بھگت سنگھ - جنہیں بھلا دیا گیا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-27

بھگت سنگھ - جنہیں بھلا دیا گیا

عجیب بات ہے کہ بھگت سنگھ کو یاد کرنے کیلئے نہ تو کوئی جلسہ ہوا نہ سمینار جبکہ وہ ہر ہندوستانی کے دل میں زندہ ہیں۔ میں ابھی ابتدائی جماعتوں میں ہی پڑھ رہا تھا جب 82 سال پہلے بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تھی۔ 23؍مارچ 1931ء ۔ جی ہاں یہی تاریخ تھی۔ اگرچہ 80 سال سے زیادہ عرصہ اس واقعے کو گزرچکا ہے لیکن ان کی جدائی کا حاساس ہمارے دلوں میں ہلکا نہیںپڑا ہے۔ برطانوی اقتدار کے خلاف ہنگامے نے ملک کے عوام کو متحد کردیا تھا اور یہ احساس اتناقومی تھا کہ کوئی بھی ان کے ساتھ ہنس راج ووہرا کانام لینے پر راضی نہیں تھی جو سرکاری گواہ بننے کو تیار تھا۔ ہنس راج ووہرا بھگت سنگھ کا قریبی ساتھی تھا اور جونہی اسے گرفتار کیا گیا اس نے بھید کھول دیا۔ اگرچہ اس کابیان مختلف ہے، اس نے کہاکہ چونکہ بھگت سنگھ کے ہمراہ پھانسی پانے والوں میںسے ایک شخص سکھ دیو سنگھ نے پولیس کو ساری بات بتادی اس لئے اس نے برطانوی افسروں کے سامنے اس کی پوری تفصیل اگل دی کہ انقلابی کس جگہ بم بناتے تھے اور ان میں سے بعض ملک کے کن کن مقامات پر رہتے تھے۔ اگرچہ بھگت سنگھ نے ٹریبونل کو تحریری درخواست دینے کیلئے اپنے والد کو معاف نہیں کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا بیٹا معصوم اور پولیس افسرجان ساندارز کے قتل میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے والد سچے محب وطن ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کو آزادی کے مقصد کیلئے وقف کردیا تھا۔ لیکن بھگت سنگھ یہ بھی جانتے تھے کہ ان کے والد کی آنکھوں کے بوجھل تاثر معذرت خواہی کا اشارہ تھے۔ بعض اوقات بیٹے کے تئیں یہ پدرانہ شفقت بھگت سنگھ کو پریشان کردیتی تھی۔ بھگت سنگھ نے ایک خط لکھ کر اپنے والد کو ملامت کی تھی۔ انہوں نے ہنس راج کو بھی خط لکھا جس میں کہا تھا کہ "میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ آپ نے اس مرحلے پر اور ان حالات میں ایسی درخواست دینا کیونکہ مناسب سمجھا۔ آپ جانتے ہیں کہ سیاسی میدان میں میرے خیالات ہمیشہ آپ کے خیالات سے مختلف رہے ہیں۔ میں ہمیشہ آپ کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی کی پرواہ کئے بغیر آزادانہ طورپر کام کرتا رہا ہوں"۔ ہیڈجیل وارڈن چرن سنگھ نے انہیں اشارہ دیا کہ ملاقات کا وقت ختم ہوچکا ہے لیکن بھگت سنگھ نے دیر تک ملاقات کی۔ وہ اپنے گھر والوں کی محبت سے مغلوب اور فکر مند تھے۔ چرن سنگھ نے ان سے جلدی کرنے کیلئے کہا۔ رشتے داروں نے بھگت سنگھ کو ایک ایک کرکے گلے لگایا۔ انہوں نے اپنی ماں کے پیر چھوئے۔ اگرچہ یہ ماں کیلئے احترام کا مظاہرہ تھا لیکن سب کی آنکھیں نمناک ہوگئیں۔ ان کی بہنیں سب کے سامنے سسکنے لگیں۔ بھگت سنگھ بہت غمزدہ تھے۔ انہوں نے گھر والوں سے بس اتنا کہا "سب مل کر رہنا"۔ پھر انہوں نے اپنے ہاتھ جوڑے اور رخصت ہوگئے۔ واپسی آتے ہوئے انہوں نے دیکھا کہ سکھدیو اور راجگرو اب بھی آہنسی سلاح کے پیچھے اداس اور تنہا کھڑے ہوئے ہیں۔ چرن کے منع کرنے کے باوجود کہ ان کے پاس نہ رکیں وہ ان سے گفتگو کرنے کیلئے رک گئے۔ بھگت سنگھ نے انہیں بتایاکہ اب چند ہی دنوں کی بات ہے۔ گھر والوں سے ان کی آخری ملاقات یہی اشارہ دے رہی تھی۔ انہوں نے اثبات میں سر ہلادیا۔ کوٹھری میں واپس آکر بھگت سنگھ نے اپنے کرتے کو چھوا تو وہ ان کے عزیزوں کے آنسوؤں سے نم ہوگیاتھا۔ ان کا سب سے چھوٹا بھائی گلتار مستقل رو رہاتھا۔ بڑے بھائی کے کندھے سے لگ کر جب اس نے الوداع کہا تو سسکیوں کے درمیان وہ کہہ رہا تھا "آپ کے بغیر زندگی جینے کے قابل نہیں رہے گی"۔ اس کے معصوم غمزدہ چہرے نے بھگت سنگھ کو حیرت زدہ کردیا۔ جیسے ہی محبس کا دوراہ ان کے پیچھے بند ہوا انہوں نے بڑھ کر قلم اٹھایا اور بھائی کو اردو میں ایک خط لکھا۔ اپنے ذاتی خطوط میں وہ اردو زبان ہی کا استعمال کرتے تھے۔ گلتار کے نام خط تو بھگت سنگھ نے لکھ دیا۔ انہیں امید تھی کہ ان کے الفاظ چھوٹے بھائی کو دلاسہ دیں گے لیکن ان لاکھوں افراد کاکیا ہوتا جو ان سے عقیدت رکھتے تھے۔ بلکہ اس میں وہ اپنے مطالعے میں آنے والی کتابوں میں سے پسندیدہ اقتباسات نقل کرتے جاتے تھے۔ یہ اقتباسات بیشتری انگریزی میں تھے اور ارسطو، افلاطون، ڈیکارٹ، ہابس، لاک، روسیو، ٹروٹسکی، برٹرینڈرسل، کارل مارکس اور ایتفلز کے افکار سے ماخوذ تھے۔ ہندوستانی مصنفین میں سے انہوں نے رابندر ناتھ ٹیگور اور لاجپت رائے کی تحریروں کا مطالعہ کیا۔ بھگت سنگھ شاعری کے بھی شوقین تھے۔ وہ بائرن، ورڈزورتھ اور عمر خیام کی شاعری بھی لحن سے پڑھتے تھے۔ لیکن ان کے پسندیدہ شاعر غالب تھے اور ان کا حوالہ وہ بار بار دیتے تھے۔ گھر کے افراد سے ملاقات نے انہیں جذباتی طورپر ہلا ڈالا تھا لیکن بھگت سنگھ اس آزمائش سے بآسانی گذر گئے اور ایک بار پھر خود کو اپنی کتابوں میں غرق کردیا۔ انہیں پھانسی دئیے جانے کی خبر جونہی پھیلی پورے ملک پر سوگواری چھاگئی۔ ملک بھر میں جلوس نکلے اور بہت سے لوگوں نے بھوک ہڑتال کی۔ لوگوں نے اپنے رنج و غم کے مظاپرے کیلئے کالی پٹیاں باندھیں اور اپنے کاروبار بند رکھے۔ برطانوی افسران گھروں میں بند ہوگئے۔ ہندوستانی سیاسی رہنماؤں میں جواہر لال نہرو پہلے شخص تھے جنہوںنے بھگت سنگھ کو خراج عقیدت پیش کیا۔ نہرو نے کہاکہ بھگت سنگھ ایک ایسے صاف ستھرے کردار کے مجاہد آزادی تھے جس نے کھلے میدان میں دشمن کا سامنا کیا۔ وہ وطن کی محبت کے جذبے سے لبریز نوجوان تھے۔ وہ ایسی چنگاری کی مانند تھے جو قلیل عرصے میں ہی لپکتا ہوا شعلہ بن گئی اور جس نے ایک شہر سے دوسرے شہر میں پھیل کر ہر طرف چھائے ہوئے اندھیرے کو اُجالے میں تبدیل کردیا۔ مہاتما گاندھی نے بھی سوال پر چڑھائے جانے والے جانبازوں کی دل کھول کر تعریف کی۔ انہوں نے کہا"بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی موت کو شاید بہت سے افراد ذاتی نقصان تصور کرتے ہیں۔ ان نوجوانوں کی یاد میں پیش کئے جانے والے خراج عقیدت میں میں بھی ان کے ساتھ شریک ہوں"۔ لیکن ان الفاظ کا ایسے بہت سے لوگوں پر کوئی اثر نہیں پڑا جو گاندھی جی سے اس لئے ناراض تھے کہ انہوں نے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو بچانے کیلئے کافی بھاگ دوڑ نہیں کی۔ عوام کی برہمی کا سامنا کرتے ہوئے کانگریسی لیڈروں نے پھانسی منسواخ کرانے میں اپنی ناکامی کی توجہیات پیش کرنے کی کوشش کی لیکن عوام کے بھڑکے ہوئے جذبات کو ٹھنڈا کرنے میں ان کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔ گذشتہ تین سال سے ہم ہندوستانی اور پاکستانی اسی چوراہے پر جہاں بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تھی بھگت سنگھ کا یوم پیدائش مناتے رہے ہیں۔ اس مقام پر شہید بھگت سنگھ کی قدآدم تصویر لگاکر شمعیں روشن کی جاتی ہیں۔ ہم نے اشفاق اﷲ کو پھانسی دئیے جانے کو بھی یاد کیا جو قرآن مجید کا نسخہ گلے میں لٹکائے ہوئے اور اپنے وطن پرستانہ جذبے کا عکاس یہ شعر پڑھتے ہوئے سولی کی طرف بڑھے تھے کہ
کچھ آرزو نہیں ہے ہے آرزو تو یہ ہے
رکھ دے ذرا سی کوئی خاک وطن کفن میں

Bhagat Singh: A Forgotten Revolutionary - Article: Kuldip Nayar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں