اگلی قسط »
بیسویں صدی کے وسط و اواخر سالوں میں مقبول عام اردو اشاعتی ادارہ "شمع (نئی دہلی)" کی جانب سے خواتین کا ایک ماہنامہ "بانو" شایع ہوا کرتا تھا جس کی اپنی ایک یادگار تاریخ ہے۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اس رسالے نے نامور ادیب سلامت علی مہدی (مرحوم) کی طویل پراسرار کہانیاں شایع کی تھیں جنہوں نے رسالے کے قارئین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا تھا۔ ان میں سے چند سلسلہ وار کہانیوں کے عنوان یہ ہیں : ایک بت ، ایک کھوپڑی ، ایک بلی ، ایک روح۔
سلامت علی مہدی کی سلسلہ وار پراسرار کہانی "ایک بت" ماہنامہ "بانو" کے شمارہ نومبر 1968 سے نومبر 1969 تک شایع ہوئی تھی۔
تعمیر نیوز بیورو (ٹی۔این۔بی) کی جانب سے پہلی بار انٹرنیٹ پر یہ کہانی قسط وار شکل میں پیش کی جا رہی ہے۔
اگات پور سے ونود کا خط آیا تھا۔ ایک ایسا خط جس نے مجھے پریشان کر دیا تھا۔
ونود نے لکھا تھا "جگل تم فوراً اگات پورچلے آؤ۔ میں بہت پریشان ہوں ۔ ایک بت نے میری راتوں کی نیند چھین لی ہے ۔ تم شاید میری بات کی ہنسی اڑاؤگے لیکن میں سچ لکھتا ہوں ۔ یہ بت روزانہ 12بجے زندہ ہو جاتا ہے اور پھر ٹھیک 12:35 بجے پر دوبارہ بت میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ اس لئے تم فوراً یہاں آ جاؤ تاکہ ہم دونوں بت کے بارے میں کوئی فیصلہ کر سکیں ورنہ میں تم کو سچ لکھتا ہوں کہ یہ بت مجھے اور شانتا دونوں کو پاگل بنادے گا۔
ونود میرے بچپن کا دوست تھا۔ ہم دونوں نے ساتھ ہی تعلیم پائی تھی۔ لیکن میں نے ڈاکٹرِی کی سند لینے کے بعد ڈاکٹری کا پیشہ اپنایا تھا اور ونود نے ڈگری لینے کے بعد کاشت کار بننا پسند کیا تھا۔
آج کل ونود اگات پور میں رہ رہا تھا اور وہاں اس نے ایک بڑا فارم قائم کر لیا تھا۔ وہ مجھے پابندی سے خط لکھتا تھا اور اکثر مجھے گاؤں آنے کی دعوت دیتا تھا۔ میں اپنے پیشہ کی مصروفیت کی وجہہ سے ہمیشہ اس کی دعوت ٹال جاتا تھا لیکن جب اس نے مجھے مصبیت میں پکارا تو میں کوئی بہانہ نہ کر سکا میں اسی دن شام کی گاڑی سے اگات پور روانہ ہو گیا۔
دوسرے دن صبح 7بجے اگات پور پہنچ گیا اور ایک گھنٹے کے اندر میں ونود کی حویلی کے سامنے کھڑا تھا۔
میں نے اسٹیشن سے حویلی تک پہنچنے کیلئے ایک یکہ کرائے پر لے لیا تھا۔ یکہ والے نے جب یہ سنا کہ میں زمیندار کی حویلی جا رہا ہوں تو اس نے بڑے غور سے مجھے دیکھا اور پھر کہا "میرا خیال ہے کہ آپ ٹھا کر ونود کمار سے ملنے آئے ہیں "۔
"ہاں" میں نے جواب دیا۔ وہ میرے دوست ہیں ۔
"لیکن سرکار۔۔۔" بوڑھے یکہ بان نے کہا۔
"ٹھا کر صاحب نے یہ حویلی خرید کر بڑی غلطی کی ہے اس حویلی میں تو ہمارے پرانے زمیندار نے بھی رہنا چھوڑدیا تھا۔
لیکن کیوں؟ میں مسکرا کر پوچھا۔
اس لئے کہ حویلی کے باغ میں اکثر رات کو کوئی چلتا نظر آتا تھا۔ اور کبھی کبھی چیخیں بلند ہوتی تھیں ۔ بوڑھے نے بڑے ڈرامائی انداز میں جواب دیا۔
یعنی تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ وہاں کوئی بھوت رہتا ہے ۔
"ہاں سرکار"۔
میں نے یکہ والے سے اور کوئی بات نہیں کی لیکن تمام راستے میں یہی سوچتا رہا کہ واقعی دنیا میں بھوتوں کا کوئی وجود ہے ؟ کیا واقعی انسان مرنے کے بعد بھوت بن جاتا ہے ؟ بھوت کے بارے میں میرا ذہن مختلف سوالوں کی آماجگاہ بن چکا تھا۔ میں نے جیب سے ونودکا خط دوبارہ نکال کر پڑھا اور پھر سوچنے لگا کہ بت کیسے زندہ ہو سکتا ہے ؟ یقینا ونود کسی سخت قسم کے وہم میں مبتلا ہو گیا ہے ۔ یہ بالکل ناممکن ہے کہ مٹی، پتھر یا لوہے کا بنا ہوا کوئی بت کسی مقررہ وقت پر زندہ ہو جائے اور پھر مقررہ وقت پر دوبارہ بت میں تبدیل ہو جائے ۔
میں انہی سب خیالوں میں غرق تھا کہ حویلی آ گئی۔
اس وقت حویلی بالکل سنسان پڑی تھی صرف کالکا برآمدے میں بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ یکہ کی آوازسن کر وہ چونک کر کھڑا ہو گیا اور جب اس نے مجھے دیکھا تو دوڑکر میرے پاس آ گیا۔ اس نے میرا سامان اتارنے کے فوراً بعد کہا اچھا ہوا آپ آ گئے چھوٹے بابو آپ کا انتظار ہی کر رہے تھے ۔ میں نے محسوس کیا کہ کالکا صرف پریشان ہی نہیں خوف زدہ بھی ہے ۔
مجھے برآمدے میں بٹھا کر کالکا حویلی کے اندر چلا گیا تاکہ ونود کو میری آمد کی اطلاع دیدے ۔ اور میں حیران حیران نظروں سے حویلی کے ویران باغ کو دیکھنے لگا۔ میں سوچتا رہا کہ ونود نے اس باغ کو درست کیوں نہیں کروایا اور پھر بالکل اچانک میری نگاہ حویلی کے سامنے فوراے کے حوض کے درمیان میں نصب شدہ ایک بت پر پڑگئی۔
یہ بت ایک عورت کا تھا۔
بت پر نگاہ پڑتے ہی میری رگوں میں خوف کی ایک لہر سی دوڑگئی۔ میرے ذہن میں فوراً یہ خیال پیدا ہوا کہ کہیں یہی وہ بت تو نہیں ہے جس نے ونود کی راتوں کی نیند حرام کر رکھی ہے ۔
بت کا رخ حویلی کی جانب تھا۔ اور اپنی کھلی آنکھوں سے مسلسل حویلی کی جانب دیکھے جا رہا تھا۔ دوسرے ہی لمحہ میں نے اپنے اعصابی خوف پر قابو پالیا اور میں اٹھ کر فوارے کے حوض کے قریب پہنچ گیا۔
ٹھوس پتھر کا یہ بت کسی خوب صورت عورت کا تھا۔ اور بت تراش نے اس کی تخلیق میں اپنے فن کا سارا نکھار صرف کر دیا تھا۔ میں چند لمحات کیلئے بت کے حسن میں کھوکر رہ گیا۔ اور اُسی وقت چونکا جب ونود میرے قریب آ کر مجھ سے لپٹ گیا۔
"میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا" ۔ ونود نے کہا
" مجھے پوری امید تھی کہ میرا خط ملتے ہی تم اگات پور کیلئے روانہ ہو جاؤ گے "۔
لیکن میں ونود کی بات کا کوئی جواب نہ دے پایا پہلے میں مہبوت ہو کر بت کی طرف دیکھ رہا تھا اور اب میں انتہائی غم و افسوس کے عالم میں اپنے دوست ونود کی طرف دیکھ رہا تھا کیونکہ ونود برسوں کا بیمار معلوم ہورہا تھا۔ اس کے چہرے پر وحشت سی برس رہی تھی۔ رنگ ہلدی کی طرح پیلا ہو چکا تھا۔ اور آنکھیں بجھی بجھی سی نظر آ رہی تھی۔
میں نے اس سے کہا "یہ تمہاری کیا حالت ہو گئی ہے ونود؟"
"اندر چلو" ونود نے جواب دیا "میں تمہیں ساری داستان سنادوں گا۔
"شانتا بھابھی کہاں ہیں ؟" میں نے دوسرا سوال کیا۔ اس کی حالت مجھ سے بھی زیادہ خراب ہے اُس نے تو اپنے کمرے سے باہر نکلنا ہی چھوڑدیا ہے ۔ ونود نے بڑے اُداس لہجے میں جواب دیا۔
"یعنی کسی بت نے تم دونوں کے چہروں سے زندگی چھین لی ہے" ۔
ہاں ۔ ونود نے حلق سے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
اب ہم دونوں حویلی کے برآمدے میں داخل ہو چکے تھے میں نے پلٹ کر دوبارہ باغ کے بت کی طرف دیکھا وہ اُسی طرح ساکت و جامد کھڑا تھا۔ لیکن پتہ نہیں کیوں ؟ بت پر نظر پڑتے ہی ایک مرتبہ پھر میرے جسم میں خوف کی ایک لہر سی دوڑگئی۔
شانتا کی حالت واقعی ونود سے زیادہ ابتر تھی ۔ وہ پلنگ پر ٹی بی کی مریضہ کی طرح پڑی تھی۔ مجھے دیکھ کر ایک پھیکی مسکراہٹ اس کے لبوں تک پھیلی اور اس کے بعد اُس کا چہرہ دوبارہ ساکت ہو گیا۔
اب ونود نے اپنی کہانی شروع کی اور مسلسل دو گھنٹے تک وہ اپنی ناقابل یقین کہانی سناتا رہا۔ یہ کہانی ونود کے بجائے اگر کوئی اور سناتا تو میں کسی قیمت پر اس کو سچ نہیں سمجھتا۔
تعلیم کے دوران ہی ونود کھیتی باڑی کے پیشے کو اپنانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی تعلیم ختم کرنے کے بعد شہر میں نہ کوئی کاروبار شروع کیا اور نہ ملازمت تلاش کی۔ اس نے اپنے باپ کے سامنے اپنے مستقبل کا منصوبہ رکھا اور پھر اگات پور میں دریا کے کنارے زمین خریدلی تاکہ وہاں جدید طریقوں پر کاشت کرے ۔
وہ چونکہ دیہات میں ہی رہنے کا فیصلہ کر چکا تھا اس لئے اس نے اگات پور کے زمین دار کی حویلی بھی خریدلی۔ زمیندار صاحب خاتمہ زمین داری کے بعد شہر آ کر رہنے لگے تھے اور ان کی یہ حویلی تقریباً دس سال سے ویران اور خالی پڑی تھی۔ ونود کو یہ حویلی بہت پسند آئی تھی کیونکہ اس کے چاروں طرف ایک باغ بھی تھا۔
حویلی کی ضروری صفائی اور مرمت کے بعد وہ اپنی بیوی شانتا اور اپنے ملازم کالکا کو لے کر مستقل رہائش کے ارادے سے اگات پور پہنچ گیا۔ چند ہی دنوں میں اس کے ٹریکٹر اور دوسرے ملازم بھی اگات پور پہنچ گئے اور ونود اپنے فارم پر مصروف رہنے لگا۔ حویلی میں شانتا تنہا رہ گئی۔
شانتا کو تمام دن یہ تنہائی چوں کہ بار سی معلوم ہوتی تھی اس لئے اُس نے ایک دن ونود سے کہا "میں چاہتی ہوں کہ حویلی کے باغ کو نئے سرے سے لگاؤں ، اس طرح میرا وقت بھی کٹ جائے گا"۔
" ضرور لگاؤ"۔ ونود نے مسکرا کر کہا۔ میں خود چاہتا ہوں کہ جس طرح اس حویلی کونئی زندگی ملی ہے اسی طرح اس کے باغ میں بھی نئے پھول کھلیں ۔ میں کل ہی تمہارے لئے دومالیوں کا بندوبست کر دوں گا"۔
"لیکن مالیوں سے پہلے میں باغ کے پرانے کنوئیں کی صفائی کروانا چاہتی ہوں یہ کنواں باغ کی سینچائی کیلئے ہی پرانے زمیندار نے بنوایا ہو گا۔ شانتا نے سوچ کر کہا۔
"ہاں تم ٹھیک کہتی ہوں "۔ ونود نے جواب دیا۔ "ہمیں پہلے یہ کنواں ہی صاف کرانا چاہئے ۔ تاکہ باغ کے پودوں اور درختوں کو پانی کی محتاجی نہ رہے ۔ میں کل ہی گاؤں سے کچھ مزدور بلوالوں گا اور یہ مزدور اس کنوئیں کی صفائی کر دیں گے "۔
دوسرے ہی دن ونود نے حویلی کے اس قدیم کنوئیں کا معائنہ کیا۔ کنواں نیچے سے اوپر تک پختہ تھا اور کافی بڑا تھا۔ اس نے معائنہ کے بعد کالکا سے کہہ دیا کہ وہ گاؤں سے کنواں صاف کرنے والے پیشہ ور مزدوروں کو بلالائے اور آج ہی سے کنوئیں کی صفائی شروع کرادے ۔
دن کے گیارہ مزدور آ گئے اور انہوں نے کنوئیں کی صفائی شروع کر دی۔ سب سے پہلے انہوں نے کنوئیں کا پانی نکالنا شروع کیا تین دن تک وہ بڑے بڑے ڈولوں کی مدد سے کنوئیں کا پانی باہر نکالتے رہے اور ہزاروں ڈول پانی باہر نکل گیا چوتھے دن پانی کم ہو گیا تو مزدور کنوئیں کے اندر اترنے کے قابل ہو گئے ۔ اب انہیں کنوئیں کی تہہ سے پرانا ٹوٹا پھوٹا سامان نکلنا شروع ہو چکا تھا۔ اس میں برتن بھی نکلے اور پرانی تلواریں بھی کچھ سکے بھی نکلے اور لوہے کے کچھ اوزار بھی۔ لیکن سب سے زیادہ حیرت ناک چیزجو اس کنوئیں سے نکلی وہ پتھر کا ایک بت تھا۔
بت اتنا خوبصورت تھا کہ ونود اس کو دیکھ کر خوشی سے پھولا نہیں سمایا۔ اس بت کو یقیناً کنوئیں میں پھینکا گیا ہو گا لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ کسی جگہ سے نہیں ٹوٹا تھا اور پانی میں پڑے رہنے کے باوجود اس کی ساری چمک باقی تھی۔
مزدوروں کی وجہہ سے کنوئیں سے اس بت کے نکلنے کی خبر پورے گاؤں میں پھیل گئی۔ بے شمار یہ بت دیکھنے آئے کسی نے کہاکہ یہ کسی دیوی کا بت ہے اور کسی نے کہا کہ پرانے زمانے کی ایک رانی کا بت ہے ۔ لیکن گاؤں کے بڑے بوڑھے تک یہ نہ بتا پائے کہ یہ بت کس کا ہے ۔
ونود جاننا چاہتا تھا کہ یہ بت کنوئیں میں کیسے پہنچا۔ اس لئے وہ ایک دن شہر گیا۔ اس نے حویلی کے پرانے مالک سے جو گاؤں کا سابق زمیندار بھی تھا ملاقات کی اس کنوئیں سے عورت کا بت نکلنے کی بات بتائی اورپھر اس سے پوچھا "میں نے سنا ہے کہ آپ کے پردادا نے یہ حویلی بنوائی تھی کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ یہ بت اس کنوئیں میں کیسے پہنچا"۔
جواب میں زمیندار نے کہا "میں آپ سے سچ کہتا ہوں میں اس حویلی میں 38 سال تک رہا ہوں مجھے کنوئیں میں بہت کی موجودگی کا کوئی علم نہیں" ۔
"کیا آپ باغ کی سینچائی کیلئے یہ کنواں استعمال کرتے تھے "۔
ونود نے دوسرا سوال کیا۔
"جی نہیں "۔ زمیندار نے جواب دیا۔ "میرے پتاجی نے اس کنوئیں کو بند کرادیا تھا اور مجھے چوں کہ باغبانی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لئے میں نے کبھی کنوئیں کو بند رکھا اور گھریلو استعمال کیلئے اس کنوئیں کا پانی استعمال کرتا رہا جو حویلی کی پشت پر تھا"۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ یہ بھی نہیں بتاسکتے کہ یہ بت کس کا ہو سکتا ہے ۔ نود نے مزید پوچھا۔
جی نہیں ۔ زمین دار نے جواب دیا۔ لیکن آپ خود سوچئے کہ بت دیکھے بغیر میں اس کی شناخت کیسے کر سکتا ہوں ۔
کیا آپ کے پاس آپ کے آباء و اجداد کی تصویروں کا کوئی البم ہے ۔ ونود نے پوچھا۔
جی ہاں ۔ زمیندار نے کہا۔ آپ چاہیں تو اسے دیکھ سکتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ میرے اس البم میں کسی عورت کی تصویر نہیں ہے ۔ اس لئے بت کی شناخت کا مسئلہ پھر بھی باقی رہ جائے گا۔
"کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ آپ کے آباء و اجداد میں کسی کو بت سازی کا شوق تھا؟" ونود نے تھک کر پوچھا۔
جی نہیں ۔ زمیندار نے مسکرا کر کہا۔
"بت سازی تو الگ رہی ، میری حویلی میں بھگوان کی مورتی کے علاوہ کبھی کوئی بت نہیں رکھا گیا۔ میں خود حیران ہوں کہ کنویں سے عورت کا بت کیسے نکلا؟"
ایک منٹ خاموش رہنے کے بعد بوڑھے زمیندار نے مزید کہا ۔۔۔۔۔
Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:1
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں