مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے ریزرویشن دیا جائے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-27

مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے ریزرویشن دیا جائے

مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے ریزرویشن دیا جائے - ریاستی حکومت دستور کی با لا دستی قائم کر تے ہو ئے مسلمانوں کو لا زمی نکاح رجسٹریشن ایکٹ سے مستثنی کرے
: مو لا نا محمود مدنی
امپیرئیل سراج محل میں منعقد اجلاس عام میں آبادی کے تناسب سے ریزرویشن اور انسدادتشدد فرقہ وارانہ مخالف بل اور بے قصور مسلم قیدیوں کی رہا ئی کا مطالبہ کر تے ہو ئے جمعیتہ علماء کے نا ظم عمومی حضرت مو لا نا محمود مدنی نے کہا کہ شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری حکو مت کی ہے ۔ اگر حکومت اپنی ذمہ داریوں سے رو گر دا نی کر تی ہے تو اسے یہ جان لینا چا ہئے کہ دستور کی پا مالی کر کے وہ ہمیشہ اپنی حکومت کو با قی نہیں رکھ سکتی۔ آ پ نے کہا کہ مسلمان اس ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہیں اور عا لمی اعتبار سے بھی مسلمانوں کی انڈو نیشیا کے بعددوسری بڑی آبادی ہندوستاں میں بستی ہے ۔ جس طرح ہندوستاں کی سوا سو کروڑکی آ بادی میں مختلف علاقے، مختلف زبان بو لنے والے، مختلف مذاہب،ذات برادی مختلف تہذیب و ثقافت کے حامل باشندے ہیں ، بالکل اسی طرح مسلمان بھی پو رے ملک میں اپنے اپنے علاقے کے اعتبار سے زبانیں الگ، بول چال کے طریقے الگ، کھان پان کے طریقے الگ مگر ملک وملت کے اعتبار سے ایک و متحد ہے۔ یہی ہندوستان اور ہندوستانی مسلمانوں کی پہچان ہے اور ہو نی چاہئے ۔ علاقہ،زبان اور تہذیب و ثقافت میں اختلاف ہو نے کے باوجود اتحاد اوریکجہتی کا مظاہرہ ہندوستانی مسلمانوں کا طرہ امتیاز ہے۔ بعدہ اجلاس کے اہم ایجنڈوں کی طرف متوجہ ہو تے ہوئے کہا کہ ریزرویشن اور کمیو نل وائیلنس مخالف بل کی منظوری ہمارا اہم مدعا ہے۔ آزادی سے قبل انگریز وں نے لڑاؤ اور حکو مت کرو کی پا لیسی اپنائی تھی، اسی لئے ہندوستانی اقوام نے انگریزوں کی مخالفت اور نفرت کی تھی ۔ نیز ہندوستان سے دھتکارا تھا ۔ اس موقع پر مسلمانوں نے ہندوستان اقوام کی قیادت کا فریضہ اپنایا ۔ آزادی کے بعد جمعیتہ کے اسلاف نے ہندوستانی مسلمانوں کو یہ تیقن دلا یا تھا کہ اگر وہ ہندوستان کو اپنا وطن تسلیم کر لیتے ہیں اور ہندوستان ہی میں رک جاتے ہیں اور پاکستان ہجرت نہیں کر تے تو انہیں تین قسم کی گیارنٹی ملیگی۔ (ا) مساوات، برابری یعنی ہندوستانی اقوام کے در میان برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ (2) مذہبی آزادی(3)اقلیتی حیثیت، کیونکہ جمہوریت میں سروں کی گنتی ہو تی ہے، بات کی سچائی جانچی نہیں جا تی۔ انہوں نے اپنی بات کو آ گے بڑھا تے ہو ئے کہا کہ ہندوستان کا دستور دنیا کے چند ایک بہترین دستوروں میں سے ایک ہے۔ مگر سر کاریں اور حکومتیں آ ئین اور دستور کو لا گو کر نے میں تفاوت برت رہی ہیں۔ ہمارے بنیادی حقوق میں رخنہ اندازی کی جا رہی ہے۔ براہ راست مذہبی آزادی ہی میں ڈاکہ ڈا لا جا رہا ہے۔ ہم سب کچھ بر داشت کر سکتے ہیں ،مگر شریعت میں رخنہ اندازی کبھی نہیں،مو لا نا محمود مدنی نے حکو متوں کو لٹارتے ہو ئے کہا کہ وہ سب کیلئے قوانین بنا سکتی ہے ، مگر مسلمانوں کیلئے نہیں ۔ شرعیت میں بلوغیت کی عمر اور نکاح کے مسائل بیان ہیں ۔ حکومت کوکو ئی اختیار نہیں کہ وہ شرعیت میں مداخلت کرے۔ حکومت ٹمل ناڈو کو چاہئے کہ آئین کی با لا دستی کو قائم کر تے ہو ئے اپنے نئے قانون لازمی نکاح رجسٹریشن ایکٹ سے مسلمانوں کو مستثنی کرے۔ کسی بھی جمہو ریت میں دستور کے حوالہ سے بنیادی حقوق اور آئینی سر پرستی کا یقین دلا کر اور شہریوں کی حفاظت کی ساری ذمہ داری اپنے ہا تھوں میں لے کر اقلیتوں کے ساتھ نا روا سلوک برتنا زیب نہیں دیتا۔ مو لا نا نے شمال کے سیاسی و سماجی مسائل اور ملک پر اسکے اثرات کا تذکرہ کر تے ہو ئے کہا کہ جنوب میں ایک حد تک بھائی چارگی اور محبت و اخوت کا دور دورہ ہے۔ مگر شمال میں ایسا نہیں، فرقہ وارانہ فسادات وہاں کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اسی لئے حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی حفاظت پر ما مور انتظامیہ قائم کرے، بصورت دیگرانہیں جواب دہ بنائے ۔ مو لا نا نے جمعیتہ علماء کی پالیسی کو پیش کر تے ہو ئے کہا کہ جمیتہ علماء ہمیشہ سچائی کو پسند کر تی ہے اور صرف سچائی کو پیش کر تی ہے۔ آجکل مسلمان دو طرح کے بحران سے گزر رہے ہیں داخلی بحران اور خارجی بحران۔ انسان یہ سوچھے کہ وہ دنیا میں کیوں پیدا کیا گیا، ابھی تک انسان سمجھ نہیں پا یا مگر مسلمان سمجھ گیا ہے ۔ مگر اللہ کی مدد سے وہ دونوں طرح کی بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسے نہ صرف دنیا، بلکہ آخرت کی بھی تیاری کر نی ہے ۔ حضرت مو لا نا محمد اقبال قاسمی صدر جمعیتہ علماء ٹمل ناڈو نے مو لا نا محمود مدنی کے خطاب کا ٹمل میں ترجمہ پیش کیا ۔ مو لا نا محمد منصور کا شفی اور حاجی سکندر صاحب نے نظا مت کے فرائض انجام دئے ۔ آخر میں حاجی حسن نے ہدیہ تشکرپیش کیا ۔ قبل ازین کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے لینن اور مارکسٹ کمیونسٹ کے لکشمنن،حضرت مو لا ناحافظ پیر شبیر احمدصاحب، صدر جمیتہ علماء آندھرا پردیش، ایم ۔ جی ۔ کے نظام الدین،حضرت مو لا ناسدیدالدین باقوی، حضرت مو لا نا ابو بکر عثما نی وغیرہ نے بھی خطاب کیا ۔ رات دیر گئے حضرت مو لا نا مفتی زین العا بدین صاحب بانی و مہتمم مدرسہ شاہ ولی اللہ کی دعا ؤں سے بحسن و خوبی اجلاس اختتام کو پہونچا۔ حاجی جمال الدین صاحب، حضرت مو لا نا محمد مزمل صاحب مو لا نا علاؤ الدین صاحب،حاجی ۔ ای۔ ایس۔ محمد حارث و منیر احمد، باقر بشمول مختلف مسلم تنظیموں کے ذمہ دار شریک اجلاس رہے

الطاف احمد

Muslims be given reservation in proportion to population

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں