صوفی شاعر امیر خسرو جشن 2013 - ایک متنازعہ تصویر کی نمائش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-15

صوفی شاعر امیر خسرو جشن 2013 - ایک متنازعہ تصویر کی نمائش

نیشنل آرکائیوز آف انڈیا کے میوزیم میں 13ویں صدی عیسوی کے عظیم صوفی شاعر اور حضرت نظام الدین اولیاء کے خاص شاگرد و مرید حضرت امیسر خسروؒ کی حیات اور خدمات،افکار و نظریات اور شاعری پرمنعقدہ نمائش میں کھلے عام "عمل مباشرت" کی عکاسی پر مبنی برہنہ تصاویر کی نمائش کی جاہری ہے ۔ مشہور تنظیم آغاز خان فاونڈیشن کے آغاخان ٹرسٹ فار کلچراور نیشنل آرکائیوز آف انڈیا کی مشترکہ نمائش میں امیر خسروؒ کی شاعری اور ان کے افکار کی خوبصورت عکاسی کے ساتھ ساتھ ایک ایسی تصویر کی بھی نمائش کی جا رہی ہے جس نے قدیم مسلم دہلی سلطنت کے دور کے اقدار کا مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ۔ واضح ہوکہ جشن خسرو 203 کے نام سے اور یکم مارچ سے لے کر 27مارچ تک قومی راجدھانی میں جشن منایاجا رہا ہے جس کا اہتمام امریکی تنظیم فورڈ فاونڈیشن نامی تنظیم کے مالی تعاون سے آغاخان ٹرسٹ فار کلچر کر رہا ہے ۔ اس پروگرام کے تحت امیر خسرو کی شاعری، حیات، افکار، نظریات، خدمات اور ان کی عظیم شخصیات سے وابستہ کئی چیزوں کو اجاگر کرنا ہے اور خوبصورت پینٹنگز(تصاویر) کی صورت میں اسے عوام کے سامنے لانا ہے ۔ اس تعلق سے بستی حضرت نظام الدین ہمایوں کے مقبرہ اور دہلی کے کئی اہم تاریخی مقامات کئی ثقافتی پروگرام کئے گئے ۔ نیشنل آرکائیوز آف انڈیا میں جاری نمائش امیر خسرو کی اس مثنوی(عاشقہ) کے اشعار کی نمائش بھی کی گئی ہے جو دیول رانی خضر خان کے نام سے 1321ء میں لکھے گئے تھے ۔ جس میں دیول رانی(گجرات کے راجا رانا کرن کی بیٹی) اور خضرخان (مسلم شہنشاہ علاء الدین خلجی کا بیٹا) کے درمیان عشقیہ رشتوں کی دکھ بھری داستان لکھی گئی تھی۔ نیشنل آرکائیوز آف انڈیا کے میوزیم میں امیر خسرو کے منتخب اشعار کے ساتھ اس کے مطابق پینٹنگز بھی نمائش کیلئے لگائی گئی ہیں ۔ مگر مثنوی کے کچھ اشعار کی نمائش کے ساتھ ایک ایسی پیٹنگ بھی نمائش کے ئے لگائی گئی جس میں خضر خان اور دیول رانی کے درمیان تنہائی کے عمل (عمل مباشرت) کی برہنیہ عکاسی کی گئی ہیں اور اس تصویرکو کھلے عام میوزیم میں نمائش کیلئے رکھ دیا گیا جہاں بڑے اور بچے سب آتے ہیں ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر پروفیسر مشیر الحسن کی سربراہی والے نیشنل آرکائیوز آف انڈیا نے نمائش میں لائی گئیں پینٹنگز تک چیک نہیں کیں اور نہ ہی نمائش میں عربی اور فارسی کے اسکالرس موجود ہیں جو پرانی ثقافت پر کام کرنے کا اچھا تجربہ رکھتے ہیں ۔ اس تعلق سے جب نمائندہ نے نیشنل آرکائیوز آف انڈیا کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر اور میوزیم کے نگران راج منی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہاکہ "جس تصویر کی بات آپ کر رہے ہیں وہ نیشنل آرکائیوز آف انڈیا کی جانب سے نہیں لگائے گئے ہیں بلکہ ہم نے صرف اپنی جگہ (وینیو) دی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اس نمائش کی آرگنائزن تنظیم آغاخان ٹرسٹ فار کلچرل ہیس جی کی ٹیم نے ہی نمائش تیار کرائی ہے ۔ راج منی سے بات چیت کرنے کے بعد نمائندہ نے آغاخان ٹرسٹ کے رابطہ عامہ کے افسر سے بات چیت کی جس میں انہوں نے بتایاکہ نمائش کے انچارج محمد شکیل ہیں جوکہ ان دنوں دہلی سے باہر ہیں اور ان سے بات نہیں ہو سکتی۔

Amir Khusro photo exhibition at national archives of india museum

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں