دو قومی نظریے کا احیا - کلدیپ نیر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-06

دو قومی نظریے کا احیا - کلدیپ نیر


مظفربیگ کشمیر میں باشعور لوگوں میں شمار کئے جاتے ہیں لیکن میں نہیں سمجھ سکا کہ وزیر خارجہ سشیل کمار شنڈے کی اس رائے زنی پر کھڑے ہوئے تنازعہ پر آر ایس ایس اور بی جے پی دونوں اپنی شاکھاؤں میں دہشت گردوں کوٹریننگ دیتے ہیں تبصرہ کرتے ہوئے ہندوستان کے بٹوارے یا 1947کی خونریزی کا حوالہ کیوں دے رہے تھے ۔ دوسری طرف ایک پاکستانی وکیل نے کسی ٹیلی ویژن چینل پر ایک ہندوستانی مسلمان سے کہاکہ وہ تو ہند سے بدتر ہے کیونکہ وہ انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی ایس آئی) دہشت گردوں کو اُتارنے اور ان کی حمایت کا الزام لگاتا ہے ۔ مشہور ہندوستانی اداکار شاہ رخ خان کا کہنا ہے کہ وہ مسلمان کی حیثیت سے خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں ۔ اپنے ای میل پیغام میں کراچی کے ایک اچھے تعلیم یافتہ مسلم نے مجھے لکھا ہے کہ "ہمیں اپنے ہندو برادران سے کوئی پریشانی نہیں ہے اس حقیقت کے باوجود کے گجرات میں مسلم بھائیوں کو محض اس وجہہ سے قتل کیاجا رہا ہے کہ وہ مسلمانوں ہیں "۔ کوٹ لکھ پت جیل میں عملہ کے کارکنان نے جو ہندو مخالف نسلی فقرہ زنی کر رہے تھے ایک ہندوستانی قیدی کو برطرح زدوکوب کیا اور اسے جان سے مار ڈالا( اتفاق سے اس جیل میں سرب جیت سنگھ بھی موت کا منتظر ہے ) تمام تبصروں میں ایک مشترک موضوع جیل میں موت، ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اجنبیت کا سبب بنا ہوا ہے ۔ جب برطانوی حکمراں ملک چھوڑے رہے تھے تو بٹوار ے کو اس مسئلہ کا حل تصور کاے گیا تھا لیکن بٹوارے کے بعد یہ مسئلہ جوں کا توں ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان روابط یکسر تباہ ہو گئے ۔ اب یہ تفریق نہ صرف ہندو اور مسلمان بلکہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہو گئی ہے ۔

میں تقسیم ملک کا چشم دیدہ گواہ ہوں ۔ علیحدگی دونوں ملکوں کے ئلے ایک طرف کا تصفیہ تھطی اور اس تصفیہ کی بنیاد مذہب پر تھی۔ اب اس بحث سے زیادہ احمقانہ کوئی بات ہو نہیں سکتی کہ برصغیر کی تقسیم کا ذمہ دار کون تھا۔ 60 سال سے زائد عرصہ پر پھیلے ہوئے سلسلہ واقعات کے پیش نظر ایسی کوئی مشق علمی سطح پر ہی ہو سکتی ہے ۔ لیکن یہ واضح ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان 1940ء کی دہائی میں اختلاف اتنا شدید ہو گیا تھا کہ تقسیم جیسی کوئی چیز ناگزیر ہو گئی تھی۔ تقسے کی یاد دلا کر بیگ نے ایک خوف تازہ کر دیا اور یہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ایک دوسری تقسیم کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ہندوستانی معاشرہ اتنا جمہوری نہیں ہے جتنا ہمارے بزرگ اسے دیکھنا چاہتے تھے یا جس کا تصور کرتے تھے ۔ ہندوؤں کو یہ احساس ہے کہ وہ اکثریت میں ہیں اور مسلمان اقلیت میں ہونے کے احساس کا شکار ہیں ۔ پھر بھی ہندوستان کئی درجہ بہتر ہے ۔ پاکستان سے بہتر جس کے بانی محمد علی جناح نے کہا تھا کہ ریاست میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ اس نظریہ کو فروغ نہیں دیا کہ ہندوستانی مسلمان پاکستان بننے کے ذمہ دار ہیں ۔ اس لئے کراچی کا دانشور یہ کہہ کر عالم گیر اسلام کے نظریہ کی تشہیر کرتا ہے کہ ہمارے مسلم برادران قتل کئے جا رہے ہیں اس طرف کے مسلمانوں ہندوستانی ہیں اور سرحد پار جو ہیں وہ پاکستانی ہیں ۔ بعینہ یہی بات تقسیم کے بعدجناح نے کہی تھی۔ آپ پاکستانی ہیں یا ہندستانی اور آپ کی حیثیت مذہبی اعتبار سے نہیں بلکہ دیگر مفہوم میں ہندو، مسلم ، سیکھ اور عیسائی کی نہیں رہتی۔ انہوں نے دو قومی نظریہ پر وہیں اور اس وقت خاک ڈال دی تھی۔ جو کچھ گجرات میں ہوا وہ شرمناک اور ملک کے سیکولر چہرے پر ایک داغ ہے ۔ کا نتیجہ یہ ہے کہ گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کی حیثیت پورے ملک میں ایک حقیر شخص سے زیادہ کچھ نہیں ۔ گجرات، بنگال یا ہندوستان کی کسی بھی ریاست کے مسلمان قانون کی نظروں میں مساوی ہیں ۔ بعض انتہا پسندوں یا کمزور انتظامیہ والی ریاستوں کی وجہہ سے وہ کم حیثیت والے شہری نہیں ہو جائیں گے ۔ یہ درست ہے کہ ان کی پسماندگی قابل تشویش ہے جس کی طرف سچر کمیٹی نے اشارہ کیا ہے تاہم سچر کمیشن کی رپورٹ 6سال گذر جانے پر بھی نافذ نہیں ہوئی ہے ۔ دراصل بیگ اور ان جیسے اشخاص کا جن کا میں نے حوالہ دیا، مسئلہ یہ ہے کہ وہ دو قومی نظریے کی ذہنیت سے باہر نہیں نکل پائے ہیں ۔

قومیت کا تعین مذہب سے نہیں ہو گا۔ بنگلہ دیش یعنی مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی دو قومی نطریے کو پوری طرح دفن کر دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ دونوں ہی مسلمان تھے ۔ ایسے وقت میں جب مشرقی پاکستان کے عوام کے خلاف تفریق برتی جا رہی تھی ، مشرقی پاکستان کو ایک ہونے سے روک نہیں سکی۔ جب کشمیری عوام خود کو ایک قوم کے طورپر پیش کرتے ہیں تو وہ برادری یا معاشرے اور قوم کے تصور کو خلط مطل کر دیتے ہیں اگر اور کبھی بھی اقوام متحدہ کی قرار داد ناقد ہوتی ہے تو وہ یا تو ہندوستانی قوم کا حصہ ہوں گے یا پاکستان کا۔ اُن کی آزادانہ حیثیت نہ ہندوستان کو قبول ہے نہ پاکستان کو اور میں ایسے حالات کی پیش بینی بھی نہیں کرتا جہاں تین چار ملین افراد زمین سے بندھے ہوئے ہیں آزاد ہو جائیں گے ۔ درحقیقت سوال اس سے بھی بڑا ہے ۔ ہندو اور مسلمان جو صدیوں سے ساتھ رہتے آئے ہیں عموماً ایک دوسرے کے تئیں اپنی عداوت کو ترک نہیں کرپائے ہیں ۔ واحد پرسکون وقفہ وہ تھا جب مسلم حکومت کے دور میں وہ حکمرانوں کے خلاف اپنی جدوجہد میں متحد تھے اور یہ وہ دور تھا جب انگریز کو ویلن کی حیثیت حاصل تھی۔ فرقہ وارانہ الیکٹوریٹ اور مسلمانوں کیلئے ریزرویشن کی ابتدا کر کے انہوں نے ہندوستانی کے سیاسی نظام میں زہر کا انجکشن لگادیا اور ملک اب بھی اس نظام سے باہر نہیں نکل پایا۔ تقسیم کے فوراً بعد ایسا لگا کہ ہم اُس لعنت سے نجات پا گئے ہیں ۔ مسلمانوں نے رضا کارانہ طورپر دست برداری کا اعلان کر دیا اور کب کانسٹی ٹوئنٹ اسمبلی نے مسلمانوں کیلئے ریزرویشن کی شق رکھنی بھی چاہی تھی تو انہوں نے انکار کر دیا۔ انہیں ذرا بھی اندازہ نہیں ہوا کہ بعد میں تفریق کا شکار بنیں گے ۔ یہاں تک کہ سچر کمیشن نے کہہہ دیا کہ مسلمانوں کی حالت دتل سے بھی بدتر ہے ۔

مسلمانوں کیلئے فوری قابل تشویش نکتہ یہ ہے کہ ہندوؤں کا ایک گروہ دہشت گردانہ اعمال میں ملوث ہورہا ہے اور ہندو فرقہ مجموعی طورپر ہلاکتوں اور بم دھماکوں کیلئے مسلمانوں پر شک کر رہا ہے ۔ اقلیتی فرقے کے نوجوان لڑکوں کو پولیس نے دہشت گرد قرار دے کر اٹھالیا اور کئی سال جیل میں رکھا یہاں تک کہ عدالت نے انہیں بری کر دیا۔ یہ سچ ہے کہ وہ بے قصور ثابت ہوئے لیکن ان کی جوانی کا بہترین حصہ حراست میں گذرا۔ پھر جواب دہی کا کوئی احساس نہیں اور غلط طورپر ان نوجوانوں میں جیل میں رکھنے پر ایک بھی پولیس اہلکار کو سزانہیں ہوئی۔ سب سے زیادہ باعث رسوائی شاہ رخ خان کا یہ بیان ہے کہ مسلمان کی حیثیت سے وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں وہ ایسے آدمی نہیں کہ مبالغہ سے کام لیں یا کہانی گھڑنے کی کوشش کریں ۔ دہشت گرد حافظ محمد سعید اُن کے اس بیان کا استحصال کرتے ہوئے پاکستان آنے کی دعوت انہیں دے رہا ہے ۔ بے شک مؤخر الذکر کی پیشکش مضحکہ خیز ہے تاہم جب تے دیگر ہندوؤں کی طرح شاہ رخ خان خود کو محفوظ نہیں محسوس کرتے ہندوستان کی سیکولر اسناد کمزور رہیں گی۔ ان واقعات میں مجھے دو قومی نظریے کا احیاء نظر آ رہا ہے ۔

Will it be the revival of two-nation theory? - kuldip nayar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں