سقوط حیدرآباد میں سردار پٹیل کا رول - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-05

سقوط حیدرآباد میں سردار پٹیل کا رول

سردار پٹیل مہاتما گاندھی کے فلسفہ عدم تشدد کے قائل نہ تھے

حیدرآبادی وفد دہلی میں لارڈ ماونٹ بٹن گورنر جنرل ہند، پنڈت جواہر لال نہرو وزیر اعظم ہند، سردار ولبھ پٹیل نائب وزیراعظم ہند سے گفت و شنید کر کے 7 دن بعد حیدرآباد کی تجاویز کو جمنا میں غرق کر کے ہندوستان کے مسودہ معاہدہ کو سر پر رکھ کر 22/اکتوبر کی شام حیدرآباد پہنچا اس مسودہ معاہدہ کو موسیٰ ندی میں ڈال دینے کے بجائے قائد وفد نواب صاحب چھتاری وزیراعظم حیدرآباد نے اس مسودہ کو توثیق کیلئے کونسل میں پیش کیا۔
حکومت حیدرآباد اور حکومت ہند کے درمیان ایک باعزت سمجھوتہ کیلے گفت و شنید کا سلسلہ جاری رہا۔ حیدرآبادی وفد دہلی میں کی گئی بحث سے حضور نظام کو آگاہ کرتا رہا لیکن اس عرصہ میں کوئی معاہدہ طے نہ ہو سکا اور ہند کے وزیر داخلہ و نائب وزیراعظم سردار پٹیل نے دھمکی دی کہ مذا کرات کا سلسلہ طویل عرصے تک جاری نہیں رکھا جا سکتا ہے ۔
19/نومبر 1947ء کی صبح، ہند پارلیمنٹ میں سردار ولبھ بھائی پٹیل نے بتایا کہ حیدرآباد ہی ایک ایسی ریاست ہے جس کے ساتھ فی الحال حکومت میں شمولیت کے مسئلہ پر گفت و شنید جاری ہے جس کی نوعیت بتانا مفاد عامہ کے خلاف ہے ۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے مزید کہا کہ اس مہینہ کی 25/تاریخ کو حیدرآبادی وفد سے گفت و شنید پھر شروع ہو رہی ہے اس کے بعد بات چیت کیلئے مزید وقت دیا نہیں جائے گا۔ حکومت ہند کی جانب سے ریاستی معتمد مسٹر وی پی مینن کا ایک خصوصی پیغام 21/نومبر کو مولوی سید محمد قاسم رضوی صاحب کو روانہ کیا گیا جس میں ان کو دہلی آنے کی دعوت دی گئی۔ چنانچہ مولوی سید محمد قاسم رضوی صاحب 22/نومبر کی صبح عازم نئی دہلی ہوئے ۔ دہلی کے مشہور اخبار "دی اسٹیٹمین" نے اپنے ایک اداریہ میں یوں لکھا ہے :
"ہندوستان کی فولادی شخصیت سردار ولبھ بھائی پٹیل نے حیدرآباد کی مسلم نمائندہ جماعت کے صدر قاسم رضوی کو جو دعوت دی ہے ، اس کی اہمیت اور ان پر مسلمانوں کے اعتماد اور ان کے دوبارہ صدر منتخب ہونے اور سابقہ حیدرآباد وفد کے استعفیٰ سے ظاہر ہے "۔

مولوی قاسم رضوی نے سردار پٹیل سے اپنی گفتگو کی تفصیلات یوں بیان کی ہیں :
"میں سردار پٹیل کی دعوت پر اتمام حجت کے لئے دہلی گیا تھا وہاں دیکھا کہ حیدرآباد کی حکومت اور مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈہ اپنی پوری قوت کے ساتھ جاری ہے ۔۔۔۔ سردار پیٹل نے مجھے دعوت نامہ بھیجا اگر میں اس دعوت کو قبول نہ کرتا تو گویا دنیا کے سامنے اس پروپگنڈہ کو صحیح ثابت کرنا تھا۔ میں نے دہلی میں دیکھا کہ جو کچھ ہیں صرف سردار پٹیل ہیں گاندھی جی کی مہاتمائی بے بس، پنڈت نہرو بے بس ، حکومت کی مشنری معطل اگر کوئی برسرکار ہے تو صرف مسٹر سردار پٹیل ہی کی ذات"۔
"سردار پٹیل نے مجھ سے آمرانہ انداز میں گفتگو شروع کی جیسا کہ ان کی عادت ہے لیکن کچھ ہی لمحوں میں انہیں اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ میں غریب مسلمانوں کا نمائندہ ہوں حکومت کا نہیں ۔۔۔۔"

17/جنوری 1948ء کو ، ممبئی میں 50 ہزار سے زائد اجتماع کو مخاطب کرتے ہوئے وزیر داخلہ ہند سردار ولبھ بھائی پٹیل نے کہا : "گاندھی جی عدم تشدد اور کچھ نہ کرو کی تلقین کرتے ہیں مگر ہم نے حکومت سنبھالی ہے اور ہمارے ملک میں گڑبڑ ہوتی ہو یا ملک کے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہو تو اس کی ذمہ داری ہم پر ہے اور ہم خاموش نہیں رہ سکتے "۔
"بعض لوگ مجھ سے کہتے ہیں حیدرآباد سے سمجھوتہ کر کے حکومت ہند نے بڑی غلطی کی ہے ۔ حیدرآباد سے سمجھوتہ کرنے میں ہمیں دوباتوں کا خیال رکھنا پڑا۔
ایک تو یہ کہ حیدرآباد بہت بڑی ریاست ہے دوسرے یہ کہ وہاں کا حکمراں ایک مسلمان ہے ۔۔۔۔ اس لئے حیدرآباد سے معاملہ کرنے میں مہلت ہی مصلحت تھی۔ مجھے توقع ہے کہ اس کے بعد ایک مستقل سمجھوتہ ہو جائے گا۔ "(نوٹ: یہ معاہدہ انتظام جاریہ کا ذکر ہے )۔
حیدرآباد کے خلاف ہندستان کے نائب زیراعظم سردار ولبھ بھائی پٹیل کے 15/جولائی 1948ء کو پٹیالہ میں ظاہر کردہ عزائم پر رضا کاروں کے قائد سید محمد قاسم رضوی نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا :
"قوموں کی تقدیر نوک قلم سے نہیں بلکہ نوک شمشیر سے بنا کرتی ہیں "۔
"سردار ولبھ بھائی پٹیل ہند کی فوجی طاقت سے جوناگڑھ جیسی چھوٹی ریاست کو تباہ کر کے خوش ہیں اور وہ کہتے ہیں حیدرآبادکا حشر بھی جونا گڑھ جیسا ہو گا"۔

15/اگست1948ء کو یوم آزادی ہند کے موقع پر نائب وزیراعظم ہند سردار ولبھ بھائی پٹیل نے نشری تقریر میں کہا :
"کشمیر میں ابھی جنگ جاری ہے اور جہاں تک حیدرآباد کا تعلق ہے وہ ایک ناسور بن گیا ہے جس کا زہر بقیہ ہندوستان میں بدستور سرایت کرتا جا رہا ہے ۔ حکومت ہند کو اس بات کا اعتمادہے کہ وہ کشمیر اور حیدرآباد کے مسائل کو آنے والے دنوں میں حل کرلے گی"۔

8/اگست 1948ء کو ہندوستانی پارلیمنٹ میں وقفہ سوالات میں سردار ولبھ بھائی پٹیل نائب وزیراعظم ہند نے بتایا کہ :
"حکومت کو جواطلاعات موصول ہوئی ہیں ان سے ظاہر ہیکہ اب تک 8/لاکھ ہندوستانی مسلمان حیدرآباد میں پناہ گزینوں کی صورت میں منتقل ہو چکے ہیں اور حکومت ہندوستانی مسلمانوں کی پناہ گزینوں کی صورت میں منتقلی کے انسداد کیلے ممکنہ تدابیر پر غور کر رہی ہے "۔

سطور بالا کی تفصیلات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ نائب وزیراعظم و وزیر داخہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے سقوط حیدرآباد میں کس حدتک اپنا نظری اور عملی کردار ادا کیا تھا؟ سقوط حیدرآباد، تاریخ کا ایک قابل لحاظ سفر طے کر چکا ہے جس کی تفصیلات میں بہت کچھ کہنا سننا باقی ہے ۔

اب ہمارے لئے یہ سوال ہی اہم رہ گیا ہے کہ حیدرآباد کے مسلمان سقوط حیدرآباد کے تاریخی المیہ سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟ جبکہ مورخین کا پہلا اصرار یہی ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ میں گزرے ہوئے واقعات سے سیکھا جائے کیونکہ وہ ایسے تجربات ہوتے ہیں جن کے استعمال سے تاریخی بصیرت اور شعور پیدا ہوتا ہے اور انسانی مستقبل کو ایک بامعنی سمت دی جاسکتی ہے ۔

مستقبل کوبامنعی بنانے کیلئے ، بہادر یار جنگ کے الفاظ ہمیں یاد رکھنا پڑیں گے ، بشرطیکہ ہم اپنے تاریخی شعور سے کام لینا چاہتے ہوں :
"اب وقت آ گیا ہے کہ اگر آپ نے فوراً حالات حاضرہ سے واقف ہو کر اپنے امراض اور کمزوریوں کا علاج نہ کیا تو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دئیے جائیں گے "۔

اس کے ساتھ ہی ہمیں سید محمد قاسم رضوی کے یہ الفاظ بھی یاد رکھنا پڑیں گے :
" قوموں کی تقدیر نوک قلم سے نہیں بلکہ نوک شمشیر سے بنا کرتی ہے "۔
Role of Sardar Patel in the fall of Hyderabad state

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں