کمانڈر العیدروس - سقوط حیدرآباد کا اہم کردار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-12

کمانڈر العیدروس - سقوط حیدرآباد کا اہم کردار

حیدرآبادی افواج کے سپہ سالار سید احمد العیدروس کے بارے میں آج بھی بے شمار غیر مقدمہ کہانیاں سننے میں آت ہیں ذیل کی تحریر مشتاق احمد خان سابق ایجنٹ جنرل حیدرآباد برائے پاکستان کی کتاب" زوال حیدرآباد کی ان کہی داستان " سے لی گئی ہے حیدرآبادکے تعلق سے مشتاق احمد خان کی تحریروں کو عام طورپر مستند تسلیم کیا جاتا ہے ۔ حیدرآباد کو اپنے کمانڈر سید احمد العیدروس پر بڑا ناز تھا۔ جب سے ایک انگریز جرنیل نے ان کی تعریف کے پل باندھ دئیے تھے ان کی قدر اور بڑھ گئی تھی اور اس کی صلاحیتوں کا ہوا آخر وقت تک قائم رہا۔ میں نے پاکستان میں اپنے عہدہ کا چارج لیتے ہی اپریل 1948ء میں صدر اعظم کو حکومت پاکستان کے ذمہ دار افراد کی اس رائے سے مطلع کر دیا تھا کہ العیدروس عسکری صلاحیت اور ملک سے وفاداری دونوں اعتبار سے اس منصب کے اہل نہیں ۔ نواب زادہ لیاقت علی خان نے مجھے بار بار اس بارے میں کہا۔ بالآخر 7!مئی 1948ء کو میں نے دہلی جا کر بالمشافہ لائق علی سے اس کا ذکر کیا۔ مگر اس مشورے کا کوئی اثر نہیں لیا گیا اور حیدرآبادی حکومت آخر وقت تک العیدروس کی مبینہ عظمت اور عسکری صلاحیت کے گن گاتی رہی۔ فوج کی نفری کا ناکامی ہونا، اسلحہ اور گولہ بارود کی کمنی، ٹینکوں اور دبابوں کا نہ ہونا اور فوجی افسروں میں جدید جنگ لڑنے کی تربیت اور تجربہ کا فقدان یہ سب آنکھوں کے سامنے تھا مگر کمانڈر العیدروس نظام اور صدر اعظم کو بار بار یقین دلا رہا تھا کہ وہ بھارتی یلغار کو تین ماہ تک روک سکتا ہے ۔ انہی یقین دہانیوں کی بناء پر لائق علی کا اپنا اندازہ یہ تھا کہ اگر بھارتی فوج کو 6-7 ہفتے روک لیا گیا تو یہ بڑی کامیابی ہو گی۔ بالآخر جولائی 1948ء کے آخری ہفتہ میں العیدروس کی صلاحیتوں کے بارے میں تصویر کا دوسرا رخ نظر آیا۔ نظام سے لے کر صدر اعظم تک مایوسی اور افسردگی کی فضاء چھا گئی اور بدحواسی کے عالم میں مجھے یہ ہدایت کی گئی کہ میں پاکستانی فوج کے کسی بریگیڈ کو اس ذمہ دار کو سنبھالنے کیلئے آمادہ کروں ! یہ بالکل ایک سعی لاحاصل تھی ایسے مرحلے پر جب دشمن سر پر کھڑا ہو۔ یہ کیسے ممکن تھا اور ایہسا جری مرد کہاں سے مل جاتا جو اس نازک مرحلہ پر کانٹوں کا تاج پہننے کیلئے آمادہ ہو جاتا۔ لیکن خالصتاً حب الوطنی کے جذبے کے تحت چند حیدرآبادی نوجوانوں نے جو اس وقت افواج پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے اپنی نجی حیثیت میں رضاکارانہ طورپر اپنی خدمات پیش کیں ۔ احسان فراموشی ہو گی اگر ان کے اس جذبہ کا اعتراف نہ کیا جائے جو انتہائی خطرہ مول لے کر وطن کی پیکار پر لبیک کہتے ہوے وہاں پہنچ گئے ۔ ان نوجوانوں میں سب سے نمایاں افسر الملک کے خاندان کے ایک نوجوان سکندر علی بیگ تھے ۔ ان محب وطن پاکستانی!حیدرآبادی نوجوانوں کے علاوہ فوج میں کوئی دوسرا سنے ئر نہ ہونے کی وجہہ تھی کہ العیدروس اپنی کمانڈری کے دوران بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے سینئر افسروں کو جو اس کی جگہ لے سکتے تھے بددل کرتا رہا۔ تاکہ اپنے ناگں یر ہونے کا بھرم قائم رہے ۔ العیدروس کو صرف نواب چھتاری نے پہچانا تھا اس کی صلاحیتوں کے بارے میں وہ مطمئن نہیں تھے انہوں نے اپنے پہلے دور ہی میں اسے رخصت کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ لیکن اس وقت کے برطانوی ریذیڈنٹ نے حیدرآباد کے اندرونی معاملات میں دخل نہ دینے کی یقین دہانیوں کے باوجود العید روس کی کھلم کھلا حمایت کی۔ اس طرح وہ افواج حیدرآباد پر مستقل طورپر مسلط ہو گئے اس کے بعد کسی کو اس کے خلاف کچھ کہنے کی ہمیت نہیں ہوئی۔ حملے کے وقت لائق علی نے العیدروس کی غیر سنجیدہ سوچ کا جس انداز میں ذکر کیا ہے اس کو پڑھ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اپریل و مئی کے مہینوں میں اس کے بارے میں حکومت کی جو رائے تھی اس میں اچانک کیسے تبدیلی آ گئی حملے کے وقت بھی کمانڈر کو اصرار تھا کہ وہ بھارتی فوج کو تین ماہ تک روک لے گا۔ اسے اپنی اس اطلاع پر بھی یقین تھا کہ حملے کی تاریخ 20ستمبر مقرر ہوئی ہے یہ دونوں باتیں غلط ثابت ہوئیں اسی وقت اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ کمانڈر ملک کے بعض حصوں کی حغرافیائی خصوصیات سے نا واقف ہے ۔ دفاعی انتظامات کیلئے کوئی واضح منصوبہ نہ تھا۔ فوجی راشن اور محاذ پر گولہ بارود اور اسلحہ پہنچانے کا سارا انتظام انتہائی ناقص تھا۔ حملے کے تیسرے دن بد انتظامی کا یہ عالم تھا کہ فوجیوں اور رضاکاروں کیلئے قریبی شہروں سے کھانا پک کر آتا تھا دو ہی دنوں میں کمانڈر العیدروس اپنی خود اعتمادی کھوکر ایک ذہنی مریض بن گیا تھا۔ جب کمانڈر کی ذہنی کیفیت ایسی ہوتو اس کے ماتحت افسروں سے خود اعتمادی، جرأت مندی اور سوجھ بوجھ کی کیا توقع کی جاسکتی تھی؟ ہر طرف خوف و ہراس اور ایک سراسمیگی کا عالم تھا چنانچہ گومگو کی حالت میں سڈنی کاٹن کے ایک آدمی کو جسے افشائے راز کو روکنے کیلئے چند روز کیلئے حیدرآباد بھیجا گیا تھا۔ ایک بریگیڈ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا یہ حرکت قطعی بلاجواز اور محص خوف و ہراس کا نتیجہ تھی اس افسر کے خلاف بعد میں بھارتی حکومت نے مقدمہ چلایا اور اسے سزا بھگنتی پڑی۔ فوج کی اعلیٰ انتظامیہ کیا اس ذہنی کیفیت کو دیکھ کر لائق علی کو صدر اعظم کی ذمہ دارایاں چھوڑکر فوجی ہیڈکوارٹر میں بیٹھنا پڑا۔ اس وقت انہیں احساس ہوا کہ بار بار جتلائے جانے کے باوجود انہوں نے العیدروس پر اعتماد کر کے کتنی سخت غلطی کی ہے ۔ چنانچہ وہ اعتراف کرتے ہیں ۔
"There was no time to accuse anyone of the neglict and folly. The real folly that had been committed in placing undue faith in the capability of the Army Commander. There was no redress for it now"
جو کچھ اسلحہ باہر سے بھیجا گیا تھا اس میں سے بیشتر اس وقت تک کھولا بھی نہیں گیا تھا دوسرے اسلحہ کے علاوہ مجھے اینٹی ٹینک کے حصول میں بڑی دقت ہوئی تھی اور میں بجا طورپر یہ سمجھتا تھا کہ جس چیز کیلئے ہاتھ جوڑنے تک کی نوبت آ گئی تھی اس کا بروقت استعمال ہو گا مگر لائق علی کہتے ہیں کہ حملے کے دنوں میں ان توپوں کو ملٹری ہیڈ کوارٹرس میں جوڑکر مشرقی محاذ پر بھیجا گیا۔ آخری وقت تک اس کو تیار کرنے کا کام ملتوی کرنے کے بارے میں آخر کیا کہا جائے ؟ اس بات کو یقین کرنے کو دل نہیں مانتا اور اس کی آخر تاویل بھی کیا کی جاسکتی ہے کہ حملے سے دو ہفتے قبل جنرل العیدورس نے ایک بھارتی بریگیڈیر کو Good Will کے نام پر اپنے مورچوں کا معائنہ کرایا تھا اور اس زمانے میں بیگم العیدروس کو منشی کی سفارش پر حکومت بمبئی نے وی آئی پی میزبانی سے نوازا تھا حملے سے تھوڑے ہی عرصے پہلے جب حیدرآباد کے انگریز چیف آف استاف نے برطانوی ہائی کمشنر کی ہدایت پر استفعیٰ دیدیا تو جنرل العیدروس فن حرب کے اس انگریز ماہر کی رہبری سے بھی محروم ہو گیا اس طرح جس کے پاس ٹینک نہ تھے نہ ہوئی جہاز، اینٹی ائیر کرافٹ اور نہ اینٹی ٹینک نہ توپیں تھیں ایسے کمانڈر کے تحت جس کی عسکری صلاحیت ہی نہیں ملک سے وفاداری بھی مشکوک تھی۔ بکتر بند ڈویژنوں ، ٹینکوں اور ہوائی جہازوں سے نبردآزما ہورہی تھی!!

Major General Sayyid Al Aidroos role in fall of hyderabad state

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں