دستور کی 73ویں اور 74 ویں ترمیم کے ذریعہ مرکزی حکومت نے بحیثیت کامیاب، باشعور و پختہ جمہوریت کی حیثیت سے ایک ٹھوس سماجی و سیاسی بیان میں اقلیتوں اور مسلمانوں کی محرومی تسلیم کتے ہوئے غیر مستحکم طرز حکمرانی کی نشاندہی کی۔ اس ضمن میں ریاستی حکومتوں کو چند حقیقی اختیارات اور قومی سطح کے وسائل میں شراکت داری کو یقینی بنانا تاکہ خود ریاستی سطح پر اقلیتوں کی محرومی دور کی جاسکے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ سوشلزم کے بعض منظم و مضبوط اصولوں کی بنیاد پر سیکولر طرزحکمران کو بری طرح کچل دیا، اقلیتوں کی معاشی ترقی کے محرکات اور اسباب کو بھی دبا ڈالا۔ اس کے نتیجہ میں علاقائی عدم توازن کا ماحول پیدا ہوا۔ اقلیتیں اور مسلمان ترقی کے ثمرات سے محروم رکھے گئے ۔ مسلمانوں نے بھی ملک کے دوسرے طبقات کی طرح سماجی، معاشی اور تعلیمی میدانوں میں مواقع سے استفادہ کرنے میں اپنی سیاشی شعور کو ثبوات دیا۔ کاش مسلمان دستوری حدود کے اندر، ریاستوں کے قائم کردہ عملی ڈھانچے سے استفادہ کر کے سیاسی و سماجی بیداری کا ثبوت دیتے ، انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اقلیتیں اور مسلمان طبقات کے افراد چاہتے ہیں کہ انہیں ترقی کے بہتر مواقع فراہم کرنے میں برتا جانے والا امتیاز ملک کے مختلف پلیٹ فارمس پر ہر کسی کو نمایاں نظر آئے ، انہیں مظلوم ثابت کیا جائے ۔ تعلیمی اداروں میں عوامی روزگار و ملازمت کے مراکز میں سیاسی نظم و انتظامیہ میں اور طرز حکمرانی کے بنیادی ڈھانچے میں انہیں محروم کئیہ جانے کی خبر سب تک پہنچے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سماجی، تعلیمی اور معاشی محاذوں پر ریاستی حکومتوں کا مکمل کنٹرول ہے ۔ اجارہ داری ہے ، لیکن مختلف ریاستوں کی بیشتر سماجی و عوامی خدمات انجام دینے والی غیر سرکاری تنظیموں کی رائے ، مسلمانوں کی جمہوریت کے ثمرات سے مستفید ہونے کے حق میں نہیں ہے ۔ یہ تنظیمیں مختلف انداز میں سوچتی ہیں ۔ اگر مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کیلئے ریاستی حکومت کسی فلاحی اسکیم کا اعلان کرتی ہے تو یہ تنظیمیں ان سہولتوں کے خلاف واویلا مچاتی ہیں ۔ اقلیتوں کے حقوق ان تک پہنچنے کے راستے میں ان انجمنوں کی شدید مخالفت سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔
ہندوستان میں مختلف علاقوں میں بسنے والے شہریوں کی کل آبادی کا 14فیصد یعنی تقریباً 15کروڑافراد مذہب اسلام کو ماننے والے ہیں ۔ دوسرے معنی میں ہندوستان میں پائی جانے والی تمام اقلیتوں میں مسلمانوں کا تناسب 80فیصد ہے ۔ مسلمان ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں ۔ یہ ملک کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ ہر ریاست میں پائے جاتے ہیں ۔ ان کی قابل لحاظ آبادی آسام، مغربی بنگال، کیرالا، اترپردیش، بہار، گجرات، آندھراپردیش اور مہاراشٹرا میں بستی ہے ۔ بعض ریاستی حکومتوں نے اقلیتوں اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے بے شمار اسکیمات متعارف کی ہیں ۔ انہیں بجٹ میں معقول حصہ بھی الاٹ کیا گیا ہے ان میں قابل ذکر ریاستیں کیرالا، کرناٹک، آندھراپردیش اور ٹاملناڈو ہیں ۔ یہاں مسلمانوں کی بہبود کیلئے تعلیم اور روزگار سے مربوط قوانین رائج ہیں ۔ ان ریاستوں میں مسلمانوں کو مفت ابتدائی اور ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ہیں ۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد مناسب روزگارکے میدانوں میں ہندواور عیسائی طبقہ کے ساتھ مسابقت کا موقع فراہم کیا اور مسلمان اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ تحفظات کی بنیاد پر بعض جگہ اقلیتوں کو لے کر سیاسی خلا کو بھی پر کرنے کا عمل جاری ہے ۔ چنانچہ حکومت آندھراپردیش نے اے پی پنچایت ایکٹ 2006ء کے تحت منڈلوں ، ضلع پریشد، گرام پنچایتوں اور بلدیات میں مسلمانوں کو نامزد کر کے اس طبقہ کی نمائندگی کو موثر بنانے کی کوشش کی ہے ۔ اس ضمن میں پسماندگی دورکرنے کیلئے ایک اور اہم نکتہ پر عمل آوری ضروری ہے وہ یہ کہ عوامی انتظامی اداروں میں مختلف طبقات کی آبادی کے تناسب سے ملازمتوں کی شراکت داری ضروری ہے ۔ اگر اس اصول پر عمل نہیں ہوتا ہے تو اس صورت میں ریاستی اور مرکزی حکومتوں کو چاہئے کہ ملازمتوں میں تناسب کے اس اصول کو روبہ عمل لانے کیلئے انتظامی مداخلت یا قانون سازی کے ذریعہ اس امر کو یقینی بنائے کہ آبادی کے تناسب کے اعتبار سے عوامی اداروں میں اقلیتوں کو شریک بنایاجائے ۔ اقلیتوں اور مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ ایسے اداروں پر نظر رکھیں جہاں مسلمانوں کی شراکت کا تناسب آبادی کے لحاظ سے نہیں ہے ۔ اس کمی و نا انصافی کو دور کرنے کیلئے سرکاری محکمہ جات، عوامی و سرکاری ادارے اور یونیورسٹیوں کے ذمہ داران کو اس جمہوری حق کے حصول کے نفاذ کیلئے ہدایات جاری کرے ۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ حکومت کو بھی اس کو پورا کرنے کیلئے متوجہ کرے ۔ اس پر عمل آوری کیلئے اس وقت تک دباؤ بنائے رکھیں جب تک کہ حقوق نہیں دئیے جاتے ۔ انہیں ہر طرح سے ترغیب دلانے کی کوشش کریں ، ان کے بھرم اور آبرو کا حوالہ دیں ۔ اس جدوجہد کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ ہندوستانی شہری کی حیثیت سے آئینی قواعد اور ضوابط کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسے تمام طبقات کو بشمول اقلیتیں اور مسلمان ان اداروں میں آبادی کے تناسب سے شراکت داری نہ ہونے کا احساس دلائیں اور مشترکہ احتجاج منظم کئے جائلیں تاکہ دنیا کی ایک بڑی جمہوریت کا بھرم قائم رہے ۔ ہر شہری کو بلا لحاظ مذہب و طبقات، مکمل عدل و انصاف اور حقوق کا حصول آسان ہو جائے ۔ ان آئینی حقوق کے حصول کیلئے ایک کمیشن برائے مساویانہ مواقع کے قیام کی تجویز پیش کی جاتی ہے جس کے ذریعہ مقاصد کے حصول میں کامیابی یقینی ہو جاتی ہے ۔ کمیشن کے قیام سے پریشر گروپ کا اثر بڑھے گا اور آبادی کے تناسب سے مختلف ادارہ جات میں اقلیتوں اور مسلمانوں کی شراکت یقینی بن جائے گا۔
پچھلے 3,4 سال کے دوران مرکزی حکومت مسلم پسماندگی کو دور کرنے میں واقعتاً سنجیدہ ہے ۔ 15نکاتی ترمیم شدہ پروگرام کے تحت 100 ایسے علاقوں میں جہاں اقلیتی طبقات کی اکثریت بستی ہے ایک مخصوص پروگرام بعنوان " Minority Concentration Districts Investment"پر عمل آوری کیلئے کوششیں کر رہی ہے ۔ اس پروگرام کے تحت ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے علاقہ اعلیٰ تعلیم پانے والے اقلیتی طلباء کو تعلیمی وظائف دینے کا اعلان کاے گیا اور اس پر عمل بھی ہورہا ہے ۔ ریزروبینک آف انڈیا، مسلسل عوامی شعبہ جات کو ہدایات جاری کر رہی ہے قرضہ جات کیلئے اقلیتوں کی درخواستوں پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور انہیں مناسب مالیہ مہیا کیا جائے ۔
اس " Minority Concentration Districts Programme "کو بعض ریاستوں نے دانستہ طورپر نظر انداز کر رکھا ہے ۔ جیسے مغربی بنگال، آسام، بہار، جھارکھنڈ اور گجرات ان ریاستوں میں مرکزی حکومت کی طرف سے اقلیتوں کو الاٹ کیا جانے والا کل مالیہ کا جان بوجھ کر صرف 20فیصد حصہ ہی خرچ کیا گیا۔ طلباء میں برائے نام تعلیمی وظائف تقسیم کئے گئے اور اکثر طلباء کو فنڈس کی موجودگی کے باوجود وظائف سے محروم رکھا گیا۔ ریزرو بینک کی طرف سے جاری کردہ اقلیتوں اور مسلمانوں کو ملازمت اور وظائف دئیے جانے کی تمام ہدایات کو ریاستی بینکوں نے مکمل نظر انداز کیا۔ بڑے پیمانے پر اقلیتوں اور مسلمانوں کے خلاف اس عداوت کے خلاف قومی اور ریاستی سطحوں پر محکمہ جات اور وزارتوں کی جانب سے متحدہ طورپر قدم اٹھانا چاہئے ۔ حکومتیں ان ادارہ جات کے ساتھ شراکت داری کی اساس پر اقلیتوں اور مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے بڑی آسانی کے ساتھ مواقع فراہم کر سکتی ہے ۔ کیا ایک علاوہ وزارت کا قیام مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے 300اسکیمات اور فلاحی پروگرامس پر عمل آوری میں معاون ثابت ہو سکتا ہے ؟ کیا اس کے بعد غربت میں تخفیف ہو سکتی ہے ؟ پچھڑے اور پیچھے چھوڑدئیے گئے طبقات کو قومی ترقی کی دھارا میں شامل کیا جاسکتا۔ چاہے وہ ایس سی ہوں ایس ٹی ہوں یا مسلمان۔
ان فلاحی پروگراموں اور اسکیمات پر کس حد تک عمل آوری ہورہی ہے ؟ جب تک کوئی نگران کار محکمہ یا وزارت ان کی عمل آوری پر کڑی نظر نہ رکھے ، ایسی سینکڑوں فلاحی اسکیمات سے کسی کی بھی فلاح ممکن نہیں ۔ اسکیمات کا اعلان ہوتا ہے رہے گا پروگرامس بنتے رہیں گے بجٹ بھی الاٹ ہوتے رہیں گے لیکن جب تک ریاستی حکومتیں اقلیتوں اور مسلمانوں کی بہبود اور ان کی ترقی کیلئے کھلے دل اور صاف ذہن کے ساتھ ان اسکیمات پر عمل نہیں کریں گے ۔ یہ طبقات اسی طرح کسمپرسی کی حالت میں جیتے رہیں گے اور اسی غربت و مفلسی میں مرجائیں گے ۔ یہ پالیسی بھی ناقابل عمل ہے کہ بجٹ کا 15فیصد حصہ اقلیتوں اور مسلمانوں کی بہبود کیلئے مختص کیا جانا چاہئے ۔ تعلقہ، ضلع اور بلاک کی سطح سے ان اسکیمات کے ثمرات ان پسماندہ طبقات تک پہنچائے جاسکتے ہیں ۔ آج حالت یہ ہے کہ اقلیتوں میں پیداشدہ ابتدائی مسرت و خوشی اور ترقی کرنے کی تمنائیں دوم توڑرہی ہیں ۔ پچھلی یوپی اے حکومت نے اقلیتوں اور مسلمانوں کے مسائل کا حقیقی جائزہ لیا تھا اس سے پہلے کہ ان طبقات میں مایوسی پیدا ہو موجودہ یو پی اے حکومت کو چاہئے کہ ان تمام پالیسیوں ، پروگرام اور منصوبوں پر جلد سے جلد عمل آوری کو یقینی بنائے ۔ میں امیدکرتا ہوں کہ حکومت مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے میں مزید ٹال مٹول کی قدیم پالیسی کو ترک کر کے مثبت ٹھوس اقدامات کے ذریعہ ان میں اعتماد کی فضا پیدا کرے گی ۔
why indian muslims are backward? Article by: Saleem Alhindi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں