علامہ الشام شیخ محمد سعید رمضان بوطی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-31

علامہ الشام شیخ محمد سعید رمضان بوطی


وقت شہادت شیخ بوطی کی عمر تقریباً 84 سال تھی اور ان کے درس و تدریس کا سلسلہ زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہا حتی کہ مسنددرس پر ہی جام شہادت نوش کیا۔ بیت اﷲ کے درو دیوار اور منبر و محراب ان کی مظلومیت اور دہشت گردوں کی سفاکیت کے گواہ بن گئے۔

عالم اسلام کی ایک نابغہ روزگار شخصیت، اسلاف کی یادگار اور بزرگ عالم دین علامہ محمد سعید رمضان بوطی جمعرات 21 مارچ کو ایک خودکش دہشت گردانہ حملے میں شہید کردئیے گئے۔ حادثے کے وقت وہ دمشق کی مسجد ایمان میں درس دے رہے تھے۔ جان بحق ہونے والوں میں ان کے ایک پوتے اور 43 طالب علم بھی شامل ہیں۔ ایک خبر کے مطابق دہشت گردوں نے اس ناپاک اور ظالمانہ عمل کو انجام دینے کیلئے مورٹار کا استعمال کیا تھا۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔ علامہ بوطی کی ذات عالمی سطح پر ایک عظیم دینی مرجع کی حیثیت رکھتی تھی۔ عصر حاضر میں وہ اسلامی فلسفے کے سب سے بڑے ترجمان تھے۔ ان کی افکار کی بازگشت پورے عالم اسلام میں سنی جاسکتی ہے۔ دنیا کے ہزاروں علماء دعاۃ اور مفکرین ان کی فکر سے متاثر تھے۔ علامہ بوطی کی ولادت جلیکا نامی بستی میں 1929ء ؍1347ھ میں ہوئی۔ یہ بستی ترکی میں دریائے دجلہ کے کنارے ایک ایسے مقام پر واقع ہے جہاں شام و عراق کے ساتھ ترکی کی سرحدیں ملتی ہیں۔ ان کے والد علاء رمضان بوطی رحمۃ اﷲ علیہ ایک جلیل القدر عالم اور صوفی منش انسان تھے۔ انہوں نے کمال اتاترک کی مخالفت کے سبب 1933ء میں ہجرت کرکے دمشق میں سکونت اختیار کی تھی۔ علامہ بوطی کی ابتدائی تعلیم ان کے والد کے ذریعہ ہوئی جن کی شخصیت اور افکار ان پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی شخصیت کی تشکیل میں ان کے والد کی نظری اور علمی تعلیمات کا کردار سب سے نمایاں تھا۔ ثانوی( سکندر) تعلیم انہوں نے دمشق کے مدارس سے حاصل کی اور ان کی اعلیٰ تعلیم جامعہ ازہر میں ہوئی۔ جہاں آپ نے فیکلٹی آف شریعہ اور فیکلٹی آف عربی لٹریچر سے مختلف ڈگریاں حاصل کیں اور پھر ایک عرصہ تک دمشق یونیورسٹی کی فیکلٹی آف شریعت میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ذوق علمی انہیں ایک باز پھر ازہر لے کر آیا۔ اس بار انہوں نے علوم اسلامیہ میں ڈاکٹریٹ مکمل کی اور دمشق یونیورسٹی میں اپنے سابقہ منصب پر لوٹ آئے اور ایک طویل عرصہ تک مختلف مناصب پر کام کرتے رہے۔ صدر شعبہ اور ڈین فیکلٹی کے منصب کو بھی رونق بخشی۔ آپ نے بے شمار قومی اور بین الاقوامی سمیناروں اور کانفرنس میں شرکت فرمائی اور متعدد علمی اور سماجی تنظیموں کی رکنیت سے سرفراز کئے گئے۔ چنانچہ آپ اردن کے اہل بیت فاونڈیشن برائے فکر اسلامی، آکسفورڈ اکیڈیمی کی سپریم کونسل اور دبئی کی طابہ فاونڈیشن کی مجلس مشاورت کے رکن تھے۔ سابق پوپ کی اہانت آمیز بیان کے خلاف جامع ازہر کی تاریخی قرارداد پر جن اکابر امت نے دستخط فرمائے تھے ان میں شیخ بوطی کا نام سرفہرست ھا۔ وہ مذہباً شافعی اور عقیدتاً اشعری تھے اور پوری قوت کے ساتھ اپنے اس موقف کا دفاع کرتے تھے ۔ قوت استدلال اور حجت میں عالم عرب میں ان کی کوئی نظیر نہ تھی۔ علامہ بوطی کی تصنیفات کی تعداد 70 سے زیادہ ہے۔ ان میں سے بعض کتابوں کا ترجمہ کئی کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ فلسفہ اور علم کلام آپ کا خصوصی موضوع تھا۔ آپ کی کئی کتابیں اسلامی عقیدے کے اثبات اور مادی فلسفیوں کے ردوابطال میں ہیں۔ جن میں "کبری الیقینات الکونیہ" کو بڑی شہرت و پذیرائی حاصل ہوئی۔ متعدد مسلم ملکوں میں یہ کتاب نصاب تعلیم کا حصہ ہے۔ علامہ بوطی مسلمانوں کیلئے ائمہ اربعہ کی تقلید کو ناگزیر سمجھتے تھے۔ اس موضوع پر آپ کی دو مشہور کتابیں ہیں۔ ایک "اللامذھبیہ اخطر بدعۃ تہدد الشریعہ الا سلامیہ"( غیر مقلدیت ایک ایسی بدعت ہے جو عالم اسلام کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔) اس کتاب میں آپ نے عقلی اور نقلی دلائل سے لامذہبیت کی خرابوں اور اس کے منفی آثار کی وضاحت کی ہے۔ کتاب میں آپ کا اسلوب بیحد عالمانہ اور فلسفیانہ تھا۔ یہ کتاب بے شمار لوگوں کیلئے ہدایت کا ذریعہ بنی۔ اس موضوع پر دوسری کتاب "السلفیۃ مرحلۃ زمینۃ مبارکۃ لا مذہب اسلامی"۔(سلفیت ایک مبارک زمنی مرحلہ ہے کوئی اسلامی مسلک نہیں ہے۔) یہ کتاب بھی اپنے موضوع پر حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کی دوسری اہم تصنیفات میں فقہ السیرۃ النبویۃ، نقض اوھام الادبیۃ الجدلیۃ(جدلیاتی مادایت کے اوہام کارد) الجھاد فی الاسلام، الانسان مخیرام مسیر( انسان مختار یا محسور) کے علاہو معاصر فقہی مسائل وغیرہ ہیں۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بھی آپ کے علمی و دینی پروگرام کے کئی سلسلہ بے حد مقبول ہوئے۔ جن میں اقراء چینل، ازہری چینل اور صدقیہ چینل کے علاوہ شام کے کئی سرکاری اور غیر سرکاری چینلز شامل ہیں۔ علامہ بوطی سیاست سے ہمیشہ الگ تھلگ رہے۔ وہ اپنے شاگردوں کو بھی اس سے دور رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ ان کی شخصیت کے دوسب سے نمایاں پہلوؤں میں ایک تو سیاست سے اجتناب تھا اور دوسرا پہلو یہ کہ وہ اپنی تحریر اور تقریر دونوں میں بے حد نرم لہجہ اور پرسکون اسلوب اختیار کرتے تھے۔ ترش گوئی اور تلخ نوائی سے ہمیشہ پرہیز کرتے تھے لیکن اس کے باوجود ان کی گفتگو اور تحریر بے حد مضبوط، مدلل اور نقلی و عقلی دلائل سے بھرپور ہوتی تھی۔ ان کے معاصرین میں کوئی بھی عرب عالم ان کی طرح قوی الحجت نہیں تھا۔ ان اوصاف کے سبب ان کے بعض مداحین انہیں امام غزالی سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔ شیخ بوطی پر تنقید کرونے والوں کی فہرست بہت لمبی تھی۔ اپنی میانہ روی اور اعتدال پسندی کے سبب وہ مخالفت کا بھی سامنا کرتے تھے لیکن وہ اپنے ناقدین کا کبھی بھی رد نہیں کرتے تھے اور محبین کی جانب سے جواب دینے کے اصرار پر ہمیشہ یہی فرماتے تھے کہ اگرچہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے قوت فکر و نظر اور وسائل تعبیر و بیان دونوں سے نواز ہے لیکن مجھے ڈر رہتا ہے کہ مبادا میرے ردوابطال میں کہیں میرا نفس نہ شامل ہوجائے۔ مجھے گمراہ باطل اور بد مذہب کہنے والے لوگ اگر اپنے اجتہاد اور نیک نیتی سے ایسا کرتے ہیں تو میں ان کیلئے دعاگو ہوں کہ اﷲ انہیں اجراجتہا سے محروم نہ فرمائے کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ اگر مجتہد اجتہاد کرتا ہے اور اپنے اجتہاد میں صائب ہوتا ہے تو اسے دو اجر ملتے ہیں اور اگر غلطی کرتا ہے تو بھی وہ ایک اجر کا مستحق ہوتا ہے اور اگر ناقدین کا یہ موقف صرف ذاتی و دنیوی مصلحت، حسد اور دشمنی کی بنیاد پر ہے تو ان کیلئے دوہی دعا کرتا تھا جو سیدی احمد رفاعی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے ایسے دشمنوں کیلئے کی تھی۔ اگرچیکہ میں ان کے جوتوں سے لگی ہوئی غبار کے مانند بھی نہیں ہوں بلکہ "جو ہماری جیسی بدخواہی کرتا ہے اس کے ساتھ وہی پیش آئے"۔ اپنے شاگروں کو ہمیشہ جدل و مناظرہ سے دور رہنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے اور بندوں کے بجائے مولیٰ تعالیٰ کو راضی کرنے کی نصیحت فرماتے تھے اور یہ حدیث پیش کیا کرتے تھے کہ "جو خدا کو ناراض کرکے انسان کو ناراض کرتا ہے ہے تو خدا ایسے کو انسان ہی کے حوالے کردیتا ہے اور جو اﷲ کی رضا کیلئے انسانوں کو ناراض کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کی مدد کو کافی ہوتا ہے"۔ وقت شہادت شیخ بوطی کی عمر تقریباً 84 سال تھی اور ان کے درس و تدریس کا سلسلہ زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہا حتی کہ مسند درس پر ہی جام شہادت نوش کیا۔ بیت اﷲ کے در و دیوار اور منبر و محراب ان کی مظلومیت اور دہشت گردوں کی سفاکیت کے گواہ بن گئے۔ 23؍مارچ بروز سنیچر جامع مسجد اموی میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی کے پہلو میں اس مجاہد علم و دانش کو سپرد خاک کیاگیا۔
بناکر دند خوش رسمے بخاک و خوں غلطیدن
خدا رحمت کنداین عاشقان پاک طینت را

Mohamed Said Ramadan Al-Bouti, a notable syrian Sunni Muslim scholar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں