پروین توگڑیا کو پولیس گرفتار نہیں کر سکتی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-25

پروین توگڑیا کو پولیس گرفتار نہیں کر سکتی

پولیس نے بھوکر ٹاون (مہاراشٹرا) میں 22/جنوری 2013ء کو اشتعال انگیز تقریر کرنے پر واشوہندو پریشد لیڈر پروین توگڑیا کے خلاف ایک کیس چاہے درج کر لیا ہو وہ انہیں گرفتار کرنے کے مرحلے سے بہت دور ہے ۔ روزنامہ "میل ٹوڈے " نے 6!جنوری کو اشاعت میں یہ رپورٹ دی کہ توگڑیا کے خلاف ان کی تقریر کی بناء پر پولیس ایک ایف آئی آر تو درج کر لی ہے لیکن وہ انہیں اس وقت تک گرفتار نہیں کر سکتی جب تک کہ مہاراشٹرا ریاستی حکومت گرفتار کرنے کی اجازت نہ دیدے ۔ 7!فروری کو مہاراشٹرا کے وزیر داخلہ آر آر پاٹل نے کہاکہ "پروین توگڑیا کو گرفتار کرنا یا نہ کرنا چھان بین سے متعلق آفیسر کی صوابدید پر منحصر ہے ۔ اس طرح کے معاملوں میں بحیثیت حکومت ہم کوئی مداخلت نہیں کریں گے "۔ جبکہ ناندیڑمیں پولیس عہدیداروں نے کہاکہ وہ توگڑیا کو صرف اس صورت میں گرفتار کر سکیں گے جب کہ ریاستی حکومت گرفتار کرنے کی اجازت دے کیونکہ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے "۔ واشوا ہندو پریشد کے انٹرنیشنل سکریٹری جنرل پروین توگڑیا بالکل مطمئن بیٹھے ہیں ۔ کیونکہ ان کے خلاف بھوکر ٹاون میں ایف آئی آر درج کئے ہوئے دو ہفتے سے زیادہ عرصہ گذر گیا لیکن کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ ایک ممتاز روزنامہ میں یہ خبر شائع ہوئی پروین توگڑیا کے معاملے میں پولیس عہدیداروں اور ریاستی وزیر داخلہ کے مابین "پنگ پانگ" جیسا کھیل چل رہا ہے ۔ کوئی معمولی سا پڑھا لکھا بھی یہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ با اختیار اور اقتدار لوگ تاخیر پیدا کرنے اس نوعیت کی ٹال مٹول کرتے رہتے ہیں ۔ ویسے جہاں تک مہاراشٹرا پولیس کا تعلق ہے اس نے فرقہ واریت کے علمبردار لیڈروں کے خلاف کوئی کار روائی کرنے کا تمغہ ابھی تک نہیں پایا ہے ۔ دھولے میں فرقہ وارانہ فسادات کی ویڈیو کلپس میں تو یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ پولیس ملازمین تشدد، آتشزنی اور لوٹ مار کر رہے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں پولیس ملازمین کی گرفتاریاں بھی ہوئیں ۔ ان مناظر نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پولیس ادارے کے اندر بگاڑکس انتہا کو پہنچ گیا ہے ۔ اب ریاستی وزیر داخلہ کا اچانک یہ کہنا کہ "پولیس عہدیداروں کی صوابدید" پر منحصر ہے "ٹال مٹول کرنا اور کسی معاملے میں فیصلہ نہ کرنے کا ایک کھیل ہے ۔ توقع کے عین مطابق میڈیا کے وہ تمام لوگ جو اکبر الدین اویسی کی نفرت انگیز تقریر کے خلاف اپنے منہ سے جھاگ اگل رہے تھے ۔ ان سبھی نے پروین توگڑیا کی نفرت بھڑکانے والی تقریر پر ایک محتاط چپ سادھ رکھی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ وشوا ہندو پریشد کے ساتھ برسوں کام کرنے سے پروین توگڑیا نے کئی سیاسی چالیں سیکھ لی ہیں ۔ ان کیلئے پولیس کی ایف آر آئی ایسا لگتا ہے ان کی شخصیت کو زیادہ سے زیادہ چمکانے کا اور ان کے انٹرویو کو بڑھانے کا ایک ذریعہ بن گئی ہے ۔ شائد اس بناء پر انہوں نے بھوکر ٹاون میں تازہ ایف آئی آرکے درج ہونے کے بعد چند دنوں کے اندر ہی کمبھ میلے میں دھاڑتے ہوئے یہ کہا کہ "و وٹ کے لالچی سیاسی لوگوں نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے تاکہ ان کو قانونی جال میں پھنسایا جائے پروین توگڑیا کے بیان کے بموجب یہ ایف آئی آر صرف ان کے خلاف ہیں بلکہ ان تمام ہندوؤں کے خلاف درج کی گئی ہے جوکہ اپنے کلچر اور اپنی ہسٹری کا احترام کرتے ہیں ۔ اور آرزو مند ہیں کہ اچھی تعلیم، اچھے روزگار پائیں ، کاروبار کیلئے بنکوں سے قرضوں کی رقم اور اراضی پائیں ۔ ہر وہ فرد جس نے کہ پروین توگڑیا کی گذشتہ چند برسوں میں سرگرمیوں پر نظر جمائے رکھی ہے وہ واقف ہے کہ پروین توگڑیا نے کوئی پہلی بار اقلیتوں کو نشانہ نہیں بنایا۔ یہ تو صرف گذشتہ مہینے حیدرآباد میں ہوا کہ دسمبر مہینے کے دوران بھاگیہ لکشمی مندر کے بارے میں ہوئے تنازعے پر پروین توگڑیا نے اپنے دورے کے دوران مبینہ طورپر جو اشتعال انگیز بیانات دئیے اس پر حیدرآباد پولیس نے ان کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کر لی۔ اپنی تقریر میں پروین توگڑیا نے مبینہ طورپر یہ کہاکہ اگر چارمینار سے ملحقہ بھاگیہ لکشمی مندر میں پوجا سے اگر ہندوؤں کو روکا گیا تو پھر حیدرآباد کو بھی ایودھیا بنادیا جائے گا۔ گذشتہ سال پروین توگڑیا نے کشمیر میں راجوری کے مقام پر بھی ایک نفرت انگیز تقریر کی تھی۔ جبکہ راجوں میں دو طبقوں کے مابین کشیدگی پیدا ہو گئی۔ 6!مارچ 2012ء کو دفعہ 153-A کے تحت پروین توگڑیا کے خلاف ایک کیس درج رجسٹرڈ کیا گیا لیکن سیاسی دباژ کے زیر اہتما پروین توگڑیا کو پولیس نے گرفتار نہیں کیا۔ چند سال قبل گوام میں پنجم کے مقام پر (9اکتوبر تا 15اکتوبر2004) پروین توگڑیا نے مسلمانوں اور کرسچنوں کے خلاف نفرت اور اشتعال بھڑکانے والی تقریریں کی تھیں ۔ انہوں نے کرسچینس کو "کیتو"Ketu قرار دیا تھا۔ ہندو دھرم کے شاستروں میں گرا ہوا اور "کیتو"نامی سیاروں کو نہایت منحوس اور نقصان رساں بنایا گیا ہے ۔ "گرا ہوا" اور"کیتو" کو بھوت جیسا خطرناک بتایا گیا ہے ۔ ملالسہ Mahalsaٹمپل میں "سونا پرانت اخبار کو دئیے گئے انٹرویو میں پروین توگڑیا نے مسلمانوں کو "گرا ہوا" اور کرسچینس کو "کیتو" جیسا منحوس اور نقصان رساں قراردیا تھا اور یہ کہا تھا کہ لارڈ مہالسہ نے ان دونوں شیطانوں کو ہلاک کر دیا تھا لیکن وہ دونوں شیطان پھر سے مسلمان اور کرسچین کے روپ میں پیدا ہو گئے تاکہ ہندوازم کو تباہ و برباد کر دیں ۔ پروین توگڑیا کا مطلب بس یہ تھا کہ اب سبھی بنیاد پرست ہندوؤں کا فریضہ ہے کہ وہ ہندو مت کے تحفظ کیلئے مسلمانوں اور کرسچینس کا خاتمہ کر دیں ۔ کیونکہ مسلمان "گرا ہوا" اور کرسچین "کیتو" جیسے ہیں ۔ ہندوتوا بریگیڈ میں اقلیتوں کے خلاف نفرت اور اشتعال بھڑکانے والے صرف پروین توگڑیا ہی نہیں بلکہ ان سے بھی آگے اور بڑھ کر دیگر کئی لیڈرس ہیں ۔ ہندوستانی قانونی کے تحت مختلف طبقوں میں مذہب، دھرم کی بنیاد پر عداوت اور مخاصمت پیپدا کرنا ایک قابل مواخذہ جرم ہے ۔ تعزیرات ہند کی دفعہ 298، دفعہ 8.8C،505(1)، دفعہ 505(2) ، دفعہ 108 کے تحت کوئی ایگزیکٹیو مجسٹریٹ مذہبی منافرت، اشتعال انگیزی، فساد برپا کرنے والوں ، قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف تعزیری اور فوجداری کار روائی کر سکتا ہے ۔ مرکزی وزارت داخلہ نے بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروخت کیلئے کئی رہنمایانہ ہدایت دی ہیں اورتعزیرات ہند اور فوجداری ضابطے کی مذکورہ بالا دفعات کے تحت کار روائی کرنے پر زوردیا ہے ۔ سیول اور پولٹیکل رائٹس سے متعلق بین الاقوامی میثاق کے آرٹیکل 20 کے تحت قومیت، نسل یا مذہب کی بنیاد پر امتیاز برتنا جارحیت یا تشدد پر اکسانا قانوناً ممنوع ہے ۔ ہندوستان نے 1979ء میں اس بین الاقوامی میثاق کی توثیق کی۔ بہر کیف دستور اور قانون میں واضح گنجائش ہے مسئلہ بس یہ ہے کہ فرقہ وارانہ تعصب بھڑکانے والوں ، فساد بھڑکانے والوں کے خلاف ان کا استعمال کیا جائے گا۔ مملکت نے ہمیشہ توگڑیا، اشوک سنگھل، گری راج کشور اور دیگر فرقہ پرست لیڈروں کے خلاف قانونی کار روائی سے گریز کیا ہے ۔ 26/11 کے دہشت گردانہ حملے میں ممبئی میں مہاراشٹرا اے ٹی ایس کے چیف ہنمنت کرکرے کی ہلاکت کے بعد سے کرنل پروہت اور بھینو بھارت سے وابستہ دیگر ہندوستوا سیاست سے وابستہ سبھی لیڈروں کو تو بڑی راحت مل گئی ہے ۔ پروین توگڑیا کی نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقریروں کے خلاف کار روائی کئے جانے کے امکان بھی نہیں دکھائی دیتے ۔ یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ راجستھان میں 8!اپریل 2003ء کو اشوک گیہلوٹ حکومت نے MKSS,PUCL اور دیگر سیکولر تنظیموں کے شدید احتجاج اور دباؤ کے زیر اثر جب ڈاکٹر پروین توگڑیا کی زیر قیادت ترشول تقسیم کرنے کی مہم روکنے سخت کار روائی کی تھی اور ان کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا تھا۔ تب ان کی گرفتاری کے خلاف وشوا ہدن پریشد کے دفتر میں 650 ترشول ضبط کرلئے جانے کے خلاف کوئی احتجاج کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔ حالانکہ پروین توگڑیا نے یہ انتباہ دیا تھا کہ ان کی گرفتاری پر ملک بھر میں ہنگامہ برپا ہو جائے گا اور وہ اپنی رہائی کیلئے ضمانت کی درخواست بھی پیش نہیں کریں گے ۔ لیکن جیل بھجوائے جانے کے بعد پروین توگڑیا نے کوئی ایک ہفتہ بعد چپ چاپ ضمانت لے کر رہائی حاصل کر لی تھی۔

'Police Can’t Arrest Togadia' - Article by: Subhash Gatade

1 تبصرہ:

  1. IF he not senior as in age to me ,I to say him he always looking like as a worst South african Animal

    جواب دیںحذف کریں