پولیس اور میڈیا کے ایک طبقے کا غیر ذمہ دارانہ رویہ - تیستا سیتلواڑ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-15

پولیس اور میڈیا کے ایک طبقے کا غیر ذمہ دارانہ رویہ - تیستا سیتلواڑ

حیدرآباد کے حالیہ دھماکوں کے بعد ٹیلی ویژن چینلوں اور اخبارات میں خبروں نے بہت جلد سنسنی خیز روپ اختیار کر لیا۔ جبکہ ہونا چاہئے تھا کہ ہم پیچھے مڑکر اپنا سنجیدگی سے احتساب کریں ۔ پریس کونسل آف انڈیا کے چیرمین مارکنڈے کاٹجو نے میڈیا سے اپیل کی کہ "وہ بم دھماکوں اور دہشت گردانہ واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے صبر و ضبط سے کام لیں اور ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے فرقہ وارانہ نفرت اور بدگمانیاں پیدا ہوتی ہوں "۔ جسٹس کاٹجو نے یہ بیان قومی اقلیتی کمیشن کے چیرمین وجاہت حبیب اﷲ کی طرف سے لکھے گئے اس خط کے جواب میں دیا تھا جس میں ان کی توجہ 21فروری کے دلسکھ نگر دھماکے بعد بے بنیاد اندیشوں کے تحت ایک خاص فرقہ کی طرف انگشت نمائی کی جانے لگی تھی۔ وجاہت حبیب اﷲ نے اس خط میں خفیہ ایجنسی کے ایک سابق اعلیٰ افسر بی رمن کی اس تحریر کی توجہ دلائی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ "یہ ایک عام تاثر ہے کہ اگر کوئی دہشت گردانہ واردات ہے تو اس کے پس پشت کوئی مسلمان ہو گا اور اگر مسلمان ہے تو اس کا تعلق انڈین مجاہدین(آئی ایم) سے ہو گا اور آئی ایم سے وابستہ ہو گا تو وہ یقیناًپاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کیلئے کام کر رہا ہو گا"۔ اقلیتی کمیشن کے چیرمین نے اس روش کی حوصلہ شکنی کی اپیل کی تھی۔ اس مکتوب سے اتفاق کرتے ہوئے جسٹس کاٹجو نے بیان جاری کیا کہ "کئی حلقوں میں یہ تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ زیادہ تر دہشت گرد مسلمان ہوتے ہیں اور ان کو پولیس محض شبہ کی بنیاد پر گرفتار کر لیتی ہے ۔ ایک مرتبہ گرفتاری کے بعد اس کو ضمانت ملنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ وہ بے گناہ بھی ثابت ہو جاتا ہے تو بھی وہ جیل میں گزارے گئے ماہ و سال کی تلخ یادوں کو بھلانے میں ناکام رہتا ہے اور اس کیلئے زندگی کو معمول پر لانا مشکل ہو جاتا ہے ۔ ای میل بھیجنا غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے اور ایسا کرنے والے شرارت پسند لوگ ہی ہوتے ہیں ۔ اس طرح کے ای میل پیغامات کو ٹیلی ویژن چینلوں پر دکھا کر سامعین کے ذہن میں جذبات بٹھانا ہوتا ہے کہ تمام بم دھماکے کرنے والے اور دہشت گرد مسلمان ہی ہوتے ہیں ۔ پی سی آئی کی طرف سے بھیجے گئے مشوروں کو پرنٹ میڈیا پر کیا اثر ہو گا یہ تو نہیں معلوم مگر الیکٹرانک میڈیا کے اینکر اس طرح کے مشوروں پر شاید ہی توجہ دیں گے ۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ نیشنل براڈ کاسٹنگ ا تھاریٹی (این بی اے ) کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان چینلوں کو ریگولیٹ کرے ، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ ادارہ آزاد اور خود مختار بھی ہے ؟ جس طرح میڈیا غیر پیشہ وارانہ انداز میں نتائج اخذ کرتا ہے اسی طرح سرکار بھی ایسے غیر ذمہ دار افسران پر کار روائی کرنے میں ناکام ہے ۔ جو غیر پیشہ وارانہ انداز سے کام کرتے ہیں ۔ اگر ایک مرتبہ ایسے افسران کے خلاف کار روائی ہو جائے تو وہ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ نہ کریں ۔ لیکن اسی سال 12مارچ کو انفارمیشن ٹکنالوجی کی ایک اہم مشہور فرم انفوسس نے ایک آئی ٹی انجینئر راشد حسین کو 20لاکھ کا ہرجانہ ادا کیا۔ راشد حسین کو راجستھان پولیس نے 2008ء کے جے پور بم دھماکوں کے معاملہ میں حراست میں لے لیا تھا۔ پولیس اکثر اس سے کہتی تھی کہ وہ انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی رضا کار تنظیم پی یو سی ایل کی کویتا شریواستو سے دور رہے ۔ یہ بات راشد نے مجھ سے حالیہ ایک ملاقات میں بتائی تھی۔ انفوسس نے راشد کے خلاف اس وقت کار روائی کر دی تھی جب اس کو صرف حراست میں لیا گیا تھا۔ نہ وہ باضابطہ گرفتار کیا گیا تھا اور نہ اس کے خلاف چارج شیٹ داخل ہوئی تھی۔ اس کو نہ وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا گیا تھا اور نہ ہی اس کو اپنا دفاع کرنے کا موقع دیا گیا تھا۔ اس واقعہ سے کارپوریٹ دنیا کا انسانی اقدار کے تئیں دوہرا رویہ طشت از بام ہوا۔ راشد 10دن ہی حراست میں رہا تھا اور جب اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا تو اس کو چھوڑدیا گیا۔ راشد نے اپنی نوکری کو ختم کرنے کے فیصلہ کو لے کر کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ راشد کے وکیل پریم کرشن شرما نے ثابت کر دیا کہ راشد کے خلاف کار روائی غلط نیت سے کی گئی تھی۔ کمپنی کے اس فیصلہ کے خلاف انہوں نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹیا اور آخر کار 20ماہ کی عدالتی کار روائی کے بعد انفوسس کو 20لاکھ ادا کرنے پر راضی ہونا پڑا۔ دراصل انفوسس اور حسین کے درمیان 21جنوری کو آپسی تصفیہ ہو گیا تھا مگر میڈیا نے اس پر توجہ دینا مناسب نہیں سمجھا۔ راشد حسین نہ راجستھان سرکار یا پولیس نے معانی مانگی اور انفوسس سے تو کوئی توقع نہیں ہے ۔ اس رویہ کے برخلاف ایک کامن ویلتھ ملک آسٹریلیا میں ڈاکٹر محمد حنیف کا معاملہ ہے جو دہشت گردی کے الزامات کے تحت تین سال قبل گرفتار کیا گیا تھا۔ آسٹریلیائی سرکار نے اس کی معافی سرکاری اور تحریری طورپر مانگی تھی اور حنیف کی زندگی سے اس افسوسناک ورق کو مٹانے کی کوشش کے طورپر ان کو ایک رقم پیش کی گئی تھی یہ رقم کتنی بڑی تھی اس کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ سب کو معلوم ہے کہ کس طرح حیدرآباد میں مکہ مسجد دھماکے کے بعد غیر قانونی طریقہ سے گرفتار نوجوانوں کو اذیتیں دی گئیں ۔ اگست 2011 میں قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق نے ان پولیس والوں کے خلاف کار روائی کرنے ان کی تنخوا ہوں سے ہرجانہ وصول کرنے کی سفارش کی تھی، جنہوں نے بلاوجہ غیر قانونی طریقہ سے نوجوانوں کی گرفتاریاں کی تھیں ۔ کمیشن نے متاثرین کو تین تین لاکھ روپئے ہرجانہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ مگر کمیشن کی اس سفارش پر سرکار کا رویہ انتہائی افسوسناک اور بے حسی والا تھا۔ آج مجھ کو ایسا لگتا ہے کہ مہاراشٹرا، گجرات، آندھراپردیش، راجستھان، اترپردیش، دہلی کی ریاستوں کے پولیس اہلکاروں اور دہشت گردی مخالف دستوں اور ایس ٹی ایف کے درمیان گٹھ جوڑہے ۔ کانپور کا واصف حیدر تعلیم یافتہ اور برسر روزگار نوجوان ہے اور ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم تھا۔ اس کے خلاف یوپی پولیس نے کئی دفعات کے تحت مقدمات درج کر دئیے اور وہ8سال تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتا رہا لیکن وہ باعزت بری کر دیا گیا۔ اس کے خلاف بہت سے اخبارت ٹائمز آف انڈیا، ہندوستان ٹائمز، دینک جاگرن، امراجالا، ہندوستان اور آج جیسے اخبارات میں خبریں چھپی ہیں مگر 12اگست 2009ء کو رہا ہو جانے کے بعد بھی ایک ہندی روزنامہ "آتنکی واصف" کی اصطلاح ستعمال کرتا رہا۔ کیا اس اخبار کے خلاف ہتک عزت کے تحت کار روائی نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اس ہندی روزنامہ کے ایڈیٹر، پرنٹر، پبلیشر کے خلاف نچلی عدالت میں مقدمہ خارج ہو گیا ہے ۔ مگر وہ اس کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر کے اپنی جدوجہد جاری کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اس اخبار نے اس سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہوئے حقائق کو غلط طریقہ سے پیش کیا اور اس کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ اگر کسی شخص کے خلاف کسی عدالت میں معاملہ زیر سماعت ہے تو ہم اس کو دہشت گرد نہیں لکھ سکتے ہیں یہ غیر اخلاقی عمل ہے اور صحافت کے زریں اصولوں کیخلاف ہے ۔ اس کے اخلاقی، سماجی اور اقتصادی مضمرات بھی ہیں ۔ 2003،2004 اور 2005ء میں بری ہونے والے افرادکو اب تک دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے ۔ میڈیا کا وہ طبقہ جو اخلاقی اور پیشہ وارانہ اقدار کی خلاف ورزی کرتا ہے اس کے خلاف قانونی کار روائی ہونی چاہئے ۔ پریس کونسل آف انڈیا اس بابت سفارشات پیش کر سکتا ہے لیکن کورٹ اسی معاملہ میں نظیر پیش کر سکتا ہے اور گمراہیوں کو ختم کر سکتا ہے جن افراد کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے ۔ ان کو خطا کار میڈیا کے ذریعہ ہرجانہ دیا جانا چاہئے جس طرح ڈاکٹر حنیف کو غیر معمولی رقم ہرجانہ کے طورپر ادا کی گئی۔ اس سے معافی مانگی گئی۔ اس میں دورائے نہیں کہ اظہار خیال کی آزادی بنیادی حق ہے مگر اس کی کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں اور سب سے بڑی ذمہ داری حقیقت اور سچائی کو سامنے لانے کی ہے ۔

Irresponsible behaviour of Police and media - Article: Teesta Setalvad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں