دہلی اردو اکادمی سمینار - ہمعصر مسائل پر نوجوانوں کی قلم آزمائی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-31

دہلی اردو اکادمی سمینار - ہمعصر مسائل پر نوجوانوں کی قلم آزمائی

اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام سہ روزہ قومی سمینار بہ عنوان "صحافت کا عصری منظر نامہ " کا باضابطہ مقالاتی اجلاس صبح 11بجے شروع ہوا۔ پہلے اجلاس کی مجلس صدارت میںخالد مصطفی صدیقی، م افضل اور احمد ابراہیم علوی موجود تھے۔ نظامت وسیم راشد نے کی۔ اجلاس میں سرفراز آرزو نے "طباعتی تکنیک میں تبدیلیاں"، شعیب رضا فاطمی نے "اردو صحافت کا مقامی منظر نامہ "، اختیار جعفری نے "اردو صحافت کا تاریخی منظر نامہ "، افضل مصباحی نے "کمپیوٹر کے عہد میں صحفہ سازی"، سہیل انجم نے "اردو صحافت کا عالمی منظر نامہ" ، فاروق ارگلی نے " اردو صحافت کا قومی منظرنامہ "، نسیم عارفی نے "اردو صحافت کا مزاج" کے عنوان سے اپنے مقالے پیش کئے۔ مجلس صدارت کے رکن م افضل نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ بات نہایت قابل فخر ہے کہ اردو اکیڈیمی دہلی نے نہایت مبسوط موضوع یعنی اردو صحافت پر سہ روزہ سمینار کا انعقاد کیا ہے۔ اس کیلئے اکیڈیمی کا شکر گزار نہ ہونا خلاف تہذیب ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ اردو اکیڈیمی نے ہر دور میں صحافت کے وقار کا لحاظ کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ شکایت بے جا ہے کہ آج کا نوجوان صحافی ان مسائل پر لکھ رہا ہے جن کا تعلق مسلمانوں اور خاص طورپر ملت سے ہے، لیکن یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ آج کا نوجوان اگر اپنے ہمعصر مسائل پر قلم آزمائی کررہا ہے تو یہ ہتک کا باعث نہیں بلکہ قابل مبارکباد قدم ہے۔ ظہرانے کے بعد سمینار کا دوسرا اجلاس شروع ہوا۔ جس کی مجلس صدارت میں پرواز رحمانی، مودود صدیقی، عالم نقوی اور پروفیسر اختر الواسع تھے۔ نظامت ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی نے کی۔ اس اجلاس میں احتشام قریشی نے "قومی میڈیا بنام اردو صحافت"، مونسہ بشری عابدی نے "اخبارات میں خواتین کے موضوعات اور گوشے"، احمد ابراہیم علوی نے "اداریہ نویسی کل اور آج"، عبدالسلام عاصم نے "اردو اخباروں میں مترجمین کا بحران اور حل"، ڈاکٹر شکیل اختر نے "اردو میں نشریاتی صحافت" اور سراج نقوی نے "نئے رجحانات اور اردو صحافت" کے موضوع پر اپنے مقالے پیش کئے۔ مجلس صدارت کے رکن پروفیسر اخترا الواسع نے تمام مقالات کو نہایت پر مغز اور بامعنی قرار دیتے ہوئے کہاکہ صحافت کا یہ جلسہ کرم یوگیوں کا جلسہ ہے۔ اردو صحافت نے دور سنگ سے انٹرنیٹ کے سفر تک جو صعوبتیں برداشت کی ہیں اس کا جائزہ لیا جارہا ہے اور خودصحافی یہ طئے کررہے ہیں کہ انہوں نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ انہوں نے نئی نسل اور پرانی نسل کے صحافیوں کے درمیان اس سمینار کو ایک میٹنگ پوائنٹ قراردیا جہاں دونوں نسلیں اپنے اپنے خیالات و تجربات کی روشنی میں گفتگو کررہی ہیں اور اس سے بہت کچھ حاصل بھی کررہی ہیں۔ اگر نئی نسل میں سیکھنے اور کچھ حاصل کرنے کا جذبہ مفقود ہوچکا ہے تو پرانی نسل بھی اپنے تجربات نئی نسل سے شئیر کرنے کو تیار نہیں ہے۔ انہوں نے نہایت صاف گوئی سے کہاکہ آج دوسروں کو قمیص سے اپنی قمیص کو صاف بتانے والوں کی افراط ہے لیکن اس بات کو بھی نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ زیادہ برائی سے کم برائی کو بہتر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پروفیسر اخترالواسع نے اس سیمنار کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اعلان کیا کہ بہت جلد این سی پی یو ایل اور اردو اکیڈیمی دہلی مشترکہ طورپر اردو اخبارات کے مترجمین کی ٹریننگ کا اہتمام کرے گی اور ساتھ ہی اردو صحافیوں کیلئے ایک ورکشاپ کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔ جہاں ماہرین صحافت و مترجم آکر اپنے تجربات کی روشنی میںاپنے مشوروں سے نوازیں گے۔

Delhi urdu academy seminar report

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں