دہشت گردانہ واقعات کی صحیح سمت میں تفتیش ضروری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-26

دہشت گردانہ واقعات کی صحیح سمت میں تفتیش ضروری

ایک بار پھر حیدرآباد بم دھماکوں سے لرز اٹھا، آنافاناً درجنوں افراد موت کے منہ میں چلے گئے اور بہت سے زخمی ہو گئے ۔ جن لوگوں نے دھماکے کئے ، انہوں نے بزدلانہ حرکت کی اور انسانیت کا قتل کیا۔ ان کی اس حرکت کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن محض مذمت کافی نہیں بلکہ انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کی بھرپور اور صحیح سمت میں کوشش بھی ضروری ہے ۔ جتنی جلدی دھماکے کے ذمہ داروں کو قانون کی گرفت میں لے لیا جائے گا، اتنا ہی بہتر ہو گا۔ تفتیش میں انصاف اور سچائی کو برقرار رکھا جانا چاہئے کیونکہ اصل ذمہ داروں تک پہنچنے کیلئے یہ ضروری ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ ماضی میں ہونے والے متعدد دہشت گردانہ دھماکوں کی تفتیش صحیح سمت میں نہیں کی گئی اور حقیقی ذمہ داروں کو گرفتار کرنے کی بجائے بے قصوروں کو گرفتار کیا گیا۔ ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔ انہیں جیل میں ٹھونسا گیا۔ ان کے خلاف مقدمات چلائے گئے ۔ ان کو سخت پریشانی میں مبتلا کیا گیا۔ ان کی زندگیوں سے کھلواڑکیا گیا اور ان کے مستقبل کو تباہ و برباد کیا گیا۔ مئی 2007ء میں حیدرآباد کی مکہ مسجد میں دھماکہ ہوا تھا جس میں ایک درجن سے زائد لوگ مارے گئے تھے اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے ۔ یہ دھماکہ جمہ کے دن جمعہ کی نماز کے وقت ہوا تھا۔ تفتیش کار ایجنسیوں اور پولیس اہلکاروں نے اس کا ذمہ دار مسلم نوجوانوں کو ٹھہرایا، ہر چند کے موقع واردات کا تقاضہ یہ تھا کہ مسلم مخالفین کو تفتیش کی زد میں لیا جاتا لیکن موقع واردات کے اصول کے خلاف مسلمانوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ پولیس اور تفتیش کاروں نے جرم کو ثابت کرنے کی پوری کوشش کی، ثبوت گھڑنے کیلئے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن عدالت کی تحقیق نے پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کے ذریعہ ذمہ دار قراردیے گئے مسلم نوجوانوں کو بری کر دیا۔ کیونکہ عدالت نے اپنی تحقیق کے دوران انہیں بے قصور اور ان پر لگے ہوئے الزامات کو غلط پایا۔ عدالت کے اس فیصلہ کے آنے کے بعد یہ سوال کھڑا ہونا لازمی تھا کہ جن بے قصوروں نے نا کردہ گناہ کے عوض میں جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں اپنی زندگی کے اہم اوقات گذارے ، سخت مشقتیں برداشت کیں ، ان کے مستقبل کیلئے کیا کیا جائے اور ان کے وقت کی تلافی کیسے ہو؟ چنانچہ اس بات پر غور وخوص ہوا کہ ان بے قصوروں کو معاوضہ دیا جائے ۔ حکومت نے اس پر عمل کرتے ہوئے بعض بے قصوروں کو 3'3لاکھ کا معاوضہ دیا تاکہ وہ اپنے مستقبل کو سنوار سکیں ۔ حیران کن امر یہ ہے کہ حال ہی میں ایک بار پھر جب حیدرآباد میں دھماکے ہوئے ہیں تو تفتیش کاروں اور پولیس اہلکاروں نے پھر اپنی اسی ڈگرپر چلنا شروع کر دیا ہے جس پر وہ 2007ء میں ہونے والے دھماکوں کے بعد چلے تھے ۔ یعنی ایک بار پھر مسلمانوں کو شک کے دائرے میں لیتے ہوئے اندھا دھند انہیں گرفتار کیا جانے لگاہے ۔ حد تو یہ ہے کہ مکہ مسجد کے دھماکے کے جن ملزمین کو عدالت نے بری کر دیا تھا اور حکومت نے جنہیں معاوضہ دیا تھا، ان سے بھی پوچھ گچھ کی جا رہی ہے ۔ یہ صورتحال یقیناً بڑی تشویشناک ہے کیونکہ جن بے قصوروں نے زندگی کے پانچ قیمتی سال جیلوں میں گزاردیے اور ہر طرح کی تکلیف برداشت نہیں کی انہیں اب بھی مشکوک سمجھا جا رہا ہے ۔ اس طرح تو ان کی بقیہ زندگی مشکلات سے دوچارہو جائے گی، جب بھی کہیں دھماکے ہوں گے ان سے پوچھ گچھ ہو گی، انہیں گرفتار کیاجائے گا اس سے جہاں ان کی سماجی زندگی پر برا اثر پڑے گا وہیں ان کی زندگی خوف و ہراس میں گزرے گی۔ یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ جب اصل قصور وار گرفت میں نہیں آئیں گے اور بے قصور زد میں آئیں گے تو پھر ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کیسے ہو گا؟ کیا اس طرح دہشت دگر مزید جارح نہیں ہو جائیں گے اور وہ سزا سے بے خوف ہو کر بڑے پیمانے پر دہشت گردی نہیں پھیلائیں گے ؟ چنانچہ ملک میں یکے بعد دیگرے دہشت گردانہ واقعات پیش آنے اور اس سلسلہ کے نہ تھمنے کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اصل مجرمین پولیس، خفیہ ایجنسوں اور حکومت کی نگا ہوں سے ہنوز اوجھل ہوں اور ان کے خلاف سخت کار روائی عمل میں نہیں لائی گئی ہو، ورنہ گذشتہ برسوں میں جس بڑے پیمانے پر دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے کوششیں کی گئیں ٹاڈا اور پوٹا جیسے قانون بنائے گئے اور جس بڑے پیمانہ پر گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں ان کے بعد دہشت گردی کا ملک سے پورے طورپر خاتمہ ہو جانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ دہشت گردانہ واقعات کا سلسلہ کل بھی جاری تھا اور آج بھی جاری ہے ۔ اس کا اندازہ اس تفصیل سے لگایا جاسکتا ہے کہ 13!دسمبر 2001ء کو دہلی میں پارلیمنت پر دہشت گردانہ حملہ ہوا۔ یکم اکتوبر 2001ء میں جموں و کشمیر کی اسمبلی کے نزدیک دھماکہ ہوا، جس میں 38لوگ مارے گئے ، 24ستمبر 2002 میں اکشرا دھام مندر پر دہشت گردانہ حملہ ہوا، جس میں 29افراد کی موت ہو گئی اور 74 زخمی ہو گئے ۔ 25!اگست 2003ء میں ممبئی میں سلسلہ وار دھماکے ہوئے جن میں 60افراد کی جانیں گئیں ۔ اگست 2004ء میں آسام میں بم دھماکے ہوئے جن میں 16لوگ مارے گئے ، مارے جانے والے زیادہ تر بچے تھے ۔ 29!جولائی 2005ء میں جون پور ٹرین میں دھماکہ ہوا جس میں 10لوگوں کی جانیں گئیں اور 50 کے قریب زخمی ہو گئے ۔ 28!اکتوبر 2005ء میں بنگلور کے ایک سائنس کے ادارے پر حملہ ہوا۔ 29!اکتوبر 2005ء کو دہلی میں دیوالی کے موقع پر بم دھماکے ہوئے ، جن میں 65لوگ جاں بحق ہوئے اور 210 سے زیادہ زخمی ہوئے ۔ 7مارچ 2006ء میں وارانسی میں دھماکے ہوئے جن میں 23لوگ مارے گئے اور 68 زخمی ہو گئے ۔ 11جولائی 2006ء کو ممبئی میں سلسلہ وار دھماکے ہوئے جن میں 135افراد کی ہلاکت کی بات سامنے آئی۔ 14!اپریل 2006 کو دہلی کی جامع مسجد کے صحن میں جمعہ کے دن اس وقت دو دھماکے ہوئے جب مسجد میں ہزاروں نمازی موجود تھے ۔ مئی 2007ء میں جمعہ کی نماز کے وقت مکہ مسجد میں کئی زور دار دھماکے ہوئے جن میں آنافاناً 9نمازیوں کی موت ہو گئی اور 50 سے زیادہ زخمی ہو گئے ۔ اسی طرح 8ستمبر 2006ء کو مالیگاؤں میں شب برات کے موقع پر جمعہ کی نماز کے بعد سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے جن میں 37افراد جاں بحق اور 135شدید طور سے زخمی ہو گئے ۔ دو بم سائیکل پر رکھے گئے تھے اور پولیس نے ان دھماکوں کے پیچھے سیمی کا ہاتھ بتایا تھا۔ فروری 2007 میں پاکستان جانے والی سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکے ہوئے جن میں 66افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی۔ اکتوبر 2007ء میں اجمیر درگاہ میں بم دھماکہ ہوا جس میں کئی افراد مارے گئے اور قریب 20لوگ زخمی ہوئے ۔ اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً ملک میں دہشت گردانہ واقعات سامنے آتے رہے جن میں 26/11 کے واقعہ کو سرفہرست رکھا جاسکتا ہے ۔ بم دھماکوں کے واقعات کی مذکورہ تفصیل سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی کی جڑیں کتنی گہری ہیں اور ہوتی جا رہی ہیں ۔ مسلسل دہشت گردی کے دائرہ کے وسیع ہونے کے پیچھے سب سے بڑی ایک وجہہ یہ نظر آتی ہے کہ دہشت گردی کے سدباب کیلئے اس کی کوششیں نہیں کی گئیں جس طرح کی جانی چاہئے تھیں ۔ یہی وجہہ ہے کہ زیادہ تر دہشت گردانہ واقعات کے بارے میں آج تک مضبوط دلائل کی روشنی میں مصدقہ طورپر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان واقعات کے پیچھے کون سے عناصر پوشیدہ ہیں ؟ ہاں پولیس اور خفیہ ایجنسوں نے ہر دھماکے کے بعد اس بات میں تو پوری چستی دکھائی کہ دہشت گردانہ واقعات کا تعلق سرعت کے ساتھ مسلمانوں سے جوڑدیا۔ عام دھماکوں میں ہی نہیں بلکہ ان دھماکوں میں بھی پولیس نے مسلمانوں پر ہی شک کیاجن میں 100فیصد مسلمان مارے گئے تھے ۔ مالیگاؤں اور مکہ مسجد کے دھماکوں سے متعلق پولیس کے بیانات اور ان کی تفتیش اس بات کی گواہ ہے ۔ حیدرآباد کے تازہ واقعہ کے بعد پولیس اور تفتیشی ایجنسیاں ترجیحی طورپر مسلم نوجوانوں ہی کے ناموں کو تلاش کر رہی ہیں اور پولیس کا ذہن اس طرف نہیں جا رہا ہے کہ ان دھماکوں کے پیچھے ان جماعتوں اور عناصر کا بھی ہاتھ ہو سکتا ہے جو ہمیشہ ملک میں بدامنی کا ماحول پھیلانے میں سرگرم رہتے ہیں اور فرقہ پرستی کا زہر اگلتے ہیں ۔ گذشتہ کئی دہشت گردانہ واقعات میں کرنل پروہت جیسے خونخوار دہشت گردوں کے ذمہ دار ہونے کے ثبوت مل چکے ہیں ۔ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کی دہشت گردانہ و فرقہ پرستانہ حرکتیں بھی اظہر من الشمس ہیں لیکن اس کے باوجود پولیس اور تفتیش کار یجنسیاں انہیں تفتیش کے دائرے میں نہیں لاتیں ۔ پروین توگڑیا اور راج ٹھا کرے جیسے تنگ نظر و فرقہ پرست لوگ علی الاعلان فرقہ پرستی کا زہر اگلتے ہیں ، تشدد و بربریت کی بات کرتے ہیں مگر پولیس ان کے اوپر شکنجہ نہیں کستی جب کہ مسلمانوں کی تقریروں اور بیانوں کو توڑمروڑکر پیش کر کے انہیں ملک مخالف ٹھہرانے کی کوشش کر کے پولیس انہیں حراست میں لینے کی کوشش کرتی ہے ۔ ایسا پولیس عام مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں کرتی بلکہ اہم عہدوں پر مامور مسلمانوں کو بھی نہیں بخشتی۔ ملک کی ترقی کیلئے انصاف کا پیمانہ یکساں ہونا ضروری ہے ۔

اسرار الحق قاسمی

Necessary to investigate terrorist attacks in the right direction - Article : Asrar ul Haq Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں