میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:1 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-15

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:1



یہ کتاب حیدرآباد (انڈیا) کے ایک معروف ادیب ، طنز و مزاح نگار عاتق شاہ کی تحریر کردہ ہے جن کا انتقال ہو چکا ہے۔ دو دہائی قبل یہ کتاب روزنامہ "منصف" (حیدرآباد) میں قسط وار شائع ہو چکی ہے۔

تعمیر نیوز بیورو (ٹی۔این۔بی) کی جانب سے پہلی بار اس کتاب کو نیٹ پر پیش کیا جا رہا ہے۔ عاتق شاہ کے فرزند ڈاکٹر رضا شاہ کی طرف سے اجازت کے حصول پر ہم ان کے ممنون ہیں۔

عاتق شاہ کی پہلی کہانی "گرگٹ" ہے ، جو حیدرآباد کے اخبار "میزان" میں 21/مئی 1945 کو شائع ہوئی اور پہلا مجموعہ "فٹ پاتھ کی شہزادی" مئی 1948 میں منظر عام پر آیا۔
1953 میں حکومت حیدرآباد کے منعقدہ اردو مختصر افسانے کے ایک مقابلے میں ، جس میں 119 افسانہ نگاروں نے حصہ لیا تھا ، شاہ نے اپنے افسانے "مائی ڈئر شکنتلا" پر پہلا انعام حاصل کیا۔ اب تک ان کے ایک درجن مجموعے شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ شاہ لکھتے نہیں بلکہ زمانے اور زندگی کی تلخ حقیقتیں ان سے لکھواتی ہیں۔ اپنے منفرد اسٹائیل کی وجہ سے یہ فوراً پہچانے جاتے ہیں۔
مئی 1945 کو بحیثیت لکچرر اور صدر شعبہ اردو ، ملازمت میں داخل ہوئے۔ 30/ نومبر 1991 کو سردار پٹیل کالج سکندرآباد سے ریٹائر ہوئے لیکن ادب سے یہ ابھی ریٹائر نہیں ہوئے۔ زندگی کا قرض بڑی پابندی کے ساتھ تخلیقات کی شکل میں اتار رہے ہیں۔

عوام کی عدالت میں اردو کا مقدمہ پیش ہے ۔ اس مقدمے کی تھوڑی بہت تفصیل پڑھنے سے کم ازکم اتنا اندازہ تو ضرور ہو گا کہ تیسری عالمگیر زبان اردو کی اب کیا حیثیت ہے ۔ سچ پوچھئے تو میں نے اردو کے مسئلہ کو ایک دوسرے ہی نقطہ نگاہ سے دیکھا ہے ۔ چاہے کوئی مجھ سے متفق ہو یا نہ ہو لیکن میں نے اپنے ضمیر کی آواز پر اسے لکھا ہے ۔ اس مقدمے کی تیاری میں ، میں نے جو تکنک اپنائی ہے وہ میرے اپنے لب و لہجے کی عکاس ہے رہ گئی زبان کی بات تو میں اس تعلق سے اتنا ہی عرض کر دوں کہ دل اور جذبے کی زبان میں نے استعمال کی ہے ۔ جامعاتی اور ٹھیٹ قسم کی قانونی زبان کو میں نے بالکلیہ نظر انداز کیا ہے ۔ ویسے کوئی دماغ قانون کی زبان کو قبول کرلے تو کرلے لیکن دل قبول نہیں کرتا اور میں دل کا قائل ہوں ۔ یہاں میں نے دل کی بات سنی ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اردو کو تباہ اور برباد کرنے میں جہاں دوسری قوتیں کام کر رہی ہیں وہاں خود اردو والے بھی بہت آگے آگے ہیں ۔ خصوصیت کے ساتھ اردو کے نام نہاد قائدین اور رہنماؤں نے اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ضرورت ہے کہ ان مجرموں پر عوامی عدالتوں میں مقدمہ چلایاجائے اور انہیں سخت سزائیں دی جائیں ۔ اردو کو کسی کی نظر کیوں لگتی خود اردو والوں کی نظر اردو کو کھا گئی بلکہ یوں کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ ہم میں سے کسی نے اردو پر سفلی عمل کر دیا ہے تاکہ "چھومنتر" کی دکان چلتی رہے اور لین دین کا کاروبار باقی رہے ۔ اب یہ اردو عوام کاکام ہے کہ ان منافقین کو پہچانیں اور اُن کی مناسب و معقول انداز میں مزاج پرسی کریں ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اردو پر سے صدقہ اتار جائے ۔ یہی نہیں بلکہ اردو کے نام پر زکوۃ بھی دی جائے جو صدیوں سے نہیں دی گئی۔ اگر بقایا زکوۃ بھی دی جائے تو یقیناً اردو کی کشتی حالات کے سمندر میں ہچکولے کھاتی ہوئی اور اونچی اونچی اٹھتی ہوئی طوفانی لہروں کا مقابلہ کرتی ہوئی ثابت و سالم ساحل تک پہنچ سکتی ہے ۔ "میں کتھا سنا تا ہوں " میرے اپنے پڑھنے والوں کیلئے کوئی نئی چیز نہیں ہے گذشتہ سال میرے دوست محمود انصاری نے جس خلوص اور اہتمام کے ساتھ اپنے روزنامہ "منصف" کے سنڈے ایڈیشن میں اسے شائع کیا میں اسے کبھی بھلا نہیں سکتا۔ اسی طرح میرے شاعر دوست وقار خلیل کو بھی جنہوں نے بڑی توجہ اور لگن کے ساتھ میری کتھا کو "منصف" کے صفحات پر نمایاں طورپر پیش کیا۔ میں اپنے دوست محمود انصاری، ڈاکٹر سید مصطفی کمال اور سید عبدالقدوس کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود میری درخواست پر کتاب کے بارے میں فوری لکھ دیا۔ میں نہیں جانتا کہ انہوں نے میرے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کا میں مستحق بھی ہوں یا نہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ان کے اظہار میں ان کی اپنی محبتوں کا بڑا دخل ہے ۔




A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-1

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں