہ نے چونکہ سیاسی وجوہات کی بناء پر ان کے خلاف کیس درج کیا تھا لہذا اب جب کہ حکومت تبدیل ہو گئی ہے تو الزامات واپس لے لئے جائیں ۔ یوپی سرکار کو پیش کی گئی اس درخواست کے بعد ہی عدالت نے ورون گاندھی کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔
یہ محض اتفاق ہے کہ جس دن عدالت نے یہ فیصلہ صادر کیا اسی روز سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو نے پارلیمنٹ میں بی جے پی سے اپنی قربت کے واضح اشارے بھی دئیے ۔ ورون گاندھی کے خلاف اپنے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کا مقدمہ دائر کرنے والے ایک سماجی کارکن اسد حیات کا کہنا ہے کہ ورون کی تقریر کی باقاعدہ ریکارڈنگ موجود ہے اور پولیس نے اس کی فارنسک جانچ کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی ۔

ورون گاندھی کو مسلمانوں کے خلاف آخری درجے کی منافرت پھیلانے کے الزامات سے ایک ایسے وقت بری کیا گیا ہے جب حیدرآباد کے رکن اسمبلی اکبر الدین اویسی کی مبینہ اشتعال انگیز تقریر کی جانچ نہایت باریکی سے کی جا رہی ہے ۔ انہیں تقریباً دو ماہ جیل میں رکھ کر بڑی مشکل سے ضمانت دی گئی ہے ۔
آندھرا اسمبلی میں مجلس اتحاد المسلمین کے فلور لیڈر اکبر الدین اویسی پر نرمل قصبے میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا جو مقدمہ درج کیا گیا ہے اس میں جان بوجھ کر بغاوت کی دفعہ بھی شامل کی گئی ہے تاکہ انہیں تادیر ہراساں کیا جاتا رہے ۔ ایک طرف اکبر الدین اویسی پر عرصہ حیات تنگ کرنا اور دوسری طرف کھلے عام مسلمانوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ لینے کی دھمکیاں دینے والے ورون گاندھی کو عدالت سے باعزت بری کیا جانا، دراصل ہمارے نظام کے تعصب، تنگ نظری ، دوغلے پن اور مسلم دشمنی کو ہی اجاگر کرتا ہے۔

آئین کی رو سے اس ملک کا ہر شہری یکساں حقوق کا حامل ہے اور اس پر قانون کا نفاذ بھی یکساں طورپر ہی ہونا چاہئے ۔ ہندوستان کے کسی شہری کے ساتھ اس کے مذہب، زبان، ذات یا علاقے کی بنیاد پر تعصب سے کام لینا قابل تعزیر جرم ہے ۔
لیکن عملی زندگی میں ہمیں قدم قدم پر اس حقیقت کا مشاہدہ ہورہا ہے کہ اس ملک میں قانون نافذ کرنے کے دو پیمانے رائج ہیں ۔
ایک قانون وہ ہے جو اکثریتی فرقے پر نافذ ہوتا ہے اور جس پر سو خون معاف کرنے والی کہاوت صادق آتی ہے ۔ دوسرا قانون وہ ہے جو مسلمانوں پر روبہ عمل لایا جاتا ہے اور جس میں غیر ضروری طور پر چھینکنا بھی تعزیرات ہند کی تمام دفعات کو متحرک کرنے کیلئے کافی ہے ۔
ورنہ کیا وجہ ہے کہ اکبر الدین اویسی جیسے لوگوں کو اشتعال انگیزی کی ایسی سخت سزا دی جاتی ہے اور ورون گاندھی یا پروین توگڑیا جیسے آگ گلنے اور خاک پھانکنے والے لیڈروں کو ہندوستان کے سیکولر آئین کے سینے پر مونگ دلنے کی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے؟

ورون گاندھی کا معاملہ اتنا واضح اور نمایاں تھا کہ انہیں کسی بھی صورت میں قانون کی گرفت سے چھوٹنا نہیں چاہئے تھا۔ 17/مارچ 2009ء کو پولیس نے اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں ان کے خلاف کیس درج کیا۔
بعد ازاں 19/فروری کو الیکشن کمیشن کی ہدایت پر ان کے خلاف دوسری ایف آئی آر درج ہوئی۔ ان پر پیلی بھیت میں اشتعال انگیز کا تیسرا مقدمہ بھی اسی دوران درج کیا گیا۔ 29/مارچ کو اس وقت کی مایاوتی سرکار نے ورون گاندھی کے خلاف نیشنل سکیورٹی ایکٹ ( این ایس اے ) کے تحت کار روائی کرتے ہوئے انہیں گرفتار کر کے ایٹہ جیل بھیج دیا۔ جہاں انہوں نے تین ہفتے گذارے ۔ اس دوران 3 جولائی کو مایاوتی سرکار نے پیلی بھیت پولیس کو ورون گاندھی کے خلاف فرد جرم داخل کرنے کی اجازت دی۔
اس دوران حیرت انگیز طورپر گذشتہ سال 14/مئی 2012ء کو سپریم کورٹ کی ہدایت پر ورون گاندھی کے خلاف این ایس اے کے تحت الزامات رد کر دئیے گئے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جولائی 2009ء میں پولیس نے ورون گاندھی کی تقریر والی ویڈیو ضبط کر لی تھی لیکن اسے کسی فارنسک لیباریٹری میں جانچ کیلئے نہیں بھیجا گیا اور نہ ہی ورون گاندھی کی آواز کے نمونے ریکارڈ کئے گئے ۔

30/نومبر 2012ء کو عدالت نے ٹرائل کا حکم دیا اور ورون گاندھی نے اپنے دفاع میں کہا کہ ان کی تقریر کی ویڈیو سے چھیڑچھاڑ کی گئی ہے ۔ قابل ذکر ہے کہ ورون گاندھی نے اپنے اس دفاعی بیان کا کوئی دستاویزی ثبوت پیش نہیں کیا لیکن اس کے باوجود 27/فروری 2013ء کو تمام 24 گوا ہوں کے منحرف ہونے کی وجہہ سے انہیں نفرت آمیز تقریر کے الزام سے بری کر دیا گیا۔
پیلی بھیت کی عدالت نے عوامی کونسل آف ڈیموکریسی اینڈ پیس الہ آباد کے جنرل سکریٹری محمد اسد حیات کی اس درخواست کو مسترد کر دیا ہے جس میں عرضی گذار نے یہ کہا تھا کہ ورون گاندھی کی تقریر سے چونکہ ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے لہذا ورون گاندھی کے خلاف کاروائی کی جائے ۔
اسد حیات کا الزام ہے کہ پولیس نے ورون گاندھی کی آواز کے نمونوں کی فارنسک چانچ نہیں کرائی اور اس معاملہ میں لیت و لعل سے کام لیا۔ گذشتہ سال ستمبر میں ورون گاندھی نے یوپی کی اکھلیش یادو سرکار کو لکھا تھا کہ ان کے خلاف یہ مقدمہ سیاسی اغراض کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے لہذا یوپی سرکار اسے واپس لے لے ۔
خود کو بری کئے جانے کا فیصلہ سننے کے بعد ورون گاندھی نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے یہ بھی کہا ان کی تقریر کی آڈیو ریکارڈنگ کے ساتھ ایک سیاسی سازش کے تحت چھیڑچھاڑ کی گئی تھی۔ ورون گاندھی نے عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے مضبوط اور متحدہ ہندوستان کی کامیابی سے تعبیر کیا۔ یوپی بی جے پی کے صدر لکشمی کانت باجپئی نے کہا کہ یہ فیصلہ محب وطن طاقتوں کی فتح ہے ۔ جن لوگوں نے ٹی وی چینلوں پر 2009ء میں ورون گاندھی کی زہریلی تقریروں کی ویڈیو دیکھی ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ یہ مسلمانوں کے خلاف آخری درجے کی اشتعال انگیزی تھی جس میں ورون گاندھی نے ہوا میں ہاتھ لہرا لہرا کر کہا تھا کہ ورون گاندھی ان کے (مسلمانوں کے ) ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے گا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دے گا۔
کوئی بھی غیر جانبدار شخص اس تقریر کو سن کر کہہ سکتا ہے کہ یہ ہندوستانی آئین، قانون اور نظام کی دھجیاں اڑا دینے جیسا کام تھا، جس کی پاداش میں ورون گاندھی کو سخت ترین سزا ملنی چاہئے تھی۔ لیکن ورون گاندھی کی تمام تر اشتعال انگیزی، منافرانہ ذہن اور خطرناک عزائم کے باوجود نہ صرف الیکشن کمیشن نے اس معاملے کی سنگینی کو نظر انداز کر دیا بلکہ عدالت نے بھی انہیں بری کرنے کا افسوسناک فیصلہ سنایا۔

ظاہر ہے کہ ورون گاندھی کے خلاف حلفیہ بیان دینے والے ایک دو نہیں پورے دو درجن گوا ہوں نے یونہی اپنا بیان تبدیل نہیں کیا ہو گا بلکہ انہیں مختلف حربوں سے اس کیلے مجبور کیا گیا ہو گا۔ سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ مسلمانوں کی خیر خواہی کا دم بھرنے والی یوپی کی سماج وادی پارٹی سرکار تمام تر ثبوت موجود ہونے کے باوجود اس معاملے کی مضبوط پیروی سے فرار حاصل کرتے ہوئے نظر آئی اور یہی وجہہ ہے کہ عدالت نے استغاثہ کی سرد مہری کا فائدہ اٹھا کر ملزم کو باعزت بری کر دیا۔

سوال یہ بھی ہے کہ مسلمان آخر اس ملک میں بھروسہ کریں بھی تو کس پر؟
جب فرقہ پرست اور سیکولر سیاست داں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ نظر آئیں تو ان میں دوست اور دشمن کی شناخت کرنا خاصہ مشکل کام ہے ۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کیلئے انصاف کے تمام راستے بند کر دئیے گئے ہیں ۔ ظاہر ہے جمہوریت کے چاروں ستون جب سخن فہمی کے بجائے غالب کی طرف داری پر کمربستہ ہوں تو پھر مسلمانوں کے سامنے چارہ ہی کیا ہے ۔

معصوم مرادآبادی

Varun Gandhi acquitted in hate speech case

2 تبصرے:

  1. واہ ۔۔ واہ۔۔۔۔ کیا کہنے !!! شاباش

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شاباشی کس کو؟
      ورون گاندھی کو؟
      عدلیہ؟
      پولیس؟
      مضمون نگار ؟

      حذف کریں