میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:3 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-01

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:3

ہندوستان میں اردو کی بقاء کی کہانی یوں بھی تلخ ہے ۔ نامور طنز نگار عاتق شاہ کے قلم نے اس تلخی میں زہر گھول دیا ہے ۔ عاتق شاہ اردو کے ان پرستاروں میں سے ہیں جنہیں اردو زبان اور تہذیب سے عشق ہے جس کی گود میں بیٹھ کر دنیا کو سمجھنے اور زندگی کو برتنے کا انہوں نے سلیقہ سیکھا اور جو ذریعہ اظہار اور ذریعہ معاش کے ساتھ موجب افتخار بھی ہے ۔ عاتق شاہ عوام کی عدالت میں اپنی محبوب زبان کی کتھا سناتے ہوئے یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ زبان "ایک مہاجر کی طرح وطن کی گلی کوچوں اور سڑکوں میں گھوم رہی ہے ، برہنہ سر اور برہنہ پا۔ تقریباً نصف صدی پر محیط عاتق شاہ کا تجربہ بتاتا ہے کہ دنیا کی لسانی تاریخ میں شاید یہ پہلا واقعہ ہے کہ کسی زبان کے بولنے والے خود اپنی زبان کو گدھ کی طرح نوچ کر کھا رہے ہیں ۔ یاس و نا امیدی کا یہ لہجہ رجائیت پسند عاتق شاہ کے مزاج سے میل نہیں کھاتا۔ عاتق شاہ نے اپنی تحریروں ، افسانوں اور ناولوں کے ذریعہ ہمیشہ نئی صبح کی بشارت دہی ہے لیکن اردو کے مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے وہ مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ "اردو زبان بستر مرگ پر ہے "۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ اور مالدار کوئی بھی زبان اس قدر آسانی سے مر نہیں سکتی۔ خصوصاً اردو جیسی دلکش اور توانا زبان جس نے اپنے وطن سے دور دنیحا کے مختلف حصوں میں بستیاں بنالی ہیں ۔ تاہم یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں اردو کا چلن کم ہوتا جا رہا ہے ۔ اردو والوں کی بے اعتنائی کا یہ عالم ہے کہ اردو کے ادیب، شاعر اور استاد اپنے بچوں کو اردو پڑھانے کی طرف مائل نہیں ۔ گویا باغ اردو کے مالیوں نے خود اسے طاق نسیاں کا گلدستہ بنارکھا ہے اردو والوں کے گھروں میں اردو کتاب، رسالے اور اخبار کی اب پہلی سی توقیر نہیں ۔ مدارس میں اردو ذریعہ تعلیم کی جماعتیں معاشی طورپر کمزور محض چند خاندانوں کے دم سے زندہ ہیں اور اردو تحریک ذاتی شہرت اور منفعت کا ذریعہ بن گئی ہے ۔ ایسے حالات میں عاتق شاہ کا اردوکے مستقبل سے مایوس ہونا فطری امر ہے ۔ عاتق شاہ نے اس کتاب کے ذریعہ اعداد و شمار کی بنیاد پر اردو کے موقف کا جائزہ پیش نہیں کیا ہے ۔ یہ کتاب دراصل ایک گہرا تاثر ہے ۔ اس میں احساسات کی ایک دنیا ہے ۔ ایک کتھا سنانے کیلئے عاتق شاہ نے کئی کتھاؤں کا سہارا لیا ہے ۔ ان کے بنیادی کردار سیاست داں ، حکومت کے کارندے یا مخالف اردو افراد ہی نہیں ، خود اردو والے بھی ہیں ۔ جن کی بیشتر تصویریں اس کتھا کے پردے پر غرض مندانہ، محبت روا رکھنے والے ویلن کی صورت میں ابھرتی ہیں اور انفرادی تحلیل و تجزیہ کی منزل سے گذرتی ہیں ۔ اس میں وہ لوگ بھی ہیں جو اردو کی روٹی کھاتے ہیں اور وہ بھی جو تحریک فروغ اردو کے سرگرم کارکن ہیں ! عاتق شاہ نے افسانوں ، ناولوں اور رپورتاژ کی شکل میں کئی کتابیں لکھیں ۔ زیر نظر کتاب کا موضوع نیا نہیں لیکن عاتق شاہ نے اپنے جذباتی لب و لہجہ، تلخ حقائق کے انکشاف اور دردمندانہ اظہار کے ذریعہ اس پامال مضمون کو ایک نئے تناظر میں پیش کیا ہے ۔ افسانہ نگار عاتق شاہ نے اس کتھا میں اردو کو ایک جیتے جاگتے کردار کا روپ دیا ہے جو استحصال کا شکار ہے ۔ جلسے اور جلوس کے پس منظر میں مطالبات اور پھر تیقنات کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کی کڑیاں گاندھی جی جواہرلال نہرو اور اندرا گاندھی کی لسانی پالیسی سے جا ملتی ہیں ۔ امید و بیم کی کیفیت میں افسانہ نگار محسوس کرتا ہے کہ یہ قائدین اپنے تیقنات کو عملی شکل نہ دے سکے ۔ آج ہر شہر میں ان کے بت کھڑے ہیں ۔ یہ بت نہ ہمیں کچھ دے سکتے ہیں اور نہ ان بتوں کو پھول مالا بھینٹ کرنے والے ان کے وعدوں اور تیقنات کو عملی جامہ پہنانے کا ان کے آگے اعلان کر سکتے ہیں ۔ مظلوم اردو سے روا رکھے جانے والے سلوک کی شاکی عاتق شاہ نے آخر میں عوام کی عدالت میں اس کا مقدمہ پیش کیا ہے آج اردو اپنے ہی وطن میں بے وطن ایک چورا ہے پر کھڑی ہے گویا کتھا کے کلائمکس میں عاتق شاہ نے دو ہی فقروں میں اردو کے موجودہ موقف کا ایمائی انداز میں ذکر کیا ہے جس سے ہر اردو والا اتفاق کرنے پر مجبور ہے ۔



A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-3

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں