دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-07

دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو

اس وقت ہندوستانی سیاست میں جو نام موضوع بحث ہیں ان میں سے ایک اہم نام گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کا ہے ۔ لفظ اہم کے کئی معنی ہو سکتے ہیں لیکن اس کا تعین کرنے کی ذمہ داری میں قارئین پر چھوڑرہا ہوں ۔ مجھے قوی امید ہے کہ مضمون پڑھنے کے بعد قارئین خود اس کا تعین کربھی لیں گے ، لیکن نریندر مودی کو لے کر بی جے پی کی چھٹپٹاہٹ سے کم ازکم یہ صاب ظاہر ہے کہ بی جے پی کے پاس کوئی دوسرا چہرہ نہیں ہے ۔ جسے وہ وزارت عظمی کی کرسی کیلئے پیش کر سکے ۔ یا بہ فرض محال اگر کوئی چہرہ ہے بھی جسے بطور وزیراعظم پیش کیا جاسکتا ہے ۔ جیسا کہ شیوسینا کی طرف سے یہ بیان آ رہا ہے کہ وزارت عظمی کے عہدہ کی امیدواری کے ئلے سشما سوراج اہل ہیں اور کچھ لوگوں کا بیان آ رہا ہے کہ مذکورہ عہدہ کی امیدواری کیلئے ایل کے اڈوانی ال ہیں تو بھگوار پارٹی آر ایس ایس کے سامنے بے بس ہے اور اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ وہ آر ایس ایس کی ہاں میں ہاں نہ ملائے ۔ سنگھ کے ذریعہ بی جے پی کے پلیٹ فارم سے نریندر مودی کو وزارت عظمی کی امیدواری کیلئے پیش کئے جانے کے پیچھے کیا اغراض و مقاصد ہیں بی جے پی نے اپنی نیشنل کونسل (قومی مجلس عاملہ) کی میٹنگ میں رام مندر، یکساں سول کوڈ اور دفعہ 370 کا معاملہ کیوں نہیں اٹھایا؟ اس پر گفتگو کرنے سے قبل اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ اب ایل کے اڈوانی کی بی جے پی میں اب وہ اہمیت نہیں رہی جو اس وقت تھی جب انہوں نے رتھ یاترا کر کے ملک کے سیکولر ذہن افراد کے اذہان و قلوب کو پراگندہ کرنے کی غرض و غایت سے پورے ملک کا ماحول کمیونلائز کر کے ملک کی گنگا جمنی تہذیب، اخوت و محبت اور مؤدت کی فضاء کو تار تار کرنے کی کوشش کی تھی، جس کے نتیجے میں بابری مسجد جیسی مقدس اور محترم عبادت گاہ کی شہادت کا وہ سیاہ کارنامہ سامنے آیا جس کے سبب 6دسمبر 1992ء کا دن ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نہ صرف سیاہ دن (Black Day) کی شکل میں درج ہوا، بلکہ دنیا کی نظروں میں ہندوستان کی ایسی تھو تھو ہوئی جس نے جلیاں والا باغ اور جنرل ڈائر کے ظلم و ستم اور ہٹرل کے جور و جبر کی یاد دلا کر دھڑکتے دلوں کو بے چین کر دیا اور رگوں میں خون منجمد ہو گیا۔ جس شرمناک واقعہ کے بعد ملک میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کو ایسی شہ ملی کہ آج بھی ملک اس سے نبرد آزما ہے ۔ ہزاروں افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ ان گنت بہنوں کا سہاگ اجڑگیا اور بیشمار ماؤں کی آنکھیں پتھرا گئیں ، مگر دہشت گردی اوردہشت گردوں کے حوصلے پست ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں اور نہ دہشت گردی وطن عزیز کا پیچھا چھوڑنے کا نام لے رہی ہے ۔ ہاں ! البتہ اس کے نتیجے میں اڈوانی جی نے ایک کام ضرور کیا کہ الٹے یہ فرمان جاری کر دیا کہ "سبھی مسلمان دہشت گرد نہیں ، لیکن سبھی دہشت گرد مسلمان نہیں "۔ اڈوانی جی کو اس وقت سانپ سونگھ گیا جب آر ایس ایس سے دہشت گردوں کے تاڑجڑنے کی بات آئی۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی مصداق وہ دہشت گردی کے الزام میں پکڑی گئی سادھوی پرگیہ سنگھ سے ملنے جیل بھی پہنچ گئے اور پھر دہشت گردی کی آڑمیں شروع ہوئی اقلیتی فرقے کی افراد کی اندھا دھند گرفتاریاں ! مگر کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دوہراتی ہے ۔ اڈوانی جی بی جے پی کی صدارت سے صرف ہٹائے ہی نہیں گئے بلکہ اب شاید آر ایس ایس نے ہمشیہ کیلئے یہ طئے کر دیا کہ 85 سالہ اڈونی "پی ایم ان ویٹنگ" نہیں رہیں گے ۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ "جیسی کرنی ویسی بھرنی" یعنی اگر آپ دوسروں کیلئے بھلا کرو گے تو اوپر والا آپ کیلئے بھا کرے گا مگر دوسروں کیلئے جب گڑھا کھودو گے تو ایک دن اسی کھائی میں خود ہی لڑھک جاؤ گے ۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے جھٹلانے والوں کو پاگل، مجنوں یا دیوانے کے علاوہ کچھ نہیں کہا جائے گا۔ جہاں تک رہی بات رام مندر اور اس سے متعلقہ ایشوز کو بی جے پی کی قومی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں نہ اٹھانے کی تو صاف ظاہر ہے کہ اس کو بھی اب اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ اقتدار کا ہر راستہ مسلمانوں سے ہو کر گذرتا ہے ۔ کیونکہ وہ اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں ، اس لئے اپنے بنیادی ایجنڈے کو خفیہ رکھ کر اقتدار تک پہنچنے کے بعد پھر وہی کھیل دوہرایا جائے جو 1992ء اور 2002 کی یادکو تازہ کر دے ۔ اس لئے ہوشیار خبردار! اسی طرح گجرات فسادات میں بالواسطہ یا بلا واسطہ حصہ لینے والے نریندر مودی جن کو بقول مولانا غلام محمد وستانوی "مودی کے اہتھ خون سے سنے ہیں " اور بقول کانگریسی رہنما منی شنکر ایر" سانپ اور بچھو" نے سوچا تھا کہ شاید گجرات فسادکے بعد ملک کی اکثریت ان کے ساتھ ہی ہو گی اور آر ایس ایس برادران وطن کی نمائندہ جماعت ہو جائے گی اور ملک کو ہندو راشٹربنانے کا ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے گا اور پھر اقلیتوں کے خون سے پیاس بجھائی جائے گی۔ ملک میں جنگل راج ہو گا اور وہ سب کیا جائے گا جس سے انسانیت سرمشار ہو جائے گی۔ لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ ملک کے رگ و ریشے میں سیکولرازم اور گنگا جمنی تہذیب کی اقدار اس قدر پیسوت ہیں جن کی جڑوں کو تا قیامت کاٹا نہیں جاسکتا۔ تاریخ یہاں بھی اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے ۔ ہر طرف سے مودی کو پھٹکار لگ رہی ہے اور قدرت جس کی لاٹھی بے آواز ہے وہ خود بخودنریندی مودی سے بدلہ لے رہی ہے ۔ مظلوموں کی آہیں جن کے اور اﷲ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے وہ رنگ لا رہی ہیں ۔ خون ٹپکا تھا تو پانی کی طرح بہا نہیں اور اس کے داغ و دھبے ، قدرت یہ ثابت کر رہی ہے کہ کسی بھی صابن، سرف اور دنیاکے کسی بھی تیزاب سے دھوئے نہیں جاسکتے ۔ ہندوستانی عدلیہ جو جمہوریت کا سب سے اہم ستون ہے اس کی جانب سے مودی اور ان کے کابینی وزراء کو یکے بعد دیگر لگنے والی پھٹکار کے بعد جب یوروپی یونین نے نریندر مودی کی ضیافت کی تو مودی نے کچھ راحت کی سانس ضرور لی ہو گی، لیکن یہ سکون اور راحت دیر پاثابت نہیں ہوئی۔ دہلی یونیورسٹی کے طلبہ نے احتجاج و مظاہرے شروع کر دئیے اور مودی واپس جاؤ کی نعرے بازی شروع ہوئی۔ اسی اثناء میں امریکہ سے خبر آئی کہ نریندر مودی کے ویزا کے تعلق سے امریکی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ اس خبر نے ایک بار پھر سیکولرازم اور انصاف پر یقین رکھنے والوں کو نہ صرف بانچھیں کھلادیں بلکہ مودی کے وقتی راحت و سکون کو بھی غار کر دیا اور اس مودی شاید 2002 سے قبل کا گجرات یاد کر کے یہ شعر پڑھ رہے ہوں کہ
اس چھاؤں گھنیری سے وہ دھوپ ہی اچھی تھی
وہ جسم جلاتی تھی یہ روح جلاتی ہے
ابھی پھر امریکہ سے ایک اچھی خبر آئی اور اس نے یہ طئے کر دیا کہ ظلم، ظلم ہے ۔ نہ ظلم کی ٹہنی پھیلتی ہے اور خون، خون ہے ٹپکٹا ہے تو جم جاتا ہے ۔ وارٹن انڈیا اکنامک فورم کے اجلاس سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ ہونے والے نریندر مودی کے خطاب کو منسوخ کر دیا گیا۔ مودی کو وارٹن انڈیا اکنامک فورم کے ذریعہ اس وقت یہ دھچکا لگا جب انہوں نے عام انتخابات کا بگل بجاتے ہوئے بی جے پی کی قومی کونسل کی میٹنگ سے اپنی انتخابی سرگرمی کا اعلان کر دیا تھا۔ بلاشبہ فورم کا یہ فیصلہ نہ صرف کمیونزم کے منہ پر شدید طمانچہ ہے بلکہ سیکولرازم کی جیت ہے اور اس نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دوہراتی ہے اور انصاف پسندوں اور حق پرستوں کی دعا کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتی ہے اور مظلوموں کا خون رنگ لاتا ہے ۔ بس آخر میں یہی کہوں گا
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو

(مضمون نگار مرکزی وزیر برائے زراعت و خوراک و رسد آل انڈیا قومی تنظیم کے قومی صدر ہیں )۔

طارق انور

Modi - in the shadow of blood of victims. Article by: Tariq Anwar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں