مغل سلطنت کے حرم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-25

مغل سلطنت کے حرم

"حرم" کی اصطلاح کا استعمال اکثر مغلوں کی گھریلو دنیا کیلئے کیا جاتا ہے ۔ یہ اصطلاح فارسی لفظ "حرام" سے نکلی ہے جس کے معنی ہیں "مقدس مقام"۔ مغل گھرانہ، بادشاہ کی بیگمات اور خواص، ان کے قریبی اور دور کے رشتے دار(ماں ، سوتیلی ماں اور رضاعی ماں ، بہنیں ، لڑکیاں ، بہویں ، خالہ، چچی، بچے وغیرہ) خادماؤں اور کنیزوں (غلام) پر مشتمل ہوتا تھا۔ کثرت ازواج کا رواج برصغیر ہند میں خاص طورپر حکمراں جماعتوں میں وسیع طورپر رائج تھا۔ راجپوت قوم اور ساتھ ہی ساتھ مغل دونوں کیلئے شادی مضبوط سیاسی رشتے اور قومی اتحاد بنانے کا ایک طریقہ تھا۔ شادی میں لڑکی کو تحفے دئیے جانے کے ساتھ اکثر ایک عملداری بھی بطور تحفہ دی جاتی تھی۔ اس سے حکمراں جماعتوں کے درمیان درجہ بند رشتوں کا ایک تسلسل یقینی ہو جاتا تھا۔ یہ شادی کے رابطے اور اس کے نتیجے میں ارتقاء پذیر رشتوں کے سبب مغل قرابت داری و رشتہ داری کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم کرنے کے قابل ہو سکے ۔ جس سے اہم جماعتوں سے رابطے قائم کرنے اور ایک وسیع سلطنت کو باجہم گرفت میں لینے میں مدد ملی۔ مغل گھراین میں شاہی اور طبقہ اشراف کے خاندان سے آنے والی خواتین (بیگمات) اور دیگر خواتین (آغا) جو پیدائشی اشراف نہیں تھیں کے درمیان ایک امتیاز رکھا جاتا تھا۔ جہیز(مہر) کی شکل میں ایک بڑی نقد رقم اور قیمی اشیاء لینے کے بعد شادی کر کے آئی بیگمات کو اپنے شوہروں سے فطری طورپر "آغاؤں " کے مقابلے میں اعلیٰ رتبہ اور زیادہ توجہ ملتی تھی۔ خانوادہ شاہی سے لاینفک طورپر وابستہ خواتین کو درجہ بندی میں خواص "آغا چہ یا آغا سے کمتر" کو نچلہ درجہ حاصل تھا۔ ان سب کو ماہانہ وظیفہ ملتا تھا۔ اضافی طورپر ان کی حیثیت کے مطابق تحائف ملتے تھے ۔ نسلی بنیاد پر مبنی خاندان کی ساخت پوری طرح مستحکم نہ تھی۔ آغاچہ کا درجہ اونچا ہو سکتا تھا لیکن یہ اس بات پر منحصر تھا کہ اگر شوہر کی خواہش اور اس کے پاس پہلے سے چار بیویاں نہ ہوں تو آغا اور آغا چہ بھی بیگم کا اونچا درجہ حاصل کر سکتی تھیں ۔ محبت اور مادریت ایسی خواتین کے درجہ و حیثیت کو قانونی شادی شدہ بیویوں کے درجے تک اٹھانے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں ۔ بیوی کے علاوہ مغل گھرانے میں بہت سی خواتین و مرد غلام رہتے تھے ۔ وہ دنیاوی کاموں سے لے کر مہارت، صلاحیت و ہوشیاری اور ذہانت سے مختلف قسم کے کاموں کو انجام دیتے تھے ۔
غلام "خواجہ سرا" گھرانے کے اندرونی اور بیرونی زندگی میں محافظ، خادم اور کاروبار میں دلچسپی لینے والی خواتین کے ایجنٹ کی طرح کام کرتے تھے ۔ مغل رانیوں اور شہزادیوں نے نور جہاں کے بعد اہم مالیاتی وسائل پر کنٹرول رکھنا شروع کر دیا تھا۔ شاہجہاں کی بیٹیوں ، جہاں آراء اور روشن آراء اکثر اعلیٰ شاہی مصعبداریوں کے برابر سالانہ آمدنی سے لطف اندوز ہوتی تھیں ۔ مزید براں جہاں آراء کو سورت کی بندرگاہ، جو غیر ملکی تجارت کا نفع بخش مرکز تھی سے محصول حاصل ہوتا تھا۔ وسائل پر کنٹرول نے مغل گھراین کی اہم خواتین کو عمارات اور باغات کی تعمیر کے اختیار کے قابل بنایا۔ جہاں آراء نے شاہجہاں آباد(دہلی) کے کئی تعمیری منصوبوں میں حصہ لیا تھا۔ ان منصوبوں میں مع صحن اور باغ کے دو منزلہ مرعوب کن کارواں (سرائے ) بھی تھی۔ شاہجہاں کے قلب کی دھڑکن چاندنی چوک کے بازار کا نقشہ جہاں آراء کے ذریعہ بنایا گیا تھا۔ گلبدن بیگم کے ذر ریعہ تحریر "ہمایوں نامہ" ایک دلچسپ کتاب ہے جو ہمیں مغلوں کی گھریلو دنیا کی ایک جھلک مہیا کراتی ہے ۔ گلبدن بیگم بابر کی بیٹی، ہمایوں کی بہن اور اکبر کی پھوپھی تھی۔ گلبدن بیگم روانی سے ترکی اور فارسی میں لکھ سکتی تھیں ۔ جب اکبر نے ابوالفضل کو اپنے عہد کی تاریخ لکھنے کی ہدایت دی تھی تو اس نے اپنی پھوپھی سے بابر اور ہمایوں کے وقت کی اپنی آب بیتی لکھنے کی درخواست کی تاکہ ابوالفضل اس سے اپنی تاریخ کیلئے مواد اخذ کر سکے ۔ گلبدن نے جو تحریر کیا وہ مغل بادشا ہوں کی مدح سرائی نہ تھی بلکہ اس نے شہزادوں اور بادشا ہوں کے درمیان ہونے والی آویزش اور تناؤ کے ساتھ ہی ان میں سے کچھ آویزشوں کو حل کرنے میں خاندان کی عمر رسیدہ خواتین کے اہم کردار سے متعلق بھی بڑی تفصیل سے تحریر کیا تھا۔

"Haram" of Mughal empire

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں