مابعد جدید رجحان کے بعد تو جدید تخلیق کاروں کی یہ نسل انحراف کا اس طرح شکار ہو گئی کہ اب خود کو جدید فنکار کہلانا بھی ان کیلئے شرمساری کے مصداق ہو گیا۔
برصغیر میں جدیدیت سے وابستہ ادیبوں اور شاعروں ( جن میں فکشن نگار بھی شامل ہیں ) کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے ۔ فکشن نگاروں کا تو جیسے قحط الرجال سا آ گیا ہے ۔
مدیر" آئندہ۔ (پاکستان)" محمود واجد کے بموجب محمد مظہر الزماں خاں ہی صرف جدید رو کے تنہا فکشن تنہا رہ گئے ہیں ۔
جدیدیت کو دراصل نقصان پہنچانے والوں میں کم علم اور ناسمجھ لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد در آئی تھی جن کی منفی تحریروں کے اثرات نے جدیدیت کو CULT of Ugliness ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔
مظہر الزماں خاں نے جدیدیت کی ابتداء سے موجودہ عہد تک خود کو منفرد تخلیق کار ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔ ان کے یہاں جدیدت محض ذات کا مرثیہ نہیں معروض کربلا بھی ہے ۔
مظہر الزماں خاں کی تحریر کا ایک جداگانہ طرز ہے ۔ ایسا طرز جو کسی اور فکشن نگار کے بس کی بات نہیں ۔ جدید فکشن میں انہیں جس چیز نے انفرادیت عطا کی ہے وہ ان کی لسانی ساخت اور مکالمہ نگاری ہے ۔ وہ اپنے مخصوص الفاظ اور انداز بیان سے جو ایک مربوط منظر نامہ تشکیل دیتے ہیں ان میں ان کی پیکر تراشی، علامت نگاری، اشاریت اور استعارہ سازی ان کی منفرد شناخت کا باعث بنتی ہے ۔
بقول ڈاکٹر وزیر آغا ، مظہر الزماں خاں کی کہانیوں میں زمین سے آسمان تک علائم اور اشارے پھیلے ہوئے ہیں ۔ ذہین قاری جب تک ان کی کہانیوں کو ٹہر ٹہر کر اور بار بار نہیں پڑھتا، ان کے علائم، اشارے ، استعارے صاف نظر نہیں آتے اور وہ سربستہ راز ان کی کہانیوں یا ناول میں موجود ہوتے ہیں ، کھلتے ہی نہیں ۔
"ابجد" کے متذکرہ فقید المثال شمارے میں حقانی القاسمی نے مظہر الزماں کے ناول "شوریدہ زمین پر دم بخود شجر" کی انیس کہانیوں کو مربوط و متلاحم قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ کہانیاں ازل سے ابد تک کا اظہاری انتشاریہ ہے یا انتشاری اظہاریہ۔
نئی زمین اور نئے آسمان کے رنگ و روپ پر لکھی ہوئی یہ کہانیاں ہیں جن کا کردار جدید دور کا انسان ہے جو زمین کے ہر خطے پر موجود ہے ۔ کسی ایک صدی یا زمانے میں محصور یا اسیر نہیں ۔ ان انسان کی گلوبل آئیڈینٹیٹی ہے مگر وہ بے چہرگی کا شکار بھی ہے ۔
مظہر الزماں خاں ہمارے شہر کے ایسے فکشن نگار ہیں جن کے ناول اور افسانے ہندوستان سے زیادہ پڑوسی ملک پاکستان میں پڑھے جاتے ہیں ۔ ان کی کتابیں اور کتابوں کے ایڈیشن ان کی اجازت کے بغیر طبع کر کے دھڑلے سے فروخت ہوتے ہیں ۔ حیدرآباد میں شاید چند ہی ایسے خوش قسمت ہوں گے جن تک ان کے افسانوں کے مجموعے یا ناول پہنچے ہوں گے یا جنہوں نے ان کے سرورق ہی دیکھے ہوں گے ۔
مدیر "ابجد" قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے مظہر الزماں خاں کو اس خصوصی شمارے کے ذریعہ ایک بھرپورخراج تحسین پیش کیا ہے وہ اپنے ادارے میں رقم طراز ہیں :
"محمد مظہر الزماں خاں ، اردو افسانے کی تاریخ میں دیر تک یاد رکھے جائیں گے ۔ انہوں نے افسانے کے روایتی تصور کو پوری طرح منہدم کر دیا ہے ۔ افسانے کی منطق کو زیر و زبرکر دیا ہے ۔ آغاز، وسط، انجام، علت و معلول کے قضایا کو منقلب کر دیا۔ افسانے کے وہ قاری جو مربوط پلاٹ اور منضبط کہانی پن کے عادی ہو چکے ہیں ، وہ کس طرح محمد مظہر خان کے افسانوں کو ہضم کرپاتے ؟
ان کے افسانے عام قاری کیلئے قطعی نہیں ہیں ۔ ان کے افسانے سنجیدہ قراءت کے متقاضی ہیں ۔ انہیں باذوق قاری کے حلقوں میں خوب سراہا گیا۔ اینٹی پلاٹ اور اینٹی اسٹوری کی صفت سے متصف ہونے کے باوجود ان کی کہانیاں ترسیل اور ابلاغ کی ناکامی سے دوچار نہیں ہوتیں ۔
محمد مظہر الزماں خاں ذہین اور تخلیقی قوت سے بھرپور فن کار ہیں ۔ انہوں نے افسانے کو کلیثے سے آزاد کیا۔ نئے علائم اور نئے استعارات وضع کئے ۔ تلمیحات کیلئے اسلامی اساطیر کے نئے منطقے دریافت کئے "۔
مظہر الزماں خاں کے "اعتراف ہنر" کے اس گوشے میں اردو ادب کے نامور نقاد گوپی چند نارنگ، حقانی القاسمی، سید تحسین گیلانی (ساوتھ آفریقہ) ، محمد واجد( مدیر آئندہ۔ پاکستان) رؤف نیازی، غالب نشتر شامل ہیں لیکن یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ اس باکمال فنکار کے فن اور ہنر پر جنوبی ہند اور بالخصوص شہر حیدرآباد سے کسی نقاد یا ادیب کی کوئی تحریر شامل نہیں جب کہ یہ حقیقت ہے کہ فکشن کی کوئی بھی فہرست مظہر الزماں خاں کے نام کے بغیر نامکمل ہی ٹہرے گی۔
کیا ہم مظہر الزماں خاں کے اس قول کی تصدیق کر رہے ہیں کہ ۔۔۔
یہ زمین اب میلی ہو گئی ہے ، اس پر آج نہ کوئی قطب ہے نہ ابدال کہ یہ دور، دور نابینا ہے تاہم دعویٰ ہے سبھوں کو اپنی اپنی بینائی کا۔ وہ لوگ جنہوں نے زندگی بھر سوئی اور دھاگے کی صورت نہیں دیکھی، اس دور بلاخیز میں رفو گر بنے بیٹھے ہیں کہ آج جامعہ کی دہلیزوں کے اندر اور باہر خودساختہ دانشور ڈھول کے مانند ہیں اور دیواروں پر طوطے بیٹھے کتابیں رٹ رہے ہیں کہ ہر طرف الو شور مچا رہے ہیں۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے مظہر الزماں خاں کو کہانی کی دنیا کا ایک باکمل فنکار قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ہمارے عہد کے چند افسانہ نگاروں میں سے ایک ہیں جو تجربے کو اپنے وجود کا حصہ بنانے کے بعد قلم اٹھاتے ہیں ۔ وہ اظہار کے نئے نئے محاورے کی تلاش کرتے ہیں اور ان کا افسانہ نئی حقیقت کی تخلیق ہے اور وہ حقیقت جو تجربے اور زندگی کے بطن سے پھوٹ کر پوری زمین پر پھیل جاتی ہے ۔
مظہر الزماں خاں کی تحریروں کی اسراریت اور پوشیدگی، علائم اور اسمات، قاری کو تجسس کے ایک ایسے غار میں لے جاتی ہے جس کے بطن میں دور دور تک ایک سراسمیگی اور اندھیرا ہوتا ہے لیکن کہیں دور ہلکی سی روشنی کی ایک لکیر دکھائی دیتی ہے جو ان کے قاری کو سربستہ راز گپھا سے آگے جہان روشن کا پتہ دیتی ہے ۔
بقول شمس الرحمن فاروقی: مظہر نے اپنے پیچیدہ اور شدید تاثر رکھنے والے افسانوں کے ذریعہ اپنی الگ پہچان بنائی ہے ۔ وہ ان غواصوں میں سے ایک ہیں جو محض سیلاب کی سطح پر دھارے کے ساتھ بہنے والوں میں سے نہیں ہیں بلکہ اس کی تہہ میں بہتے ہیں تو سطح آب پر تلاطم آتا ہے ۔
ان کی کاب "شورہ پشتوں کی آماجگاہ" کے فلیپ پر ان کی ایک تحریر ان کے نکتہ نظر کی ترجمان ہے ، لکھتے ہیں :
"تمام کائناتیں اور اس میں آباد ساری چیزیں جیسے دکھائی دیتی ہیں ۔ دراصل من و عن ویسی نہیں ہوتیں کہ ہر شئے کے اندر کئی اسرار اور بے پناہ راز پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ چنانچہ بیشتر کہانیاں ، رازوں اور بھیدوں سے بھرا بستہ ہیں کہ ان میں افکار، مسائل اور معنی کا ایک بڑا ہجوم ہے اور پھر یہ مجھ سے جڑی ہوئی بھی ہیں ۔ لہذا میں تمہاری کہانیوں کا راوی بھی ہوں اور قاری بھی ہوں کہ ان کا تعلق مجھ سے بھی ہے ۔
جدید فکشن کے بے مثال اور تخلیقی حسیت کے اس منفرد اور بالغ نگاہ افسانہ نگار پر ہمارے تنقید نگاروں نے پوری توجہ نہیں دی۔ ضرورت ہے کہ اب ہم ان کے ہنر اور تخلیقی کاوشوں کے نئے امکانات کا نئے سرے سے جائزہ لیں ۔
ابجد کا زیر نظر شمارہ 25روپئے میں رضی احمد تنہا، اسلام نگر ، اراریا سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
***
Mohsin Jalganvi
Mob.: 09505967365
Flat No. 505, Block-A, Shanti Garden Apartments, Nacharam, Hyderabad-500076
Mohsin Jalganvi
Mob.: 09505967365
Flat No. 505, Block-A, Shanti Garden Apartments, Nacharam, Hyderabad-500076
محسن جلگانوی |
Abjad's special issue on Mazhar uzZama Khan
محترم ڈاکٹر صاحب (محسن جلگانوی) نے جدیدیت کے خلاف ڈنڈی بھی موقع دیکھ کر خوب ماری ہے ۔۔۔ ویسے یہ الگ بات ہے کہ خود ان کا شمار بھی جدیدیت کے حامی شعراء میں ہوتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںجب فاضل مبصر نے "جدیدیت" کو ایک "رجحان" مان لیا اور حتیٰ کہ اسے ایک "توانا شجر" سے تشبیہ بھی دے ڈالی ۔۔۔ تو پھر اس فقرہ کی بھلا کیا ضرورت تھی کہ ۔۔۔ "لیکن جیسے ہی جدیدیت کے خلاف ہوائیں چلنے لگیں ، جدیدیت کے توانا شجر سے یہ سارے نام خزاں زدہ پتوں کی طرح مختلف سمتوں میں بکھر گئے ۔ "
ہوا "جدیدیت" کے خلاف چلی تھی یا ان خودساختہ "جدیدیوں" کے خلاف جنہیں قلم تھامنے کا بھی ہنر نہیں آیا؟
مدیر اثبات اشعر نجمی نے بھی یہاں خوب کہا ہے:
http://esbaatpublications.com/esbaatmag/2012/09/esbaat12-13-review-ali-ahmed/
۔۔"آخرکتنی بار دہرایا جائے کہ ادب میں جدیدیت ایک رجحان اور رویے کا نام تھا اور ہے، نہ کہ انسان دوستی اور امن پسندی وغیرہ کے خلاف کوئی محاذ۔ صرف فرق اتنا ہے کہ یہ چیزیں آپ کے یہاں نعرے کی شکل میں نمودار ہوئیں ، جب کہ جدیدیوں کے یہاں تخلیقی شعور بن کر ظاہر ہوئیں جسے آپ لوگوں نے تنہائی پسندی، سیاحت ذات اور ابہام وغیرہ جیسی چیزوں سے منسوب کردیا" ۔۔۔
اس میں کوی دو راے نہیں کہ جدیدیت ایک رحجان ہے تحریک نہیں ۔چوں کہ جدیدیت کے قلمکار خود غیر واضح اور کنففیوژڈ ہوتے ہیں ۔کبھی خود کا لکھا بھی وہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اس لیے صبح و شام اپنی راے بدلتے رہتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریں