اردو ادب میں غیرمسلم ہندوستانی تخلیق کار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-04

اردو ادب میں غیرمسلم ہندوستانی تخلیق کار

ہندوستانی قوم کا تاریخی تسلسل، ہندوستانی قومیت کی تعریف میں بہت اہم رہا ہے ۔ ہندوستان میں مختلف نسلوں کے افراد ہرتے ہیں مختلف مذاہب و عقائد یہاں کی رنگا رنگ زندگی کا جز ہیں ۔ تھوڑے فاصلے سے مختلف زبانوں کی بنیاد پر لسانی خطے قائم ہیں لیکن اس کثرت کے باوجود ہندوستان میں ہمیشہ سے ایک بنیادی وحدت رہی ہے ۔ دراصل یہ باطنی احساس اور نفیساتی و جذباتی ہم آہنگی کا تصورقومیت کی تشکیل کرتا ہے اور کسی قوم کو متحدہ رکھنے میں اہم رول ادا کرتا ہے ۔
اس متحد قومیت کے تصور کو قائم رکھنے کیلئے کسی ایسی زبان کی ضرورت پیش آتی ہے کہ جسے پوری قوم سمجھ، بول اور پڑھ سکے ۔ مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں عربی فارسی زبانیں بھی آئیں اور مسلمانوں کے اقتدار کے ساتھ درباروں میں فارسی نے سنسکرت کی جگہ حاصل کر لی مگر عام ہندوستانی اور حکومت وقت کے مابین تعلق کی استواری کیلئے ایک ایسی زبان کی ضرورت کو شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا جو مشترکہ قومیت کی تشکیل میں کامیاب ثابت ہو اور اس طرح اردو جیسی خوبصورت، نرم اور شیریں زبان عالم وجود میں آئی۔ ہو سکتا ہے کہ اردو کی پیدائش کا سبب اور اس کے جنم داتا مسلمان رہے ہوں مگر اردو محض مسلمانوں کی زبان ہے یہ بہتان محض الزام ہے کیونکہ اس زبان کی ترویج و ترقی اور اشاعت میں ہمارے غیر مسلم ادباء و شعراء کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔
تقریباً دو، سوا دو صدیوں پر محیط اردو کے منظر نامے کا جائزہ لیا جائے تو روزاول سے لیر کر تادم تحریر ایسے کئی ہزار نام سامنے آئیں گے جو اردو کے جانثاروں اور خدمت گاروں کی صف اول میں شامل ہیں اور غیر مسلم ہیں ۔ اگر ایسے ناموں کی صرف فہرست ہی ترتیب دی جائے تو اس بھی اس کیلئے ایک دفتر درکار ہو گا۔ اردو شاعری ہو یا نثر، صحافت ہو یا خطابت، تنقید ہو یا تحقیق، ڈرامہ ہو یا رپورتاژ ہر محاذ پر غیر مسلم دانشوروں کی خدمات اردو زبان و ادب کو حاصل رہی ہیں ۔ حصول آزادی میں بھی اردو نے ایک اہم رول ادا کیا۔

آزادی سے قبل منشی دیا نارائین نگم، منشی نول کشور، دیاشنکر نسیم، پنڈت برج نارائن چکبست، پریم چندر، رام پرساد بسمل، مہاراجہ کشن چند، تلوک چند محروم کے ساتھ ساتھ ہزارں غیر مسلم دانشوروں نے اردو کے چمن کی آبیاری میں اپنا خون دل صرف کیا اور آزادی کے بعد بھی رگھوپتی سہائے ، فراق گورکھپوری، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، گوپی چند نارنگ، راجندر سنگھ بیدی، جو گیند پال، ہرچرن چاولہ، سریندر پرکاش، کرشن چندر، بلراج منیرا، راما نند ساگر، بلراج کومل، پنڈت برج نارائن، آنند موہن، زتشی گلزار، خار دہلوی، گوپی ناتھ امن، دیویندراسیر، امرتا پرتم، بلونت سنگھ، گیان چندر جین، کالی داس گپتا رضا، ٹھا کر پونجی، گلشن نندہ، گیان سنگھ شاطر، شرون کمار ورما، دت بھارتی، خوشتر گرامی، علامہ سحر عشق آبادی، ڈاکٹر اوم پرکاش زار علامی، بشیشور پرشاد منور، لال چندپرارتھی، بھگوان داس شعلہ، امر چند قیس جالندھری، الوالفصاحت، پنڈت لبھو رام جوش ملسیانی، پنڈت بالمکند عرش ملسیانی، رنبیر سنگھ، نوین چاولہ، فکر تونسوی، رام کرشن مضطر، کے نریندر، جگن ناتھ آزاد، ساحر ہوشیار پوری، رشی پٹیالوی، ستیہ نند شا کر، کرشنا کماری شبنم، ایس آر رتن، کاہن سنگھ جمال،سدرشن کوشل، نریش چندر ساتھی، پریم عالم اور سریش چندر شوق وغیرہ ایسے نام ہیں جو آفتاب و مہتاب بن کر اردو کے افق پر جگمگائے اور ان کی روشنی سے جہاں اردو منور اور تابناک ہوا۔ یہ تمام حضرات وہ ہیں جن کی شخصیت اور فن نہ تو کسی تعارف کا محتاج ہے اور نہ یہ غیر معروف اور گمنام ہیں ۔ ان میں سے بیشتر حضرات اردو ادب میں نہ صرف یہ کہ اہم مقام رکھتے ہیں بلکہ انہیں کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔ مختلف اوقات میں ان کے فن پرگفتگو ہوئی اور ہندوستانی قوم نے انہیں حسب مقدور خراج تحسین پیش کیا ہے ۔

لیکن غیر مسلم ادباء و شعراء کی ایک ایسی فہرست بھی ہے جن کے فن پر نا تو کبھی خاص گفتگو ہوئی اور نہ ہی انہیں ان کی حیثیت کے مطابق خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ابھی تک اردو دنیا میں انہیں کوئی اہم مقام حاصل نہیں ہوا ۔ اس مضمون کا مرکز یہی حضرات ہیں ۔

18/فروری 1914ء کو نادون ضلع ہمیر پور میں پیدا ہوئے ۔ ملازمت کے سلسلہ میں چندی گڑھ گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے ۔ ڈپٹی کمشنر چندی گڑھ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ۔ گل و شبنم کے نام سے آپ کا مجموعہ کلام شائع ہوا۔
بڑی کیف آور تھی وہ زندگی ٭ جو نذر خرابات ہوتی رہی
میں جس بات سے شاد ڈرتا رہا ٭ عموماً وہی بات ہوتی رہی

25/جولائی 1936ء کو نابھہ پنجاب میں پیدا ہوئے وہیں تعلیم حاصل کی تعلیم سے فراغب کے بعد گورنمنٹ کالج نابھہ میں صدر شعبہ انگریزی عہدے پر معمور ہوئے ۔ آزاد صاحب جدید غزل کے علمبردار ہیں ۔ آپ کی غزلیں قنوطیت کی انفعالی احساس اور جائیت کی مملو پسندی کی عین درمیان ایک ایسا لمحہ فروزاں ہیں کہ جسے شاعرنے بار بار چھونے کی کوشش کی ہے ۔
جب سوچنا تو زیر قدم ساتوں آسماں ٭ جب دیکھنا تو خود کو تہہ آب دیکھنا

کلو میں 30/جولائی 1925ء کو پیدا ہوئے ۔ تعلیم شملہ میں حاصل کی اور وہیں سکونت پذیر ہو گئے ۔ ہماچل سکریٹری کے ریٹائرڈ آفیسر ہیں ۔
زمین والوں کو کیا معلوم کیا کچھ ہونے والا
نگاہیں برق کی رہ رہ کے پڑتی ہیں گلستاں پر

29/دسمبر 1929ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے ۔ ہماچل گورنمنٹ کی سروس اختیار کی اور شملہ گورنمنٹ کالج میں بطور صدر شعبہ انگریزی کا کام کیا ابوالفصاحت ، پنڈت لبھو رام جوش ملسیانی کے شاگرد ہیں نثر لکھنے کا بھی شوق رہا ہے ۔
بھروسہ جن کو اپنے آپ پر ہو ٭ گزر جاتے ہیں وہ ہر امتحاں

25/اکتوبر 1930ء کو چندی گڑھ میں پیدا ہوئے ۔ پرشوتم لال شعلہ جو سناتن دھرم کالج لا ہور میں اردو فارسی کے پروفیسر تھے کے چھوٹے بھائی ہیں ۔ ان کے کلام میں بے ساختگی اور مانویت پائی جاتی ہے ۔
آپ کے عہدکی پہچان یہی ہے شائد ٭ کوئی پیاسا ہو مگر اس کو نہ پانی دینا

20/نومبر 1932ء کو شملہ میں پیدا ہوئے ۔ عرصے تک عروس سخن کو سجانے سنوارنے میں مصروف رہے ۔ خون جگر کے نام سے آپ کا مجموعہ کلام شائع ہوا۔
جانے ہواے ہے زمانے کو آج کیا ٭ دنیا تھی خلد زار ا بھی کل کی بات ہے

15/جولائی1927ء کو شملہ میں پیدا ہوئے وہیں تعلیم حاصل کی اور محکمہ تعلقات عامہ ہماچل پردیش میں ملازمت اختیار کی۔ ریٹائرڈ ہونے کے بعد روزنامہ "ملاپ" نئی دہلی میں بطور کالم نویس کام کیا جدید رنگ و آہنگ کے شعر کہنے والوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے ۔
بھول ہوئی جو بیٹھ گئے ہم ان کے سائے میں اک پل
پتھر کیوں برساتی ہیں یہ شیش محل کی دیواریں

27/اکتوبر 1930ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ایک عرصہ تک حکومت ہند کے ماہنامہ "آج کل" کے مدیر رہے نظم اور غزل دونوں پر قدرت حاصل ہے ۔
مجھے تلاش کریں گے نئی رتوں میں لوگ
میں گہری دھند میں لپٹا ہوا جزیرہ ہوں

پٹھان کوٹ پنجاب کے مشہور معروف وکیل پنڈت ترلوک چند کے گھر 5/نومبر1931ء کو پیدا ہوئے ۔ ایم۔ اے ، ایل ایل بی تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری ملازمت میں آ گئے ۔ آپ کی شاعری میں زور بیان، برجستگی الفاظ، سوز و گداز اور جدت ادا سبھی خوبیاں موجودہیں ۔ دو مجموعہ کلام "کلس" اور "شام ڈھل گئی" منظر عام پر آ چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ نے شعراء ہماچل پردیش کا ایک تذکرہ بھی "آغوش گل" کے نام سے مرتب کیا۔
مقید ہو نہ جانا ذات کے گنبد میں یارو
کسی روزن کسی دروازے کو وا چھوڑدینا

راجیش کمار اوج ضلع ہوشیار پورپنجاب کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ بی۔ اے کے بعد آئی۔ پی ۔ ایس کا امتحان پاس کیا۔ محکمہ پولیس کے مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائض رہے ۔ اس کے بعد شملہ میں ڈی ۔ آئی۔ جی پولیس رہے ۔ اوج صاحب نے جو کچھ لکھا بہت سوچ کر لکھا۔ سادگی پر کاری ، گہرائی و گیرائی ان کا کلام لاجواب ہے اردو ادب سے ان کی دلچسپی قابل قدر ہے ۔
رہ کے گلشن میں بھی ترسے ہیں گل تر کے لئے
یہ مقدر تھا تو کیا روئیں مقدر کے لئے

15جولائی 1935ء کو ضلع بھیوانی ہریانہ میں پیدا ہوئے ۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔ اے کرنے کے بعد گرونانک یونیورسٹی امرتسر سے پی ایچ ڈی کی۔ کلام کے دو مجموعے "لمحات کا بہتا دریا" اور "محسوس کرو مجھ کو"شائع ہوئے ۔ حضرت شمیم کرہانی کے شاگرد ہیں ۔
میں کیسے بندکرلوں منتظر آنکھوں کے دروازے
میرے دل کو خیال منتظر سونے نہیں دیتا

15/اپریل 1938ء کو شملہ ہماچل پردیش میں پیدا ہوئے ۔ ابتداء ہی سے شعر و شاعرتی سے گہرا لگاؤ رہا۔ بزم ادب شملہ کے سکریٹری رہے ۔ شوق صاحب نے کم لکھا مگر جو کچھ لکھا اس میں ادراک آگہی اور وزن ہے ۔
بند ہیں دل کے سارے دروازے ٭ کس طرح آ گئی ہوا بابا

چندی گڑھ میں 18/جولائی 1937ء کو پیدا ہوئے ۔ اردو میں غزلیں اور انگریزی میں کہانیاں خوب لکھیں ۔ اپنے ارد گرد کے حالات اور واقعات کو شعر کے پیکر میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ ہمیشہ تحف اللفظ میں پڑھا مگر اندازایسا رہا کہ جس نے ہر بار سامعین کو محظوظ کیا۔
سلاخیں گرم کرو جسم داغ کر دیکھو ٭ میرا وجود کسی غم سے کھولتا ہی نہیں

میرٹھ یوپی میں پیدا ہوئیں ۔ اپنے ہلکے پھلکے اشعار کو دلفریت ترنم کے ساتھ مشاعروں میں کافی عرصہ پیش کرتی رہیں ۔ ہمیشہ سامعین سے اچھی داد بھی حاصل کی۔
عقل و دانش یہ مانا بڑی چیز ہیں
دل بھی درکار ہے شاعری کے لئے

بھگوان داس شباب للت 3/اگست 1933 کو سرزمین پنجاب میں پیدا ہوئے تاریخ اور اردو میں ایم اے کرنے کے بعد مرکزی سرکاری کے محکمہ اشاعت و نشریات میں فیلڈ آفیسر مقرر ہوئے ۔ شباب صاحب ایک پرگو شاعر ہیں ۔ کلام کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ تازہ مجموعہ کلام "سمندر پیاسا ہے " کچھ عرصہ پہلے شائع ہوا۔
چھین کر تم لے گئے الفاظ کا امرت کلس
میں وہ شیوشنکر تھا جو زبر معافی پی گیا

8/نومبر1925ء کو لکھنو میں پیدا ہوئے ۔ ریٹرن لیٹرا آفس لکھنو میں ڈپٹی منیجر کے عہدے پر فائز تھے ۔ بہت اچھے اشعار کہتے اور مشاعرں میں اپنے منفرد انداز میں جم کر پڑھتے ۔ غزلوں اور نظموں کے دو مجموعے "دکھ سکھ" اور "تپسیا" کے نام سے شائع ہوئے کچھ سال پہلے لکھنو میں انتقال فرما گئے ۔
کبھی نگاہ، کبھی پیرہن ، ادائیں کبھی ٭ کئی زبانوں میں اکثر وہ بات کرتے ہیں

9/مئی 1931ء کو شملہ میں پیدا ہوئے ۔ بزم ادب شملہ کے سرگرم رکن اور منی مہیش کلا کے صدر رہے ۔ شاعری کا ذوق پیدائشی ہے ۔ کافی عرصے سے نثر بھی لکھ رہے ہیں ۔
بڑھ بڑھ کے اور لوگ ہوئے ان کے ہم کلام ٭ میر ے لبوں پہ مہر خموشی لگی رہی

11/اکتوبر1933کو چندی گڑھ پنجاب میں پیدا ہوئے ۔ "سرسبز" نام سے ایک ششماہی رسالہ جاری کیا۔ آپ کا مجموعہ کلام "شعر شگفت" کے نام سے منظر عام پر آ چکا ہے ۔
دل کی دہلیز پر کیوں طور جلاتے ہو دیا ٭ اس خرابے میں بھلا کون ہے آنے والا

20/جنوری 1931ء کو نورپور ضلع کانگڑہ میں پیدا ہوئے ۔ کیلاش چندر نام ہے محکمہ تعلیم سے وابستہ رہے ۔ جناب بھگوان داس شعلہ کے شاگرد ہیں ۔ جرم وفا کے نام سے ایک مجموعہ کلام شائع ہوا۔
کھوئی کھوئی ہوئی معصوم سے ان نظروں کو
جی میں آتا ہے کلیجے سے لگائے رکھئے

دسمبر 1929ء میں مارنڈو تحصیل پالم پور ضلع کانگڑہ میں پیدا ہوئے ۔ سب ڈویژنل مجسٹریٹ پالم پور کے دفتر میں بطور اسسٹنٹ ملازم رہے ۔ نظم،غزل، افسانے ، تنقیدی و تحقیقی مضامین لکھے ۔ اردو کے علاوہ ہندی اور پہاڑی زبان میں بھی بہت کچھ تخلیقی کام کیا۔

یکم اگست1935ء ہریانہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے اردو فارسی اور نفسیات میں ایم۔ اے کیا۔ ادبی سرگرمیوں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ امر چند قیس جالندھری کے شاگرد ہیں ۔ نظم و نثر میں کئی کتابیں لکھیں ۔
ناپنے نکلی ہے شہر دل کی وسعت کو مگر
کیا لگا پائے گی میرے دل کا اندازہ ہوا

14/اکتوبر 1931ء کو مخدوم پور ضلع جالندھر پنجاب میں پیدا ہوئے ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ روزنامہ "ہند سماچار" جالندھر کے ایڈیٹوریل اسٹاف میں شامل رہے ۔ ایک عرصہ دراز تک عروس اردو کو سجانے سنوارنے میں اہم رول اداکیا۔ نظم و نثر میں کچھ کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ شاعری کی طرح آپ کی نثر بھی کمال کی ہے ۔ نظم، غزل، افسانہ، ناول، ڈرامہ سبھی کچھ لکھا۔ انگنت مشاعروں اور سمیناروں میں حصہ لیا۔
زہر نکلتا ہے تو امرت بھی کبھی نکلے گا ٭ بہر ہستی کو سلیقہ سے کھنگالا جائے

٭٭٭
تو یہ ہیں ہمارے ہزا رہا غیر مسلم شعراء و ادباء میں سے کچھ شعراء و ادبا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان حضرات کے فن پر تفصیلی گفتگو کی جائے تاکہ ان کے مقام کے تعین میں آسانی ہو۔ اس سے بھی ضروری اور اہم بات یہ ہے کہ غیر مسلموں کی نئی نسل اردو سے بڑی حدتک نا آشنا ہے ۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس نسل کو اردو کی جانب متوجہ کریں ۔ اور ان کے دلوں میں دلچسپی کا جذبہ پیدا کریں ۔ یہی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

Non Muslim Indian Writers in urdu literature

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں