میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:5 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-15

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:5


عوام کی عدالت میں اردو کا مقدمہ پیش ہے ۔ اس مقدمے کی تھوڑی بہت تفصیل پڑھنے سے کم ازکم اتنا اندازہ تو ضرورہو گا کہ تیسری عالم گیر زبان اردو کی اب کیا حیثیت ہے ۔ سچ پوچھئے تو میں نے اردو کے مسئلہ کو ایک دوسرے ہی نقطہ نگاہ سے دیکھا ہے ۔ چاہے کوئی مجھ سے متفق ہویا نہ ہو لیکن میں نے اپنے ضمیر کی آواز پر اسے لکھا ہے ۔ اس مقدمے کی تیاری میں میں نے جو تکنک اپنائی ہے وہ میرے اپنے لب و لہجے کی عکاس ہے رہ گئی زبان کی بات تو میں اس تعلق سے اتنا ہی عرض کر دوں کہ دل اور جذبے کی زبان میں نے استعمال کی ہے ۔ جامعاتی اور ٹھیٹ قسم کی قانونی زبان کو میں نے بالکلیہ نظر انداز کیا ہے ۔ ویسے کوئی دماغ قانون کی زبان کوقبول کرلے تو کرلے لیکن دل قبول نہیں کرتا۔ اور میں دل کا قائل ہوں ۔ یہاں میں نے دل کی بات سنی ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اردو کا تباہ و برباد کرنے میں جہاں دوسری قوتیں کام کر رہی ہیں وہاں خود اردو والے بھی بہت آگے آگے ہیں ۔ خصوصیت کے ساتھ اردو کے نام نہاد قائدین اور رہنماؤں نے اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ضرورت ہے کہ ان مجرموں پر عوامی عدالتوں میں مقدمہ چلایا اور انہیں سخت سزائیں دی جائیں ۔ اردو کو کسی کی نظر کیوں لگتی خود اردو والوں کی نظر اردو کو کھا گئی بلکہ یوں کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ ہم میں سے کسی نے اردو پر سفلی عمل کر دیا ہے تاکہ "چھومنتر" کی دکان چلتی رہے اور لین دین کا کاروبار باقی رہے ۔ اب یہ اردو عوام کاکام ہے کہ ان منافقین کو پہنچانیں اور ان کی مناسب و معقول انداز میں مزاج پرسی کریں ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اردو پر سے صدقہ اتارا جائے ۔ یہی نہیں بلکہ اردو کے نام پر زکوۃ بھی دی جائے جو صدیوں سے نہیں دی گئی۔ اگر بقایا زکوۃ بھی دے دی جائے تو یقیناً اردو کی کشتی حالات کے سمندر میں ہچکولے کطھاتی ہوئی اور اونچی اونچی اٹھتی ہوئی طوفانی لہروں کا مقابلہ کرتی ہوئی ثابت و سالم ساحل تک پہنچ سکتی ہے ۔ "میں کتھا سناتا ہوں " میرے اپنے پڑھنے والوں کیلئے کوئی نئی چیز نہیں ہے گذشتہ سال میرے دوست محمود انصاری نے جس خلوص اور اہتمام کے کے ساتھ اپنے روزنامہ "منصف" کے سنڈے ایڈیشن میں اسے شائع کیا میں اسے کبھی بھلا نہیں سکتا۔ اسی طرح میرے شاعر دوست وقار خلیل کو بھی جنہوں نے بڑی توجہ اور لگن کے ساتھ میری کتھا کو"منصف" کے صفحات پر نمایاں طورپر پیش کیا۔ میں اپنے دوست محمود انصاری، ڈاکٹر سید مصطفی کمال اور سید عبدالقدوس کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود میری درخواست پر کتاب کے بارے میں فوری لکھ دیا۔ میں نہیں جانتا کہ انہوں نے میرے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کا میں مستحق بھی ہوں یا نہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ان کے اظہار میں ان کی اپنی محبتوں کا بڑا دخل ہے ۔ "عاتق شاہی اسکیم" کے تحت اپنی تازہ تصنیف" میں کتھا سنا تا ہوں " آپ کی خدمت میں پیش ہے ۔ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ کتاب بیچ کر چھاپتا ہوں جب کہ دوسرے کتاب چھاپ کر بیچتے ہیں ۔ پیشگی خریداری کی اس اسکیم نے جہاں مجھ میں حوصلہ اور توانائی پیدا کی وہیں اس اعتماد کو بھی زندہ رکھا جو قاری اور میرے درمیان ہے ۔ اس کیلئے میں اپنے سینکڑوں پڑھنے والوں کو سلام کرتا ہوں اور اپنے ان دوستوں کو بھی جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت میں عملی طورپر حصہ لیا اور میری اسکیم کو ایک نئی زندگی بخشی۔ ان میں خاص طورپر ڈاکٹر ڈی پی مترا، آغا محمد حسین، ڈاکٹر مسز اکبر قدیر زماں ، سید قاسم اسحاق (انجینئر)، ڈاکٹر صمدانی فاضل، محمد ثناء اﷲ ثانی، محمد عطاء اﷲ، عزیز اﷲ عثمانی، عزیز آصف، منیر الزماں ( مشیر آباد) ، سید جمیل احمد(جدہ) ایم اے سبحانی( فرنچ لکچر ر)، یعقوب میرا مجتہدی اور محمد لطیف الدین قابل ذکر ہیں ۔ میرے دوست اور کرم فرما محمد منظور احمد منظور کا محض رسمی شکریہ مقصود نہیں بلکہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ انہوں نے کتاب کی ترتیب و تزئین سے لے کر آخر تک میری مدد کی۔ دوسرے اچھے آرٹس دوست سعادت علی خان کے بارے میں میں کیا عرض کروں یوں لگتا ہے کہ انہوں نے ٹائٹل نہیں بنایا بلکہ اپنے آر ٹکی ایک خوبصورت پینٹنگ مجھے دیدی۔ محمد سلیم اور محمد غالب نے بڑی توجہ اور دلچسپی کے ساتھ کتابت کی جس کیلئے امیں ان نوجوان دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں ساتھ ہی اعجاز پرنٹنگ پریس کے مالک سید نور محمد کا بھی جنہوں نے صرف توجہ نہیں بلکہ محنت، لگن اور محبت کے ساتھ اسے اپنے پریس میں چھاپا۔ امید کے مستقبل میں بھی اسی طرح ان تمام دوستوں کا تعاون مجھے حاصل رہے گا۔ آخر میں سابق صدرنشین اردو اکیڈیمی آندھراپردیش محمد جلیل پاشاہ اور موجودہ کار گذار صدر و ڈائرکٹر/سکریٹری محمد مسعود بن سالم کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میرے مسود کی اشاعت کیلئے مالی اعانت کی۔ شکریہ۔




A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-5

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں