مغل حکمرانوں کی سلطنت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-04

مغل حکمرانوں کی سلطنت

فرماں روایان مغل سلطنت خود کو ایک وسیع اور مختلف العناصر عوام الناس کے جائز حکمراں کے طورپر دیکھتے تھے ۔ یہ عظیم تصور اکثر حقیقی صورتحال کو محدود کر دیتا تھا۔ اگرچہ یہ تصویر اہم بنی رہی۔ شاہی خاندان کی تاریخ کے ذریعہ اس تصویر کی ترسیل پذیری کی جاتی تھی۔ مغل بادشاہ درباری مؤرخین کو اپنے کارناموں کا تذکرہ قلمبند کرنے کا کام تفویض کرتے تھے ۔ ان تذکروں میں بادشاہ کے عہد کے واقعات قلمبند کئے جاتے تھے ۔ مزید براں ان کے مصنفین نے حکمرانوں کو اپنی قلمرو میں حکمرانی کرنے میں مدد کیلئے برصغیر ہند کے دیگر علاقوں سے بڑی مقدار میں اطلاعات جمع کیں ۔ انگریزی میں لکھنے والے جدید مؤرخین نے اس قسم کے متون (تاریخوں ) کو وقائع نگاری (Chronicles) کی اصطلاح سے معنون کیا ہے ۔ اس لئے کہ یہ واقعات کو تسلسل کے ساتھ تاریخ اور قلمبند کرتے تھے ۔ مغلوں کی تاریخ مرتب کرنے کے خواہش مند کسی بھی دانشور کیلئے یہ وقائع لازمی ماخذ ہیں ۔ ایک سطح پر تو یہ وقائع مغل ریاست کے اداروں کے متعلق حقیقی اطلاعات کا عجائب خانہ تھے جو اُن افراد کے ذریعہ بڑی محنت و مشقت سے جمع اور درجہ بند کئے گئے تھے جو دربار سے نزدیکی طورپر وابستہ تھے ۔ ساتھ ہی ساتھ ان متون کا مدعا ان مفہوم کو منتقل کرنا تھا جس کو مغل حکمراں اپنے قلمرو سے نافذ کرنا چاہتے تھے ۔ تاہم یہ واقعات ہمیں اس بات کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں کہ کیسے شاہی خیالات تخلیق اور نشر کئے جاتے تھے ۔ اس باب میں ہم غنی اور محسور کن وسعت کے طریقہ کار پر نظر ڈالیں گے ۔

مغل حکمراں اور ان کی سلطنت
"مغل" نام لفظ منگلو سے ماخوذ ہے ۔ آج یہ اصطلاح ایک سلطنت کی شان و شوکت کو ظاہر کرتی ہے ۔ تاہم اس خاندان شاہی کے حکمرانوں نے خود اپنے لئے یہ نام منتخب نہیں کیا تھا۔ وہ اپنے آپ کو تیموری کہتے تھے چونکہ وہ پدری طورپر ترک حکمراں تیمور کے خلف تھے ۔ پہلا مغل حکمراں بابر ماں کی طرف سے چنگیز خاں سے رشتہ رکھتا تھا۔ وہ ترکی زبان بولتا تھا۔ اس نے ان کا (منگولوں کو) بطور تحقیر و حشی خانہ بدوش گروہ کے طورپر ذکر کیا ہے ۔ 16ویں صدی کے دوران یوروپی لوگوں نے اس خاندان کی ہندوستانی شاخ کے حکمرانوں کا ذکر کرنے کیلئے مغل کی اصطلاح استعمال کی۔ صدیوں سے اس لفظ کا مسلسل استعمال ہوتا رہا ہے ۔ یہاں تک کہ رودیارکپلنگ کی کتاب "جنگل بک" کے نوجوان ہیرو "موگلی" کا نام بھی اسی سے اخذ کیا گیا ہے ۔ مغلوں اور مقامی سرداروں کے درمیان سیاسی اتحاد اور فتوحات کے ذریعہ ہندوستان کی بہت سے علاقائی ریاستوں کو ملا کر مغل سلطنت کا تراشا گیا تھا۔ سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر کو اس کے وسطی ایشیائی وطن فرغانہ سے مخالف ازبکوں نے نکال باہر کیا تھا۔ اس نے سب سے پہلے خود کی کابل میں حکومت قائم کی اور پھر 1526ء میں اپنے خانوادے و قوم کے ممبران کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے علاقوں اور وسائل کی تلاش میں برصغیر ہندوستان میں مزید آگے کی طرف بڑھا۔ اس کا جانشین نصیر الدین ہمایوں (1555-56,1530-40) نے سلطنت کی سرحدوں کی توسیع کی لیکن افغان قائد شیر شاہ سوری کے ہاتھوں اس نے یہ سلطنت گنوادی جس نے اسے جلاوطنی پر مجبور کر دیا۔ ہمایوں نے ایران کے صفوی حکمراں کے دربار میں پناہ لی۔ 1555 میں ہمایوں نے سور حکمرانوں کو شکست دی، مگر ایک سال بعد ہی اس کی موت ہو گئی۔ بہت سے لوگ جلال الدین اکبر (1556-1605) کو مغل بادشا ہوں میں سب سے عظیم مانتے ہیں ۔ کیونکہ اس نے نہ صرف سلطنت کی توسیع کی بلکہ اس نے اپنے زمانے کی مستحکم، وسیع ترین، طاقتوراور خوشحال سلطنت بھی بنائی۔ اکبر ہندو کش پہاڑوں تک اپنی سلطنت کو وسیع کرنے میں کامیاب رہا۔ اس نے توران (وسطی ایشیائ) کے ازبکوں اور ایران کے صفویوں کے توسیع پسند منصوبے پر روک لگائی۔ اکبر کے واضح طورپر تین قابل جانشین جہاں گیر(1605-27)، شاہ جہاں (1628-58) اور اورنگ زیب (1658-1707) تھے کے کافی مختلف کردار تھے ۔ ان کے تحت علاقائی توسیع جاری رہی۔ تاہم اس کی رفتار کافی کم تھی۔ تینوں حکمرانوں نے حکمرانی کے مختلف آلات بنائے اور حکومت کو مستحکم رکھا۔ 16ویں اور 17ویں صدی کے دوران شادہی اداروں کے ڈھانچوں کی تعمیر ہوئی۔ اس میں نظم و نسق اور محصول کے موثر طریقے شامل تھے ۔ مغل قوت کا مرئی مرکز دربار تھا۔ یہاں سیاست اتحاد اور شئے بنائے جاتے تھے ۔ رتبے اور درجہ بندی معین کی جاتی تھی۔ مغلوں کے ذریعے ایجاد کیا گیا سیاسی نظام، فوجی طاقت اور برصغیر ہند میں جن مختلف روایات سے سابقہ پڑا تھا ان کو شعوری طورپر ہم آہنگ کرنے پر منحصر تھی۔ 1707ء کے بعد یعنی اورنگ زیب کی موت کے بعد اس شاہی خاندان کی طاقت کم ہو گئی۔ دہلی، آگرہ اورلا ہور سے کنٹرول، ایک وسیع سلطنت کے لوازمات کی جگہ علاقائی طاقتوں نے زیادہ خود مختاری حاصل کر لی۔ تاہم اشارتی طورپر ہی سہی مغل حکمراں نے اپنی قدرو منزلت کی مہک نہیں کھوئی تھی۔ 1857ء میں اس شاہی خاندان کے آخری خلف بہادر شاہ ظفر دوم کو انگریزوں نے شکست دیدی۔

وقائع کی تخلیق:
مغل بادشا ہوں کی ہدایت پرتیار وقائع سلطنت اور اس کے دربار کے مطالعہ کیلئے ایک اہم ماخذ ہیں ۔ یہ وقائع سلطنت کے سائے میں آنے والے ان سبھی لوگوں کے سامنے سلطنت کی ایک روشن تصویر کو ترتیب سے آراستہ کر کے پیش کرنے کے منصوبے کے تحت لکھے گئے تھے ۔ ساتھ ہی ساتھ اس کا ایک مقصد ان لوگوں کو جنہوں نے مغل حکمرانی کی مزاحمت و مخالفت کی تھی یہ ذہن نشین کرانا تھا کہ ساری مزاحمت و مخالف کامقدر ناکام ہونا ہے ۔ حکمراں یہ بھی یقینی کرنا چاہتے تھے کہ آنے والی نسلوں کیلئے ان کی حکمرانی کا تذکرہ دستیاب رہے ۔ مغل وقائع کے مصنفین ہمیشہ درباری افراد ہی رہے ہیں ۔ انہوں نے جو تاریخیں لکھیں ان کا محور حکمراں پر مرکوز واقعات، حکمراں کا خاندان، دربار اور امرا، جنگیں اور نظم و نسق کے انتظامات تھے ۔ اکبر، شاہ جہاں وار عالم گیر( مغل حکمراں اورنگ زیب کا خطاب) کی تاریخوں پر تحریر ان وقائع کے عنوانات "اکبر نامہ، شاہ جہاں نامہ، عالم گیر نامہ" یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے مصنفین کی نظروں میں دربار کی تاریخ بادشاہ کی تاریخ کے مترادف تھی۔


Empire of the Moghul rulers

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں