پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا - احتساب کی ضرورت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-03

پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا - احتساب کی ضرورت

حال ہی میں این ڈی ٹی وی کے زیر اہتمام ہوئے ایک مباحثے میں برکھادت نے وہاں موجود شرکاء کو سوالات کی جب اجازت دی تو ایک خاتون نے یہ پوچھا کہ " جب بھی ملک میں کہیں بم دھماکے ہوتے ہیں یا دہشت گردانہ کار روائی ہوتی ہے تو اس کے چند گھنٹوں ہی میں الکٹرانک میڈیا ایک مخصوص اقلیتی طبقے کا نام لیتا ہے اور اسے طبقے کے افراد کو اس وثوق کے ساتھ ملوث بتلایا جاتا ہے جیسے کہ اس چیانل نے تحقیقات مکمل کر لی ہیں اور سارے ثبوت اکٹھا کر کے اعلان کر رہا ہو۔ کیا الکٹرانک میڈیا کا ایک مخصوص طبقے کو اس طرح نشانہ بنانا جائزہ ہے ؟" اس پر شرکاء میں سے ( جن میں منی شکر ایر اور چندن مترا جیسے ممبران پارلیمنٹ بھی شامل تھے ) اکثر نے اسے قابل اعتراض بتلایا ۔ یہ رویہ اب تقریباً سارے قومی چیانلوں کا ہو چکا ہے کہ وہ دہشت گردانہ کاروائیوں پر صرف اقلیتی طبقے کے افراد کا نام اچھالیتے ہیں ۔ نہ انہیں اس بات کی پرواہ رہتی ہے کہ اس سے کس طرح کی فضاء پروان چڑھے گی نہ ہی انہیں اس بات کا افسوس رہتا ہے کہ بلا تحقیق اس قسم کے الکٹرانک پروپگنڈہ سے پہلے ہی عاجز اس اقلیتی فرقے کے افراد پر کیا گذرتی ہو گی۔ قومی چیانلوں کو الگ ایک طرف رکھ دیں تو علاقائی زبانوں کے چیانلوں کا تو حال ہی نہ پوچھیں ۔ یہ چیانل اپنی فرقہ پرستی کا کھلا مظاہرہ کرتے ہیں اور کوشش یہ رہتی ہے کہ اس مظلوم اقلیتی فرقے کے خلاف جتنے بھی الزامات لگائے جائیں وہ کم ہیں ۔ الکٹرانک میڈیا اب ہندوستانی عوام کا لازمی جز بن گیا ہے ۔ ایک وقت تھا کہ پرنٹ میڈیا ہندوستانی عوام کیلئے خبروں ، معلومات اور ذہنی تربیت کا ایک ذریعہ تھا لیکن آج دیہی اور شہری زندگی میں ٹیلی ویژن نے انقلاب برپاد کر دیا ہے ۔ شام کو پرائیم ٹائم کروڑہا ہندوستانیوں کی زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے ۔ پرائیم ٹائم ٹیلی کاسٹ مقبول ترین ہو چکے ہیں اور اسی پرائیم ٹائم ٹیلی کاسٹ میں ٹی آر پی کی بازی لے جانے کیلئے قومی چیانلوں نے ہر طرح کے حربے استعمال کرنا شروع کر دئیے ہیں ۔ پرائیم ٹائم کی مقبولیت کا اندازہ کرتے ہوئے ٹیلی ویژن ٹیلی کاسٹ کو اگر جمہوریت کا پانچواں ستون کہا جائے تو بے جانہ ہو گا۔ لیکن ان قومی اور علاقائی چیانلوں پر ہونے والے مباحثے یا خبروں کے کوریج پر کوئی احستاب نہیں ہے ۔ یہ قومی یا علاقائی چیانل اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کرتے کہ ایک مخصوص طبقے یا اقلیتی فرقے کو نشانہ بنانا کتنا غیر اخلاقی وغیر دستوری ہے ۔ یہ چیانل کسی بھی شخصیت یا جماعت کے خلاف پروپگنڈہ کر کے اسے ہیرو بھی بناسکتے ہیں ۔ چند حضرات کا یہ خیال ہے کہ الکٹرانک میڈیا نے بہت سے معاملوں میں جو رول ادا کیا ہے اس سے نہ صرف حکومت متوجہ ہوتی ہے بلکہ نا انصافی کے خلاف آواز اٹھا کر متاثرین کو انصاف بھی دلایا گیا ہے ۔ یہ لوگ اس کی مثال جسیکا لال قتل کیس، آروشی تلوار قتل کیس اور حالیہ دہلی اجتماعی عصمت ریزی کیس کی دیتے ہیں جس میں الکٹرانک میڈیا کے کوریج نے متاثرین کے حق میں بلند ہونے والی آوازوں کو حکومت تک پہنچایا لیکن اس کے برخلاف یہی الکٹرانک میڈیا اور قومی چیانل مسلم اقلیت کی ترجمانی کرنے کے بجائے اس کے خلاف دل آزار شخصیتوں کی ہمت افزائی کرتا نظر آیا ہے ۔ ملک 2مشہور چیانلوں ٹائمز ناو نے گذشتہ سال جئے پور ادبی فیسٹول میں سلمان رشدی کے مدعو کئے جانے پر مسلمانوں کے احتجاج کو یوپی اور دیگر ریاستوں کے انتخابات سے جوڑدیا... مسلم ممبران پارلیمان، علماء اور دانشوروں نے یہ کہا کہ اس ملعون ادیب کو ہندوستان مدعو رنا ہی غلط ہے لیکن متذکرہ بالا 2 چینلوں کے اینکر یہ کہتے رہے کہ سلمان رشدی اس سے قبل بھی ہندوستان آ چکا ہے لیکن آپ لوگوں نے جب احتجاج نہیں کیا اب چونکہ یوپی اور دیگر ریاستوں کے انتخابات ہیں اس لئے آپ اس مسئلہ کو اچھال رہے ہیں ۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے ان دونوں چیانلوں کے اینکروں سے کہا کہ ہم بارہا اس کے (ملعون رشدی کے ) خلاف احتجاج کر چکے ہیں لیکن آپ لوگوں نے اسے کوریج نہیں دیا لیکن پھر کل ان اینکروں کی ہٹ دھرمی یہی رہی کہ انتخابی سیاست کی وجہہ سے جے پور ادبی فیسٹول میں سلمان رشدی کی آمدکی مخالفت کی جا رہی ہے ۔ اب اس ہٹ دھرمی اور مخالف اقلیت روئے کو کیا کہا جائے ۔ یہ تو الکٹرانک میڈیا کا حال ہے ۔ اب ذرا جمہوریت کے چوتھے ستون پرنٹ میڈیا کا حال دیکھ لیجئے ۔ قومی زبان کے اخبارات سے لے کر علاقائی زبانوں کے اخبارات کا بھی یہ رویہ رہتا جو الکٹرانک میڈیا کا ہے ۔ نہ ان میں اقلیتی نقطہ نظر کی ترجمانی ہوتی ہے نہ ہی ان کی تردید کو شائع کیا جاتا ہے ۔ بلکہ الکٹرانک میڈیا کی طرح انہیں بھی اس "مصالحے " کی ضرورت رہتی ہے جس کے ذریعے پرنٹ میڈیا کے قارئین کو چٹخارے لے کر مختلف اقلیتی مواد پڑھنے کو دیا جائے .. ایسی رپورٹیں شائع کی جائیں جس سے پتہ چلے کہ اقلیتوں کی آبادی والے محلے کے ادارے حتی کہ ان کے "دینی مدارس" بھی دہشت گردی کے اڈے ہیں ۔ 2 سال قبل جنوبی ہند کے مشہور قدیم انگریزی اخبار نے ایک نہایت فرقہ پرست صحافی کا مضمون شائع کیا جس میں اس صحافی نے گجرات (احمد آباد) کے ایک دینی مدرسے کا تذکرہ یوں کیا "یہ دینی مدرسے اونچی اونچی دیواروں سے گھرا ہوا ہے اس کی گیٹ اور باب داخلہ ایسا ہے کہ اندر کیا ہورہا ہے کسی کو پتہ نہیں چل پائے ، اتنی اونچی فصیل نما دیوار میں اور اتنی بلند گیٹ کس لئے ۔ کیا اندر دینی تعلیم دی جا رہی ہے یا دہشت گردی کے گر سکھائے جا رہے ہیں آخر اس دینی مدرسے کی آڑمیں اندر کیا چھپا کر رکھ گیا ہے ؟ کیوں کسی سرکاری عہدیدار یا تفتیشی عہدیداروں کو دینی مدرسے کے اندر جانے نہیں دیا جاتا ہے ؟" فرقہ پرست مضمون نگار کویہ نہیں معلوم کہ دینی مدارس کی اکثریت دارالاقامہ کے ساتھ ہوتی ہے اگر بچوں کو چھوٹ دی جائے تو وہ اگر باہر جائیں تو ان کی حفاظت خطرے میں پڑسکتی ہے ۔ لیکن اس فرقہ پرست مضمون نگار کے مضمون کا لب لباب یہ تھا کہ احمد آباد کا یہ دینی مدرسہ دہشت گردی کا اڈہ ہے اور اسلحہ کا ذخیرہ کئے ہوئے ۔ تعجب یہ ہے کہ جنوبی ہند کے ایک قدیم انگریزی روزنامہ نے نہ تو کوئی اختلافی نوٹ مضمون کے ساتھ لکھا نہ ہی مدرسے کے منظمین کو وضاحت کی دعوت دی۔ الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی ایک مخصوص طبقے کے خلاف یہ جانبداری اور ایک طرفہ رویہ اس لئے ہے کہ پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کا احتساب ہو نہیں پاتا۔ پریس کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کے نام پر یہ جو چاہے چھاپ لیتے ہیں اور جو چاہتے ہیں اپنے چیانلوں پر دکھادیتے ہیں ۔ ہندوستانی جمہوری نظام اور دستور مغربی جمہوری نظاموں اور مغربی ممالک کے دساتیر کا آئینہ ہیں ۔ مغربی ممالک میں اگر پرنٹ میڈیا کسی ایک طبقے کی دل آزاری کرے تو وہاں کس طرح کا ردعمل ہوتا ہے اس کا مشاہدہ 2010ء میں راقم الحروف نیو جرسی( امریکہ) میں کر چکا ہے ۔ جیول اسٹین مشہور بین الاقوامی ہفتہ وار "ٹائم"کے مستقل کالم نگار ہیں ۔ اتفاق سے جیول اسٹین کا تعلق نیو جرسی کے ٹاون ایڈیسن سے ہے ۔ ایڈیسن اس مشہور سائنس داں تھا مس ایلوا ایڈیسن کے نام پر رکھا گیا ہے جو الکٹرانک بلب اور کئی آلات کے موجود تھے ۔ جیول اسٹین کا بچپن ایڈیسن میں گذرا۔ لیکن آج ایڈیسن ہندوستانیوں ، پاکستانیوں اور بنگلہ دیشی تارکین وطن سے بھر گیا ہے ۔ گجراتی ہوٹلوں کی بھرمار اور بزنس میں گجراتیوں کے مال وغیرہ کی وجہہ سے اب ایڈیشن ایشیاء کا ٹاون لگتا ہے ۔ اس پر جیول اسٹین نے ٹائم ہفتہ وار میں اپنے کالم میں ایک آرٹیکل۔ (میرا نجی ہنوستان) کے عنوان سے لکھا جس میں اس نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ میرے بچپن میں ایڈیسن کی جن گلیوں سڑکوں پر گھوما کرتا تھا وہ اب عنقا ہیں ۔ جن کافی ہاوسوں اور ہوٹلوں میں اپنے امریکی دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگایا کرتا تھا وہاں اب بیرونی تارکین وطن کا قبضہ ہے ۔ نہ وہ دوکانیں ہیں اور نہ ہی میرے امریکی دوستوں رشتہ داروں کے مکان بلکہ ان کی جگہ اب ایشیائی تارکین وطن خاص کر ہندوستانیوں کی آبادی ہو گئی ہے "۔ جیول اسٹین نے اپنے متعصب کالم میں آگے یہ بھی لکھا کہ "میں ترک وطن کے خلاف نہیں ہوں بلکہ میں چاہتا ہوں کہ امریکہ میں ہر جگہ تارکین وطن جا بسیں ۔ لیکن ایڈیسن میں نہیں .. کیونکہ اس سفید فام ایڈیسن کو میں نے اس وقت چھوڑا جب میں نے گریجویش کی 1989ء میں تکمیل کی لیکن اب 2010ء میں ہندوستانیوں نے ایڈیسن پر قبضہ کر لیا ہے ۔ پہلے ہندوستانی ڈاکٹرس اور انجینئرس آئے انہوں نے اپنے ہندوستانی رشتہ داروں کو بلانا شروع کیا اور انہوں نے ایڈیسن کی تجارت پر قبضہ کر لیا ... اس کے باوجود ہم امریکی سمجھتے ہیں کہ ہندوستان انتہائی غریب ملک ہے "۔ جیول اسٹیشن کے ان نسل پرستانہ ریمارکس کی ہندوستان میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی کیونکہ پرنٹ میڈیا میں اس سے زیادہ بھی کسی طبقے کے خلاف لکھا جاتا سکتا ہے کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ لیکن امریکہ میں ایسا نہیں ہے ...ٹائم ہفتہ وار نے جیول اسٹین سے تحریری معافی نامہ لکھوایا اور ہفتہ وار ٹائم میں چھپوایا۔ ٹائم ہفتہ وار نے لکھا کہ "ہم تہہ دل سے افسوس کا اس کالم پر اظہار کرتے ہیں ہمارا مقصد ہرگز ہندوستانی قارئین کی دل آزاری نہیں تھا۔ جیول اسٹین نے خود بھی لکھا "مجھے خود بھی ملال ہے کہ جس نے اتنے ہندوستانیوں کی دل آزاری کی۔ میں صرف میرے اپنے ٹاون جہاں میرا بچپن گذار کے بارے میں تبدیلیوں کے بارے میں لکھنا چاہتا تھا میر مقصد کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا"۔ اوپر کی اس مثال کا مقصد صرف یہی ہے کہ قومی پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کا احتساب اب ضروری ہے ۔ اگر ہم مغربی جمہورتیوں کی تقلید کرنا چاہتے ہیں تو ان کے صحت مندی فنی اقدار کی بھی ہمیں تقلید کرنی چاہئے ۔ اقلیتی طبقے کی دل آزاری پر فوری احتساب ہونا چاہئے ۔ ایسا نہیں کہ پریس یا پرنٹ میڈیا کو احتساب میں لانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ سابق میں مسزاندرا گاندھی کا ارادہ پرنٹ میڈیا پر روک لگانے کا تھا لیکن اس پر انہیں ناکامی ہوئی۔ رام ناتھ گوینکا مسز گاندھی کے کٹر نقادوں میں سے تھے ۔ انڈین اکسپریس اور ٹائمز آف انڈیا جیسے اخبارات تھے ۔ مسز گاندھی وہ تو نہ کر سکیں لیکن انہوں نے آل انڈیا ریڈیو اور دوردرشن کو حکومت کے کنٹرول میں رکھا۔ مسز اندرا گاندھی کا کہنا ہے کہ حکومت مخالف جماعتوں کے پاس اخبارات ہیں اور حکومت کی ترجمانی صرف دوردرشن اور آل انڈیا ریڈیو کے ذریعے ممکن ہے ۔ اس لئے ان اداروں کو حکومت کے کنٹرول میں ہونا چاہئے ... اس زمانے میں ہرسال بھارتی بل نہیں لایا گیا تھا۔ ان کے بعد راجیو گاندھی نے کل پریس کونسل آف انڈیا اور صحافیوں کی انجمنوں کے 2ماہ کے بائیکاٹ کے بعد راجیو گاندھی نے پریس کے احتساب کا بل لانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ الکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا اب ان دونوں میں اقلیتی طبقے یا ان کے متعلق ایک طرفہ جزوں پر احتساب لگانا ضروری ہے ۔ اقلیتی طبقہ پہلے ہی پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے دباؤ کا شکار رہتا ہے ایسے میں الکٹرانک میڈیا یا پرنٹ میڈیا کا جانبدارانہ رویہ نہ صرف انہیں بدنام کرے گا بلکہ یہ قومی دھارے سے بھی الگ ہو جائیں گے ۔ پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کو ان جانبدارانہ رویوں کے بارے میں سونچنا چاہئے کہ اس سے قومی یکجہتی اور ہندوستانی یکتا کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔

Print and Electronic Media - Need for accountability - Article by: Qutbuddin Khan

1 تبصرہ: