میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:4 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-08

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:4

گذشتہ سال میں حج کیلئے روانہ ہونے والا تھا کہ عاتق شاہ ملاقات کیلئے آئے ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کعبۃ اﷲ میں ان کیلئے کیا دعا کی جائے ۔ کہنے لگے "صرف یہ دعا کیجئے کہ مجھے اﷲ تعالیٰ ہمیشہ سچ لکھنے کی توفیق عطا کرے "۔ میں نے بے ساختگی کے ساتھ کہا "پھر تو دعا کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ آپ ہمیشہ سچ ہی لکھتے ہیں " کم ازکم وہی لکھتے ہیں جسے سچ سمجھتے ہیں اور سبھی جانتے ہیں کہ سچ کڑوا ہوتا ہے ۔ " میں کتھا سناتا ہوں " عاتق شاہ کا تازہ ترین کڑوا سچ ہے ۔ وہ گذشتہ 46 سال سے لکھ رہے ہیں اور خوب لکھ رہے ہیں لیکن اپنی اس طنزیہ تمثیل میں انہوں نے گویا قلم توڑدیا ہے ۔ اس کا اندازہ مجھے اس طرح ہوا کہ مجھے اپنے روزنامہ "منصف" کے سنڈے ایڈیشن میں سلسلہ وار اقساط میں شائع کرنے کا اعزاز حاصل ہے جو قارئین "منصف" سے مسلسل خراج تحسین وصول کرتی رہی۔ ہر روز بے شمار خطوط اور ٹیلی فون پر عاتق شاہ کی طنزیہ تحریر کی دل کھول کر تعریف ہوتی رہی۔ "میں کتھا سناتا ہوں " سے پہلے عاتق شاہ کی کوئی تحریر "منصف" میں شائع نہیں ہوئی تھی۔ میں تقاضا کرتا، وہ صرف وعدے کرتے جو کبھی ایفا نہیں ہوئے ۔ ہر دو تین ماہ بعد وہ دفتر منصف آتے اور میں اُن سے تازہ طنزیہ مضمون کا مطالبہ کرتا تو وہ بڑے پشیماں ہوتے ۔ اگلی ملاقات میں مضمون دینے کا وعدہ کرتے لیکن بالآخر انہوں نے "میں کتھا سناتا ہوں " دے کر اپنے دیرینہ وعدہ کی تکمیل کر دی۔ اُن کے دفتر "منصف" آنے کا مقصد یہ ہوتا کہ آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد سے ان کی کوئی نثری کہانی یا خاکہ کے نشر ہونے کی خبر دینا چاہتے ۔ ویسے زندگی بھر انہوں نے اپنی تشہیر کی کوئی دانستہ کوشش نہیں کی۔ اردو کے بڑے بڑے ادیبوں سے ان کی درستی رہی لیکن کبھی ان سے گفتگو میں یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ تعلی کر رہے ہیں نوجوانوں کے ساتھ وہ خاص طور سے بڑی شفقت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ ان کی کسی بات میں تصنع نظر نہیں آتا۔ سوائے ان کی بڑی بڑی مونچھوں کے جن کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ یہ مصنوعی ہیں ۔ عاتق شاہ کو لکھنے کے فن پر عبور بھی حاصل ہے کیونکہ انہوں نے دنیا دیکھی ہے ۔ پولیس ایکشن سے پہلے اور بعد کے پرآشوب دور میں انہوں نے لکھنا شروع کیا۔ عاتق شاہ، آندھراپردیش میں ہی نہیں رہے ۔ انہوں نے مرہٹواڑہ اور بنگلور میں بھی کافی دن گذارے۔ اردو کے عظیم مرکز حیدرآباد میں ان کا گھر رہا تو متصلہ شہر سکندرآباد کے ایک کالج میں اردو پڑھاتے رہے جہاں انہیں اس کالج میں اردو تعلیم جاری رکھنے کی خاطر ہر سال اردو کے طلباء کو بھی جمع کرنا پڑتا تھا۔ اردو سے ان کی روٹی روزگار تو وابستہ تھی ہی لیکن اردو زبان، اردو ادب اور تہذیب کی ہر تعمیر پسند تحریک سے وہ وابستہ رہے ۔ "فٹ پاتھ کی شہزادی" سے انہوں نے جو ادبی سفر شروع کیا تھا، اب اپنی بارہویں کتاب "میں کتھا سناتا ہوں " پر نقطہ عروج پر پہنچ گیا۔ کیونکہ اس مرتبہ انہوں نے اردو زبان کو اپنا موضوع قلم بنایا اور باتوں باتوں میں ایسی باتیں کہہ دی ہیں جن سے آپ ہم سب واقف ہیں لیکن اس کا اظہار نہیں کرنا چاہتے ۔ عاتق شاہ کبھی بھی موقع پرست نہیں رہے ۔ وہ ابتدا سے ترقی پسند رہیں گے لیکن ان کے ترقی پسند ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ بعض نام نہاد ترقی پسندوں کی طرح لمبے لمبے بکھرے ہوئے بال چھوڑے جائیں ، میلا کچیلا لباس پہنیں ، مہینوں نہانے سے پرہیز کریں اور رات ہوتے ہی کسی میکدہ میں بیٹھ کر شراب اڑائیں ۔ عاتق شاہ کی ترقی پسندی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ استحصال اور ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ۔ "میں کتھا سناتا ہوں " کا مصرعہ انہوں نے دکن کے ممتاز ترقی پسند شاعر سرور ڈنڈا کی نظم سے لیا ہے جس کا اگلا مصرعہ "چڑی مڑی غپ چپ" گویا ساری دنیا کیلئے ایک چیلنج ہے کہ آؤ اگر کسی میں دم ہے تو عاتق شاہ کو سچ بولنے سے روکے ۔ ماننا پڑے گا کہ عاتق شاہ کو کوئی سچ بولنے سے روک نہیں سکتا۔




A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-4

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں