دلسکھ نگر - دہشت گردی کا نشانہ کیوں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-25

دلسکھ نگر - دہشت گردی کا نشانہ کیوں

حیدرآباد کے مشرقی علاقہ میں وجے واڑہ ہائی وے پر واقع دلسکھ نگر جو "منی آندھرا" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جمعرات 21/فروری کو تیسری مرتبہ دہشت گردوں کا نشانہ بنا۔ 2002ء میں سائی بابا مندر کے قریب پارک کیے اسکوٹر میں ہوئے بم دھماکہ میں 2افراد ہلاک ہو گئے تھے جب کہ 2007ء میں فٹ او ور بریج پر رکھے گئے بم کو ناکارہ بنادیا گیا تھا لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ دلسکھ نگر آخر دہشت گردوں کا مرکزی نشانہ کیوں ہے ؟

1970ء کے اوال میں دلسکھ نگر، آندھرا سے نقل وطن کر کے حیدرآباد آنے والے ہزاروں لوگوں کا نیا مسکن بننے لگا اور پھر چند برسوں میں یہ شہر کا سب سے زیادہ گنجان رہائشی اور مصروف ترین تجارتی علاقہ کی حیثیت حاصل کر گیا۔ چنانچہ آج دلسکھ نگر اور قریبی علاقوں میں بسنے والوں کی تعداد لگ بھگ 20 لاکھ سے متجاوز ہو چکی ہے ۔ ہمہ قسم کی دکانات اور بازار اور برانڈیڈ ملبوسات کی دکانوں کے قیام کے بعد دلسکھ نگر کی اہمیت اور قدر میں بھی کافی اضافہ ہو گیا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ نارائنہ اور چیتنیا کے بشمول خانگی کالجس اور کوچنگ سنٹرس کا ایک جال پھیل گیا۔
دلسکھ نگر بس اسٹانڈ جہاں بم کے دو طاقتور دھماکے ہوئے آندھراپردیش اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کا شہر کا دوسرا بڑا ہب [hub] بھی ہے جہاں سے روزانہ ایک ہزار سے زائد بسیں شہر کے مختلف علاقوں کیلئے چلائی جاتی ہیں اور یومیہ 10 لاکھ افراد س پوائنٹ سے سفر کرتے ہیں ۔

مکمل سائز میں دیکھنے کے لیے نقشہ پر کلک کریں

وجئے واڑہ، گنٹور کے بشمول ساحلی آندھرا کے کئی اضلاع کو جانے والی آرٹی سی اور خانگی لگژری بسیں دلسکھ نگر سے ہی گذرتی ہیں ۔ ریاست کی سب سے بڑی فروٹ مارکٹ کوتہ پیٹ بھی دلسکھ نگر سے بہت قریب ہے ۔ 2007ء میں عظیم تر حیدرآباد کی تشکیل کے بعد یہ علاقہ جو کبھی ملک پیٹ اسمبلی حلقہ میں شامل تھا اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی کے بعد ایل۔بی۔نگر میں آ گیا جو کہ اب پارلیمانی حلقہ ملکا جگری کا حصہ ہے ۔
دلسکھ نگر، دلسکھ رام پرساد نامی ایک زمیندار کے نام سے موسوم ہے جو ملک پیٹ کے اطراف ایک وسیع زرعی اراضی کے مالک تھے اور پھر انہوں نے 1960ء کے ابتداء میں اس زمین کو پلاٹنگ کرتے ہوئے فروخت کر دیا۔ 1975ء میں حیدرآباد اربن ڈیولپمنٹ ا تھاریٹی کے قیام کے بعد دلسکھ نگر کے لے آوٹ کی منظوری دی گئی اور پھر اس کے بعد یہ علاقہ شہر میں ایک شہر کا درجہ حاصل کر گیا۔

زندگی کے استعمال کی ہر شئے اب اس علاقہ میں آسانی کے ساتھ دستیاب ہونے لگی۔ ملک کے تمام قومی بینکوں کی شاخیں اور بے شمار اے ٹی ایم مراکز ایک طرف عوام اور تاجرین کی ضروریات کی تکمیل کر رہے ہیں تو دوسری طرف حیدرآباد کے میڈیکل سٹی میں تبدیل ہو جانے کے بعد دلسکھ نگر اور اس کے قرب و جوار میں خانگی دواخانوں کا گویا جال بچھ گیا ہے ۔
علاج ومعالجہ کے عصری تقاضوں کا دعویٰ کیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ دلسکھ نگر بم واقعہ کے بعد یہ ثابت ہو چکا ہے کہ حیدرآباد کے دواخانے خواہ وہ سرکاری ہوں یا کارپوریٹ ایسی نوعیت کی کسی سنگین اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے اہل نہیں ہیں ۔ چنانچہ جمعرات کی شام جو بم دھماکے ہوئے اور اس کے بعد جو تباہی و بربادی مچی اس کی سابق میں کوئی نظر نہیں ملتی۔ ان دھماکوں میں 16 افراد ہلاک اور 119 افراد زخمی ہو گئے ۔ سانحہ کا سب سے بڑا دشوار کن مسئلہ زخمیوں کو فوری طبی امداد کی فراہمی کا تھا۔

عثمانیہ دواخانہ میں ، جو ریاست کا سب سے بڑا سرکاری دواخانہ ہے ادویات، خون اور عصری آلات ہی نہیں بلکہ اسٹاف کی درکار تعداد کی قلت دیکھی گئی۔
108 کی ایمبولینس سرویس بھی سوالیہ نشان بنی رہی کیونکہ متعدد فون کالس کے باوجود صرف 14 ایمبولینس مقام واقعہ کو بڑی تاخیر کے ساتھ پہنچیں ، چنانچہ مقامی لوگوں کو زخمیوں کو خانگی گاڑیوں ، آرٹی سی و سٹ ون کی بسوں اور آٹو رکشاؤں میں مختلف دواخانوں کو منتقل کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

عثمانیہ دواخانہ کے ڈاکٹرس اور نرسوں کے بشمول سارا عملہ شائد ایسی کسی صورتحال کیلئے تیار نہیں تھا چنانچہ ایمرجنسی وارڈز میں زخمیوں کیلئے بستر کم پڑے اور زخمیوں کا فرش پر ہی علاج کیا گیا۔ سی ٹی اسکان اور ایکسرے مشین بھی غیر کارکر د تھے حد تو یہ ہے کہ کئی زخمیوں کیلئے ادویات،بینڈیج، گلوکوز کی بوتلیں اور خون تک دستیاب نہیں تھا چنانچہ انہیں قریبی علاقوں میں واقع میڈیکل شاپس کا رخ کرنا پڑا۔

ایک ایسے وقت جب کہ کسی کا عزیز شدید زخمی ہو اور فوری طبی امداد کا طلب گار ہے ان کے رشتہ داروں کیلئے ادویات اور خون کی تلاش کا حصول کس قدر گراں ہوتا ہے اس کا اندازہ کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے ۔

ملک پیٹ کے علاقہ میں واقع خانگی دواخانے یشودھا میں بھی صورتحال دواخانہ عثمانیہ سے کچھ مختلف نہیں تھی۔ زخمیوں کے عزیز و اقارب کو دواؤں کے حصول کیلئے دوڑدھوپ کرتے دیکھا گیا۔ ماہرین کی عدم موجودگی کے سبب ڈیوٹی آفیسروں کو بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

اے نیگیٹیو اور اے بی خون کی قلت کے باعث زخمیوں کے علاج و معالجہ میں کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بتایا جاتا ہے کہ شہر حیدرآباد و سکندرآباد کے بلڈ بینکس جن کی تعداد 50 کے قریب بتائی جاتی ہے خون کی قلت سے دوچار ہیں ۔ سنٹرل بلڈ بینک نارائن گوڑہ میں بھی درکار مقدار میں خون دستیاب نہیں ہے ۔ بلڈ بنک کے ذرائع نے بتایا کہ شہر میں خون کے عطیہ کیمپوں میں جمع کئے جانے والے کا صرف 30 فیصد سرکاری بلڈ بینک میں جمع کیا جاتا ہے جبکہ مابقی خون خانگی ادارے جیسے لائنس کلب، این ٹی آرٹرسٹ اور چرنجیوی بلڈ بینک جیسے اداروں کو دیا جاتا ہے ۔ اے نگیٹیو اور دوسرا نایاب خون بازار میں 800 روپے تا 2000 روپئے میں ملتا ہے۔ بات یہی نہیں فارنسک ڈاکٹروں کی کمی کے نتیجہ میں مہلوکین کے پوسٹ مارٹم اور نعشوں کی حوالگی میں تاخیر ہوئی اور مہلوکین کے رشتہ داروں کو گھنٹوں مردہ خانہ کے پاس انتظار کرنا پڑا۔ چنانچہ کئی مہلوکین کی تجہیزو تکفین رات دیر گئے انجام پائی۔

دلسکھ نگر میں پولیس کی بد انتظامی بھی دیکھنے میں آئی۔ کئی لوگوں کو اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب کی تلاش کیلئے مقام واقعہ پر پہنچ کر دشواری ہوئی۔ وہاں کوئی اعلیٰ عہدیدار رہنمائی یا مدد کیلئے دستیاب نہیں تھا جبکہ دوسری جانب مقام واقعہ کو تماش بینوں نے کئی گھنٹوں تک گھیر رکھا تھا۔ افراتفری اور زخمیوں کی مقام واقعہ پر پڑے ہوئے دلخراش مناظر دیکھے گئے ۔


سید زین العابدین

Why Dilsukhnagar is a target of terrorism? Article by: Syed Zainul Abideen

2 تبصرے:

  1. Thanks for inclusion my story in Tameer

    جواب دیںحذف کریں
  2. زین بھائی ، آپ کا بھی شکریہ کہ آپ نے اشاعت کی اجازت مرحمت فرمائی۔

    جواب دیںحذف کریں