والدین کے ساتھ اولاد کا نامناسب سلوک - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-19

والدین کے ساتھ اولاد کا نامناسب سلوک

دور حاضر میں ایک نازک مسئلہ کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ آئے دن اس طرح کی خبریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں کہ اولاد نے والدین کے ساتھ بدسلوکی کی، انہیں ڈانٹا پیٹا، حتی کہ بعض اوقات اولاد کے ذریعہ والدین کے قتل کی وارداتیں بھی سامنے آتی ہیں ۔ اس طرح کے واقعات مغربی معاشروں میں تو عام ہیں ہی لیکن چونکہ فی زمانہ ہمارے معاشرے پر بھی مغرب کے اثرات بڑھ رہے ہیں اس لئے والدین کی خدمت کا رجحان ہمارے معاشرے میں بھی کم ہوتا جارہ ہے ۔ ہمارے معاشرے میں بھی اس طرح کے واقعات سامنے آ رہے ہیں کہ وقت کے ساتھ اولاد اور والدین کے درمیان دوریا پیدا ہوتی جا رہی ہیں ۔ بہت سے لوگ سیدھے منہ اپنے والدین سے بات نہیں کرتے ۔ بعض جدیدیت سے مرعوب ہو کر والدین کو مسلسل نظر اندازکرتے رہتے ہیں اور ان کی باتوں کو نہ صرف فرسودہ خیال کرتے ہیں بلکہ ان کی باتوں کو پرانے زمانہ کی باتیں کہہ کر غیر اہم قراردیتے ہیں ۔ یہ طرز تکلم یقیناً والدین کیلئے باعث تکلیف ہوتا ہے ۔ جبکہ والدین تجربہ کار ہوتے ہیں اور انہیں دنیا کے بارے میں خاصی معلومات ہوتی ہیں ۔ جس بڑے پیمانے پر والدین اولاد کیلئے قربانیاں دیتے ہیں ان کا تقاضہ ہے کہ بچے بھی بڑے ہو کر اپنے والدین کا بھرپور خیال رکھیں اور ان کے تمام حقوق کی رعایت کریں ۔ اسلام نے والدین کا بڑا رتبہ بیان کیا ہے اور اس بات کی تاکید کی ہے کہ اولاد اپنے والدین کا خیال رکھے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ مفہوم:"اور ہم نے انسان کو یہ تاکدے کی ہے کہ وہ اپنے والدین کا حق پہنچانے ۔ (لقمان۔ ۱۴) والدین کے اولاد پر کیا حقوق ہیں ؟ اسلام نے ان کی بھی وضاحت کی ہے تاکہ اولاد والدین کے تمام حقوق کی تکمیل کرے ۔ ارشاد باری ہے۔ مفہوم: "اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو"(بنی اسرائیل۲۳) بھلائی میں خیر خواہی اور نیک سلوک شامل ہے ۔ یعنی ہر حال میں اولاد پر اپنے والدین کے ساتھ اچھے انداز سے پیش آنا اور عمدہ سلوک کرنا ضروری ہے ۔ حسن سلوک میں ماں کی زیادہ رعایت کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ اس سلسلہ میں ایک تفصیلی حدیث موجود ہے کہ ایک صحابی نے رسول ﷺ سے معلوم کیا کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :"امک(تیری ماں ) اس جواب کو سن کر سائل نے پھر پوچھا : "ثم من"(پھر کون؟) حضور ﷺ نے فرمایا: ثم امک(پھر تیری ماں )۔ اس کے بعد پھر سائل نے تیسری بار وہی سوال دوہرایا: "ثم من"(یعنی پھر کون؟) آپ ﷺ نے تیسری بار بھی وہی فرمایا: "ثم امک"(پھر تمہاری ماں )۔ سائل نے چوتھی بار آپﷺ سے وہی معلوم کیا: "ثم من"(پھر کون؟) تو آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تمہارے والد، پھر تمہارے رشتہ دار"۔ والدین کے ساتھ سختی کے ساتھ بات نہیں کرنی چاہئے ، بلکہ ادب و احترام کے ساتھ بات کرنی چاہئے ۔ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: مفہوم"اور ان سے ادب و احترام کی بات کہو"۔ (بنی اسرائیل۲۳) یعنی گفتگو کے دوران اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ والدین کے ساتھ ہمیشہ ادب و احترام پر مبنی بات کہی جائے ۔ ہرگز ہرگز ایسی بات نہ کی جائے جس سے ادب و احترام پر ضرب لگتی ہو۔ کیونکہ ذرا سی بھی اونچی آواز میں بات چیت یا بے ادب گفتگو والدین کی تکلیف کا باعث بن سکتی ہے ۔ حضرت ابوہریرہؓ نے ایک بار لوگوں کو دیکھا۔ ان میں سے ایک سے معلوم کیا کہ یہ دوسرے تمہارے کون ہیں ؟ اس نے کہا یہ میرے والد ہیں ۔ آپ نے فرمایا: دیکھو، نہ ان کا نام لینا، نہ کبھی ان سے آگے آگے چلنا اور نہ کبھی ان سے پہلے بیٹھنا۔ ماں باپ پر خرچ کرنا بھی ماں باپ کا بنیادی حق ہے ۔ یعنی ان کے کھانے ، پینے ، پہننے اوڑھنے ان کے علاج کرانے اور ان کی دیگر ضروریات کو پورا کرنے سے متعلق جو اخراجات ہو سکتے ہیں ان کی تکمیل بھی ضروری ہے ۔ یہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں کہ اولاد کمانے کے لائق ہو جائے اور والدین بوڑھے ہو جائیں کہ کچھ کمانہ سکیں تو اس حال میں اولاد ان کے اوپر خرچ نہ کرے ۔ بلکہ ایسے وقت تو خاص طور سے والدین کے اخراجات کا دھیان رکھنا ضروری ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ مفہوم: "لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں ؟ ان سے کہہ دیجئے کہ جو مال بھی خرچ کرو پس اس کے پہلے مسحق والدین ہیں "۔ (البقرہ۲۱۵) دعا کرنا بھی والدین کا حق ہے ۔ یعنی اولاد پر لازم ہے کہ وہ اپنے والدین کیلئے دعا کرے کہ اﷲ تعالیٰ ان پر رحم و کرم فرمائے ۔ ان کو شفا دے اور ان کو سلامتی عطا فرمائے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مفہوم: "اور دعا کرو کہ پروردگار ان دونوں کے حال پر رحم فرما، جس طرح انہوں نے بچپن میں میری پرورش فرمائی تھی"۔ (بنی اسرائیل ۲۴) والدین کے حقوق کو پورا کرنے کے دو اہم اسباب ہیں ۔ ایک تو یہ کہ والدین نے اپنی اولاد کے ساتھ انتہائی مشفقانہ معاملہ کیا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے اسی طرح ان کی پروشی میں بھی بے انتہا تکالیف کا سامنا کیا ہے جس کا تقاضہ ہے کہ اولادبڑی ہو کر اپنے والدین کے ساتھ اسی طرح کا معاملہ کرے ۔ کیونکہ والدین جس بڑے پیمانے پر اپنی اولاد کیلئے قربانیاں دی ہیں ان کا عشر عشیر بھی اولاد چاہنے و کوشش کرنے کے باوجود بھی نہیں کر سکتیں ۔ مگر پھر بھی جہاں تک ممکن ہو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا لازمی ہے ۔ جب اولاد بڑی ہو جائے تو اپنے والدین کا احترام کرے ، ان کی فرمانبرداری کرے ،ان کی بوقت ضرورت مدد کرے ، جب تک وہ زندہ رہیں اس وقت تک ان کی ہر طرح کی خبر گیری کرے اور ان کو اپنی حیثیت کے مطابق تکلیف نہ ہونے دے اور جب والدین انتقال کرجائیں تو ان کیلئے دعائے مغفرت کرے اور ایصال ثواب کرے ۔ والدین کے حقوق کی تکمیل کا دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ جب اولاد اپنے والدین کی اطاعت و شکر گزار میں کوئی وقیقہ فرو گذاشت نہ کرے گی اور یہ احساس کرے گی کہ والدین نے ان پر بڑے احسانات کئے ہیں اس لئے جتنی بھی ان کی فرمانبرداری کی جائے کم ہے تو اسے اس بات کا احساس بھی دامن گیر ہو گا کہ وہ ذات جس نے ان کو جان بخشی، عدم سے وجود دیا، ان کے اعضاء بنائے اور ہر عضوکو انتہائی مکمل بنایا کہ آنکھوں سے وہ دیکھ سکتا ہے ، کانوں سے وہ سن سکتا ہے ، ناک سے سونگھ سکتا ہے ، پیروں سے چل سکتا ہے ، ہاتھوں سے کام کر سکتا ہے گویا ہر عضو انتہائی قیمتی اور بے بدل ہے یہی نہیں ، بلکہ اس کے کھانے پینے کا معقول انتظام کیا، طرح طرح کی سبزیاں اگائیں ، میوے اور پھل پیدا کئے اور پینے کیلئے صاف و شفاف پانی کے چشمے ابالے ۔ انسان کو اتنی عظیم نعمتوں سے نوازا تو وہ کس قدر شکر گذار اور اطاعت کے حامل ہوں گے اس لئے جو شخص اپنے والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کی اہمیت کو سمجھے گا وہ یقینا منعم حقیقی یعنی اﷲ تعالیٰ کی اطاعت و شکر گذاری کو بجالانے میں کسی طرح کی کوتاہی سے کام نہ لے گا۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ اسلام نے والدین کے اولاد پر جو حقوق متعین کئے ہیں کیا موجودہ انسانی معاشرہ میں ان کو پورا کیا جا رہا ہے ؟ اس سے انکار نہیں کہ روئے زمین پر کتنے ہی اﷲ کے نیک بندے ہیں جو اپنے والدین کی خدمت میں لگے رہتے ہیں اور ان کے حقوق کی رعایت کرتے ہیں لیکن اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا میں بڑے پیمانے پر والدین کی ناقدری کی جا رہی ہے ۔ بہت سے لوگ مال و دولت کے حصول میں اس قدر محو ہیں کہ ان کے پاس اپنے والدین سے ملنے ، ان کے احوال معلوم کرنے اور ان کی خدمت کرنے کا بھی وقت نہیں ۔ کتنے ہی لوگ اپنے والدین سے اس قدر بیزار نظر آتے ہیں کہ ان کے رہنے سہنے کا ایسی جگہوں پر انتظام کر دیتے ہیں جہاں انہیں اپنی اولاد کو دیکھنے ہوئے اور ان سے بات کئے ہوئے کئی کئی ہفتے ، بلکہ کبھی کبھی کئی ماہ اور سال گذر جاتے ہیں ۔ اولاد کو اس بات کی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بوڑھے والدین سے ملنے کیلئے چلے جائیں ۔ ذرا غور کیجئے کہ والدین کیلئے یہ وقت کتنا کرب ناک ہو گا کہ اولاد ان کو ذرا وقت نہ دے پائے ، ان سے بات نہ کرے ، یہاں تک کہ ان کو اپنا دیدارتک نہ کرائے ، جب کہ اولاد کو والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک کہا گیا ہے ۔ غور کیجئے کہ جب بچہ مادر رحم میں ہوتا ہے تو ماں کس طرح اس کو نوماہ تک اٹھائے پھرتی ہے اور جب بچہ کی ولادت کا وقت قریب ہوتا ہے تو ماں کی سخت قسم کے دردوتکلیف کو سہنا پڑتا ہے ۔ ولادت کے بعد بھی ماں باپ کی اپنے اولاد کے تئیں قربانیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ ماں دوسال تک بچہ کو دودھ پلاتی ہے ۔ پھر جب بچہ بولنے لگتا ہے تو والدین اس کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرتے ہیں ۔ بعض والدین اپنے بچوں کی تعلیم پر اپنی حیثیت کے مطابق خطیر رقم بھی خرچ کرتے ہیں ۔ بچہ کی بلوغت کے بعد والدین کو اس کے نکاح کی بھی فکرلاحق ہو جاتی ہے ۔ ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کیلئے اچھا رشتہ تلاش کریں ۔ گویا والدین کی قربانیوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کا تقاضہ ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کیاجائے اور ان کے وجود کو اپنے لئے اہم خیال کیا جائے ۔

اسرار الحق قاسمی

inappropriate behavior of children with parents, Column: Asrar-ul-Haq Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں