پروفیسر منظور الامین کا جدہ میں خیر مقدم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-14

پروفیسر منظور الامین کا جدہ میں خیر مقدم

پروفیسر منظور الامین کی جدہ آمد حیدرآباد کمیونٹی نے خیرمقدم کیا
جدہ میں حیدرآبادسے تشریف لانے والے اسکالر،شاعر و ادیب دوردرشن کے سابقہ ڈائرکٹر جنرل اور میڈیا ریسرچ ایجوکیشن سنٹرکے بانی پروفیسر منظورا الامین کی آمد پر اہل جدہ نے بالخصوص حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے احباب نے ایک خیرمقدمی جلسہ اور ڈنرکا اہتمام کیا۔ جناب علیم خان فلکی کی تحریک پر جناب بدر انصاری نے اس محفل کے اہتمام وانتظام کے امور انجام دئیے۔ محفل میں ہندوستان کے قونصل جنرل برائے سعودی عرب عزت مآب فیض احمد قدوائی نے خصوصی طورپرشرکت فرمائی ۔ پروفیسرمنظورالامین کی مرحوم اہلیہ اور برّ صغیر کی معروف ناول نگار و ڈرامہ نویس ڈاکٹر رفیعہ منظورا لامین کی دیرینہ ساتھی محترمہ قدسیہ ہاشمی نے بھی بطور خاص شرکت کی ۔ جدہ کے ایک مقامی رستوران میں پر تکلف عشائیہ کے ساتھ محفل سجائی گئی جس میں جد ہ کی ادبی علمی اورسماجی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے اہم احباب نے شرکت کی ۔

جناب علیم خان فلکی نے ابتدائی کلمات کے ساتھ مہمانان خصوصی پروفیسر منظور الامین، قونصل جنرل ہندمحترم فیض احمد قدوائی اورمحترمہ قدسیہ ہاشمی کا پرتپاک خیرمقدم کیا اور پروفیسر صاحب کی ہمہ جہت شخصیت کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
مہتاب قدر (راقم الحروف) نے پروفیسر منظورالامین کی شعری تصنیف "جلیں آتشکدے " پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
"یہ بات سچ ہے کہ" جلیں آتشکدے " کا ابتدائیہ پڑھتے ہوئے کسی سائینسی کتاب کے ابواب کاگمان ہوتا ہے لیکن یہ بھی قابل توجہ بات ہے کہ اگر کوئی نصاب میں پڑھائی جانے والی سائینسی یاریاضیات کی کتاب اسی شگفتگی کے ساتھ لکھی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ طلبامیں پڑھنے لکھنے کے رجحانات کا اضافہ نہ ہو۔ پوری کتاب میں تمام شعری منہ شگافیوں کامحور ایک ہی لفظ "برف" ہونا اسے ایک غیرمعمولی تصنیف کادرجہ دلاتا ہے ۔ عموما برف کالفظ جب کانوں میں پہنچتا ہے تو سماعتوں میں یخ بستگی کا احساس جاگنے لگتا ہے اور شاعر یا ادیب لفظِ برف کو سوچے تو فکر منجمد ہونے کا گمان بھی ہو سکتا ہے ۔ اسی لئے بہت عجیب بات ہے کہ ایک متحرک فکروعمل کاحامل شخص برفیائی کیفیات کے اظہارمیں نہ صرف شاعری کرتا ہے بلکہ دنیابھر کی زبانوں مثلا روسی،فارسی،چینی انگریزی اور کشمیری میں لکھی گئی شاعری کو ڈھونڈ ڈھونڈکربرف پر لکھی گئی نظمیں نکال لاتا ہے اورپھر انکا منظوم ترجمہ اپنی زبان میں کر کے فکر کی نئی جہتوں کے دروازے کھول دیتا ہے اور خود ہی کہتا ہے کہ
سلسلہ برف کا یا ذکر ترے گیسو کا
چل نکلتا ہے تو پھر ختم کہاں ہوتا ہے "

پروفیسر صاحب نے اپنی شعری تصنیف سے کچھ منتخب اشعار پیش کئے جسے بے حد قدرومنزلت سے سنا گیا اور شرکاءِمحفل نے داد و تحسین کے کلمات سے مہمان خصوصی کی پذیرائی کی۔
(اشعار انکی کتاب سے شامل کئے جائیں جو موصوف نے محفل میں پیش کئے )
محفل میں موجود محترمہ قدسیہ ہاشمی صاحبہ نے ڈاکٹر رفیعہ منظورالامین کے ساتھ بیتے ایام کی یادیں بہت موثر انداز میں پیش کیں اور انکی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ قدسیہ صاحبہ کے پاس کہنے کو بہت کچھ تھا وہ ماضی کے ایام میں ڈوب کر کہے جا رہی تھیں مگرتنگی وقت کے تقاضوں اور مختصرمحفل کے پیش نظرانہیں اپنے سلسلہ کلام کو منقطع کرنا پڑا۔
فلکی صاحب نے پروفیسر صاحب سے اپنے سفر و حضر کے تجربات سامعین کے استفادے کیلئے پیش کرنے کی درخواست کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا کہ محفل میں شریک احباب منظورالامین صاحب سے اگر کچھ پوچھنا چاہیں تو دوران گفتگو پوچھ سکتے ہیں ، پھر توشرکاء اور پروفیسر صاحب کی گفتگو کے درمیان کئی سوال اردو اور میڈیا کے حوالے سے کئے گئے جن کا پرزور اور تشفی بخش جواب دیا گیا۔ مثلاَ پروفیسر منظورالامین صاحب نے کہا کہ" آپ اگر اردو کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں توحکومت میں اپنی نمائندگیاں پہنچائیے کبھی کسی ممبر آف پارلیمنٹ کے ذریعے ،کسی اسمبلی کے رکن کے ذریعے ،کبھی خطوط لکھ کر کبھی پرزور قراردادوں کے ذریعے حکومت کو احساس دلائیے کہ اردو کو اس کا حق ملنا چاہئے اگر ایسا نہیں کریں گے تو اردو ختم ہوتی چلی جائے گی۔ انہوں نے اپنے تجربات سے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب وہ ٹامل ناڈ ٹی وی سے منسلک تھے تو انہوں نے ایک ہندی نیوز بولیٹن شروع کرنے کا پروگرام بنا یا اور ساری تیاری بھی مکمل کر لی مگر ٹامل حضرات کی جانب سے ایسے پر زور کوشش ہوئی کے انہیں اس نیوز بلیٹن کو نشر کرنے کا ارادہ ترک کرنا پڑا۔ اسی طرح عوامی طاقت صحیح سمتوں میں اگر مساعی جاری رکھے تو یقینا زندہ رہے گی اس کیلئے متحدہ طور پر کوششیں شروع کرنی چاہئے ۔ " پروفیسر منظورالامین کی گفتگو کے بعد محفل میں شریک قونصل جنرل ہند فیض احمد قدوائی اپنے احساسات کا اظہار بہت پرخلوص اندازمیں کیا جس کے بعد میزبانوں کی جانب سے مہمانوں کو تحفہ دینے کی رسم پوری کی گئی علیم فلکی کے اعلان کے مطابق،جناب بدر انصاری نے پروفیسر منظورالامین کو سعودی عرب میں شایع شدہ کلام اللہ کا نسخہ پیش کیا اور سید وقارالدین نے ایک اور تحفہ فیض احمد قدوائی صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔ اس کے ساتھ تناول طعام کا اعلان کیا گیا اور پھر رات دیر گئے یہ محفل اختتام کوپہنچی۔

مہتاب قدر

Hyderabad Community of jeddah welcomes Prof. Manzoor ul Ameen. Report: Mahtab Qadr

2 تبصرے:

  1. شکریہ مکرم نیاز صاحب ہماری رپورٹ شائع کی آپ نے جزاک اللہ خیر

    جواب دیںحذف کریں
  2. ارے بھئی ہم نے پوری رپورٹ آپ کی بزم میں دیکھی نہیں تھی ابھی جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ جو ڈرافت ہم نے فلکی صاحب کو منظورالامین صاحب کے اشعار کے بغیر ارسال کیا تھا وہی آپ تک پہنچ گیا اور شائع ہو گیا

    جواب دیںحذف کریں