مسجد اکبرآبادی - چیف جسٹس نے محکمہ آثار قدیمہ کی سرزنش کی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-20

مسجد اکبرآبادی - چیف جسٹس نے محکمہ آثار قدیمہ کی سرزنش کی

آج سبھاش پارک پر برآمد باقیات پر تعمیر کی جا رہی مسجد اکبر آبادی کے معاملہ میں چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس التمش کبیر نے آثار قدیمہ کی سرزنش کی۔ عدالت نے نہ صرف محکمہ کو زبردست پھٹکار لگائی بلکہ اس کی فائل بھی اٹھا کر پھینک دی۔ شعیب اقبال کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ مسجد کی تحقیقات کا کام جے پی سی مشین سے نہیں بلکہ جی آر ایس (گراونڈ ریسرچ سروے ) کے دریعہ کیا جائے ۔ اس سروے میں عمارت کو توڑنے کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ ایکسرے کے ذریعہ پتہ لگایا جاتا ہے کہ زمین کے نیچے بنی عمارت مسجد ہے یا نہیں ۔ عدالت کی کار روائی شروع ہوتے ہی عدالت نے اس معاملہ پر غور کیا اور وکلاء سے بات چیت کی۔ سائیں بابا اوم جی کی جانب سے پیش ہوئے رام جیٹھ ملانی نے عدالت میں موقف ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ وہ کسی کی پیروی کرنے کے بجائے عدالت کی مدد کرنا بہتر سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ بعد میں انہوں نے بابا کی پیروی کرنے کی بات بھی کہی۔ سماعت کا دوسرا دور شروع ہوا تو سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔ عدالت نے تمام فریقین کو اپنا موقف رکھنے کا موقع دیا اور بیچ نیچ میں ہدایات بھی دیں ۔ لیکن جب باری آثار قدیمہ کی آئی تو محکمہ نے اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے باتیں کہیں جس سے عدالت نے زبردست ناراضگی کا اظہار کیا۔ محکمہ کے وکیل اے ڈی این رائے نے سبھاش پارک میں کھدائی کرنے کیلئے مزید وقت کامطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ ہم ابھی کسی وجہہ سے رکے ہوئے ہیں ہمیں کھدائی کر کے اس کی رپورٹ پیش کرنی ہے ۔ محکمہ کی اسی بات پر عدالت نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ نے کورٹ کا حکم نامہ نہیں پڑھا۔ اس پر بھی محکمہ اپنی بات دہراتا رہا۔ بالآخر عدالت نے محکمہ کی سرزنش کرتے ہوئے کہاکہ آپ کو اسٹے اور اسٹیٹس میں فرق نہیں معلوم، اسٹے کا مطلب ہے کہ کوئی توڑپھوڑیا تعمیر نہ ہو اور اسٹیٹس کا مطلب ہے کہ حالات جوں کے توں رہیں ۔ اگر آپ کھدائی کریں گے تو یہ عدالت کی حکم عدولی ہو گی۔ عدالت نے کہاکہ آپ ہمارے ساتھ گیم مت کھیلئے ۔ آپ وہاں کھدائی کرنے کی ضد کر رہے ہیں جبکہ وہاں حکم امتناعی نافذ ہے اور آئندہ سماعت تک مکمل طورپر حکم امتناعی نافذ رہے گا۔ شعیب اقبال کے وکیل ایم ایم کیشپ نے تاریخی حوالہ جات کا ذکر کرتے ہوئے عدائت کا بتایاکہ مسجد اکبر آبادی 1650ء میں تعمیرکی گئی تھی۔ اس کی 3میناریں اور 7محراب نما دروازے تھے ۔ اس میں ایک بڑا چبوترا بھی تھا۔ یہ مسجد فتحپوری کی طرح تھی۔ یہاں مدرسہ تھا جہاں دینی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس مسجد میں مجاہدین آزادی میٹنگ کیا کرتے تھے مگر 1857ء میں انگریزوں نے اسے شہید کر دیا تھا۔ تمام فریقین کی سننے کے بعد تین رکنی بینچ نے سماعت کیلئے آئندہ ہفتہ کی تاریخ مقرر کر دی ساتھ ہی حکم امتناعی کو بھی برقرار رکھا۔

The Akbarabadi Mosque Controversy

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں