ریاست تمل ناڈو میں اردو زبان کی بحالی کا لائحہ عمل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-28

ریاست تمل ناڈو میں اردو زبان کی بحالی کا لائحہ عمل

بین الاقوامی اور ملکی قوانین کے تحت کسی کے بھی مادری زباں کو ان سے چھیننا قانون کی خلاف ورزی ہے
ریاست تمل ناڈو میں زبان اردو کی بحالی ۔ لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے

شہر وانمباڑی جو ہمیشہ سے کسی بھی علمی وا دبی تحریک کے لیے مثالی شہر ما نا جاتا ہے، بزم اردو ادب کے جیالوں نے اس شہر کی تاریخ میں ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے 21 فروری کو شہر وانمباڑی میں پہلی مرتبہ بین الاقوامی یوم مادری زباں پر ایک سمینار منعقد کیا، اور یہ سمینار ایسے حالات کے درمیان منعقد کیا گیا ہے جب کے ہماری مادری زبان اردوکے لیے ملک بھر میں اہل زباں اسکی بحالی کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں اور خصوصی طور پر تمل ناڈو میں اردو زباں کے ساتھ جو نا انصافی ہوئی ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، لیکن تمل ناڈو کی لشکر اردو اس نا انصافی کے خلاف کئی محاذوں پر اپنی جنگ لڑرہی ہے، ایک طرف روز نامہ راشٹریہ سہارا اردو اخبار کے سہارے تو دوسری طرف مجلس تحفظ اردو کی قیادت میں اپنی مادری زباں کی بحالی کے لیے مستقل جدوجہد جاری ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جدو جہد انشا اللہ تب تک جاری رہے گی، جب تک ہماری مادری زباں اردو کو ریاست تمل ناڈو میں وہی مقام نہیں مل جاتا جو سال 2006سے قبل ہمیں حاصل تھا، 21 فروری کی تاریخ کویو نائٹیڈ نیشنس، یو این نے کیوں بین الاقوامی یوم مادری زباں قراردیا ہے، اور عالمی سطح پر اس دن کو کیوں بین الاقوامی یوم مادری زباں کیوں منا یا جاتا ہے ، اس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ کسی بھی نا انصانی کے خلاف اگر کوئی تحریک چلانی ہو تو ہمیں اس کے لیے سب سے پہلے منظم و متحد ہونا پڑے گا، اس کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا، اس کے لیے ہمیں قربانیاں پیش کرنی ہونگی، جس کے لیے سب سے پہلے ہمیں بین الاقوامی یوم مادری زبان کی تاریخی حیثیت اور اس کے پس منظر پر سنجیدگی سے ایک نظر ڈالنی ہو گی،سن 1947 میں ہندوستان اور پاکستان کے تقسیم کے بعد صوبہ بنگال کامغربی حصہ ہندوستان کے حصے میں اور اس کا مشرقی حصہ پاکستان میں شامل ہو گیا تھا، جسے پہلے پہل مغربی بنگال کہا جاتا تھا، اور بعد میں مغربی پاکستان کہا جانے لگا، لیکن مشرقی پاکستا ن اور مغربی پاکستان کے درمیان ثقافتی، اقتصادی، اور لسانی کشیدگی کا ماحول برقرار تھا، ایسے ماحول میں سن 1948میں جب پاکستان حکومت نے اردو کو قومی زباں قرار دے دیا، اس اعلان کے بعد مشرقی پاکستان کی بنگالی زباں بولنے والی اکثریت نے حکومت کے اس اعلان کے خلاف مظاہروں اور احتجاج کے ذریعے اپنی مادری زباں بچانے کی کوشش کی لیکن حکومت پاکستان نے ان کے مظاہروں اور احتجاج کو غیر قانونی قرار دے دیا، لیکن بنگالی زباں بولنے والوں نے اپنی مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھا، پھر دوبارہ 21فروری سن1952کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء اور دیگر رضاکاروں نے بڑے پیمانے پر ایک مظاہرہ کیا، اور ان مظاہرین پر ہوئے پولیس فائرنگ میں چار طلباء جاں بحق ہو گئے، ان چار طلباء نے اپنے مادری زباں کی حفاظت میں اپنی جان کی قربانی دی تھی، ان کی قربانیوں کی یادگار میں 17 نومبر 1999 کوUNESCO نے 21 فروری کو بین الا قوامی یوم مادری زباں قرار دے دیا، اور 21 فروری 2000سے باقاعدہ عالمی سطح پر یوم مادری زباں کا اہتمام کیا جا رہا ہے، 21 فروری کے دن بنگلہ دیش میں قومی تعطیل ہے، اور اس دن ان چار نوجوانوں کے یادگار میں بنائے گئے شہید مینار میں بنگلہ دیشی عوام خراج عقیدت پیش کرتے آ رہے ہیں، لیکن ریاست تمل ناڈو میں اور ہمیں اپنی مادری زباں اردو کی بحالی کے لیے جان کی قربانی دینے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اس معاملہ میں ہمیں ایک ہونا ہے، اور جو ادارہ اور جو شخصیات ہماری مادری زباں کی بحالی کی یہاں ریاست تمل ناڈو میں کوشش کر ر ہے ہیں، ان کا بس ہمیں بھر پور ساتھ دینا ہے، صرف ان کی آواز پر ہمیں لبیک کہنا ہے، اردو کے سلسلے میں پچھلے دو سالوں میں اب تک جتنے بھی جلسے منعقد کئے گئے ہیں، ان اجلاس کے بعد یہاں کے عوام کا رشتہ مجلس تحفظ اردوسے کٹ جاتا ہے، اور پھر اردو داں اپنے اپنے کام میں لگ جاتے ہیں، مجلس تحفظ اردو کے ذمہ داروں اور بزرگ شخصیات سے گذارش ہے کہ وہ اس مسئلے کو ایک تحریک کی شکل دے دیں، اعلان کر دیں کے جن کی مائیں اردو زباں بولتی ہوں، ان گھروں کے دو دو،چار چار افراد اس تحریک کے کا رکن ( رضا کار) بن جائیں، اور جب بھی مجلس تحفظ اردو کسی احتجاج یا مظاہرہ کا اعلان کرتی ہے تو وہ ان مظاہروں میں شامل ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں، اور جن مخلص احباب نے عدالت میں مقدمہ درج کرنے کا مشورہ دیا ہے، اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے، جب اس تحریک کے لیے شہر وانمباڑی، آمبور، ترپاتور، ویلور، وشارم، گڈیاتم، پرنامبٹ اورکرشنگری اور چنئی سے رکن سازی مکمل ہو جائے گی تو ہم ہمت اور عزم کے ساتھ حکومت کے سامنے ہماری مانگ رکھ سکتے ہیں، جہاں تک حکومت کے سامنے ہماری بات رکھنے کا معاملہ ہے خود مجلس تحفظ اردو تمل ناڈو کے ذمہ داراس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ہمارے ریاست میں تقریبا 24تنظیموں کی ایک فیڈریشن موجود ہے، جس میں ریاست کی سبھی سیاسی اور سماجی تنظیمیں شامل ہیں، اور کس طرح حال ہی میں اس فیڈریشن نے ملکر ایک متنازعہ فلم کے تعلق سے حکومت تمل ناڈو سے اپنی بات منوائی تھی، ا گر مجلس تحفظ اردو، تحریک کے کارکنان کے مضبوط ارادوں کے بل بوتے پر اور فیڈریشن کے توسط سے متفقہ طور پر حکومت تمل ناڈو کے سامنے اردو زباں کی بحالی کی بات رکھیں گے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ 2014کے پارلیمانی انتخابات سے پہلے ہمارا مطالبہ پورا ہو جائے گا، لیکن اگر اس مسئلے کو کسی ایک پارٹی یا تنظیم سے اگر جوڑکر اس سلسلے میں کوشش ہو گی تو اس میں ہمیں ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملے گا، اور ریاست تمل ناڈو میں اردو دانوں کے ایک طبقے کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ انگریزی اور تمل زباں کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے ہی سے ہماری مستقبل سنور سکتی ہے، ان احباب کے شکوک کو دور کرنے کے لیے یہاں ان مثالی شخصیتوں کا مختصر ذکر کرنا لازمی ہے، جنہوں نے اردو میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کر کے آج دنیا کے کونے کونے میں اپنے شہر کا نام روشن کر رہے ہیں،ان مثالی شخصیات میں سب سے پہلے میں ڈاکٹر ف عبد الرحیم صاحب کا مختصرتعارف پیش کرنالازمی ہے، ڈاکٹر ف عبد الرحیم صاحب کا تعلق اسی شہر وانمباڑی سے ہے ، آپکی ولادت 7 مئی 1933 کو شہر وانمباڑی میں ہوئی، یہاں کی مٹی کا اثر تھا کہ انہوں نے علمی میدان میں اپنے جوہر دکھائے ، آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اسلامیہ اسکول سے حاصل کی، اس کے بعد اسلامیہ کالج میں انٹر کیا، اور پھر شہر مدراس میں آپ نے پریسیڈینسی کالج سے انگریزی زبان و ادب میں بی اے ہانرس کیا، اور آپ نے مدراس یونیورسٹی سے افضل العلماء اور علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے عربک کی ڈگری حاصل کی، اس کے بعد آپ جامعہ ازہر چلے گئے، جہاں آپ نے ایم فل اور ڈاکٹریٹ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، آپ مصر جانے سے پہلے اسلامیہ ہائی اسکول میں بحیثیت استاد انگریزی خدمت انجام دی، آپکی علمی صلاحیت سے فیض اٹھانے کے لیے آپ کو اسلامیہ کالج کے انتظامیہ نے آپکو اسلامیہ کالج بلا لیا، جہاں آپ نے شروع میں انگریزی پڑھائی، اس کے بعد آپ نے اپنی کوشش سے عربی زبان کا باقاعدہ کورس شروع کیا، آپ انگریزی کے ساتھ ساتھ عربی زبان بھی پڑھانے لگے، آپ 1967 میں سوڈان چلے گئے، جہاں آپ نے ام درمان یونیورسٹی میں تقریبا تین سال خدمت انجام دی، 1969میں آپ مدینہ منورہ کی مشہور یونیورسٹی میں غیر عربوں کو عربی پڑھاتے رہے، اور اسی سال میں آپ نے مدینہ منورہ یونیورسٹی میں غیر عربوں کو عربی پڑھانے کے لیے فیکلٹی آف عربک لینگیویج کی بنیاد ڈالی، 1996میں تقریبا 30سال اس شعبہ میں خدمت انجام دینے کے بعد آپ ریٹائرڈ ہو گئے، اس کے بعد بھی آپ کو حکومت سعودی عرب سے واپس ہندوستان بھیجنا نہیں چاہتی تھی، چونکہ آپ عربی، اردو، اور انگریزی کے علاوہ دیگر عالمی زبانوں پر آپ کو بھر پور عبور حاصل تھا، اور اس کے علاوہ ہندی، تمل، سنکسرت،پر بھی اچھی مہارت حاصل ہے، اس لئے سعودی حکومت نے آپ کوکنگ فہد قرآن پرنٹنگ کامپلکس کے ڈائرکٹر کی حیثیت سے آپ کو معمور کر دیا، اور آپ الحمد اللہ آپ اسی شعبہ میں خدمت انجام دے رہے ہیں، ڈاکٹر ف عبد الرحیم صاحب نے اب تک عربی، اردو، انگریزی اور تمل زباں میں جملہ چالیس کتابوں کے قریب تصنیف کی ہیں، اس کے علاوہ آپ کا ایک ویب سائٹ www.drvaniya.com جس میں آپ نے بغیر کسی فیس کے عربی زباں اور اسلامی تعلیم کا دو سالہ کورس کا آغاز کیا ہے، جس سے خواہش مند احباب استفادہ حاصل کر سکتے ہیں، عربی زباں کے طلباء و طالبات ڈاکٹر صاحب کی پچاس سالہ خدمات اور ان کے خدمات کے مختلف شعبہ جات پر ڈاکٹریٹ کر سکتے ہیں، شہر وانمباڑی کے ایک اور معروف شخصیت حوالدار عبد الرقیب صاحب آپ بھی شہر وانمباڑی سے تعلق رکھنے والے ایک اور مثالی شخصیتوں میں شمار ہوتے ہیں، جن کی ابتدائی تعلیم اور مادری زباں اردو ہے، آپ انڈین سینٹر فار اسلامک فنانس کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے اسلامک بینکنگ کو پوری دنیا میں قائم کرنے کے لیے مستقل طور پر کوشاں ہیں، آپ کی ملی خدمات پر بھی کوئی طالب علم پی ایچ ڈی کر سکتا ہے، ان کے بعد ایک اور معروف شخصیت پٹیل محمد یوسف صاحب ہیں، آپ کی پیدائیش بھی اسی سرزمین شہر وانمباڑی میں ہوئی ہے، آپ نے بھی اردو میڈیم ہی سے اسلامیہ اسکول میں پی یو سی تک تعلیم حاصل کیا، اور پھر اسلامیہ کالج میں بی ایس سی کیا ہے، موصوف کے خدمات اور علمی قابلیت پر بھی احاطہ کرنا یہاں ناممکن ہے،آپ کو بیک وقت اردو، تمل، اور انگریزی زباں میں مہارت حاصل ہے، اور وانیٹک کے قیام میں آپ کا جو نمایا ں کردار رہا ہے، وہ کردار قابل ستائش اور قابل تقلید کہا جاسکتا ہے ، لہذا آپ پر لازما پی ایچ ڈی کیا جانا چاہئے، جس سے اگلی نسل کو ان کے کارناموں کی ایک ضخیم تاریخی کتاب میسر ہو گی، جس سے اگلی نسل استفادہ حاصل کر کے کامیاب اور کامران ہو سکتی ہے، اسانغنی عرفان احمد صاحب آپ کی پیدائش بھی اسی سر زمین وانمباڑی میں ہوئی، ابتدائی تعلیم آپ نے مسلم پور کے منسپل اسکول سے اردو میڈیم میں حاصل کی، اور پھر اسلامیہ اسکول سے بارہویں جماعت تک آپ نے اردو میڈیم میں تعلیم حاصل کی، اور پھر اسلامیہ کالج سے 1999میں بی ایس سی مکمل کیا، اور پھر 2001میں آپ نے ایم ایس سی مکمل کیا، اور آپ نے سال 2009میں Heidelberg University Germany سے کینسر بیالوجی پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے، اور موصوف کو سال 2007میں لنڈین، جرمنی میں منعقد ہوئے 57 واں نوبل لاریٹس کی میٹنگ میں عالمی سطح کے نوجوان سائنسدانوں کے درمیان مقابلہ جاتی امتحانات میں حصہ لینے کے لیے انہیں مدعو کیا گیا، اور وہ فی الحال یو نیورسٹی آف Michiganمیں سائنٹسٹ ہیں،ان تمام کے علاوہ پچھلے بیس سال پہلے سے شہر وانمباڑی میں کئی ایسے نامور شخصیات نے اردو میڈیم ہی تعلیم حاصل کر کے آج ملک اور دنیا بھر میں اپنے شہر کا نام روشن کر رہے ہیں، ان مثالی شخصیتوں کے علاوہ ہمارے سامنے کئی اور اہلیان وانمباڑی کی مثالیں موجود ہیں، جنہوں نے اردو میڈیم کے ذریعے تعلیم حاصل کی ہے، ان مثالی شخصیات میں سب سے پہلے شہر وانمباڑی کے دینی مدرسوں سے فارغ ہونے والے تمام علماء کرام کا نام آتا ہے ، ان کے بعد اپنی مادری زباں میں تعلیم حاصل کرنے والے جناب کاکا محمد زبیر احمد صاحب، ڈاکٹر آر ایس خالد فرید صاحب سائنس دان، وی پی نعیم الرحمن صاحب، میاں رشید احمد صاحب، ڈاکٹر ایم ایل سلیم احمدصاحب مرحوم، ڈاکٹر اکبر کوثر صاحب، ڈاکٹر نمازی طاہرصاحب، اکبر زاہد صاحب صحافی، پروفیسر جلال کڑپوی مرحوم کے نواسے ڈاکٹر ایس اے کبیر صاحب اور ان جیسے کئی ہزارمعروف شخصیات نے اردو میڈیم ہی سے تعلیم حاصل کر کے آج ملک اور دنیا بھر میں مختلف شعبوں میں اپنے شہر کا نام روشن کر رہے ہیں، بہرحال اپنی مادری زباں کی حفاظت کرنے کے لیے نہ صرف ہمارے جمہوری ملک ہندوستان کے دستور میں اختیارات حاصل ہیں، بلکہ عالمی سطح پر بھی مادری زباں کی اہمیت کواجاگر کرتے ہوئے، یو این نے بھی21 فروری کو بین الاقوامی یوم مادری زباں قرار دے دیا ہے، جس سے ہمیں یہ بات وضاحت کے ساتھ سمجھ میں آتی ہے کہ عالمی اور ملکی سطح پر کسی بھی مادری زباں بولنے والوں سے ان کی مادری زبان نہیں چھینی جاسکتی ہے ۔

فیصل مسعود

Strategic plan for upbringing Urdu language in Tamil Nadu. Article by: Faisal Masood

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں