ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:4 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-28

ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:4

« پچھلی قسط --- اگلی قسط »

خلاصہ فصل دوم

ابن الوقت نے 1857ء کے غدر میں مسٹر نوبل ایک انگریز کو پناہ دی اور اس کے ساتھ ارتباط کا ہونا اس امر کی طرف مخبر متوجہ ہوا کہ ابن الوقت نے انگریزی وضع اختیار کر لی۔ ابن الوقت کے واقعات زندگی میں ایک واقعہ ایسا ہے جس کی بناء پر اس نے انگریزی وضع اختیار کر لی، آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے آخری زمانے میں کون صاحبزادہ تخت کا وارث ہو گا؟ مراز فخر ملک یا مرزا جواں بخت اس میں بہت اختلاف تھا۔ خود بادشاہ سلامت شہزادہ جواں بخت کی تائید میں تھے ۔ لیکن انگریز تائید میں نہیں تھے ۔ اسی دوران دہلی میں 1857ء کے غدر کا واقعہ پیش آیا جو دراصل انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں کی بغاوت اور جنگ تھی۔ غدر کے اگلے ہی دن نواب معشوق محل بیگم جو فخر الملک کی خالہ بھی ہوتی تھیں اور فخر الملک کی طرفدار تھیں ابن الوقت کو یہ حکم دیا کہ بیگم کی قیام گاہ "راحت گاہ" کا تمام سامان قلعے میں منتقل کر دیں ۔ حکم کی تعلیم میں ابن الوقت اپنے دو نوکروں کے ساتھ سامان اٹھوا کر قلعہ جا رہے تھے کہ انہیں سڑک پر انگریزوں کی کچھ لاشیں پڑی دکھائی دیں ۔ جنہیں دیکھ کروہ قتل کرنے والے ہندوستانیوں پر سخت خفا ہوتا رہا۔ اتنے میں کوئی 30برس کا جوان انگریزی خدمت گاروں کی وردی میں نظر آیا اس نے ابن الوقت کو بتایا کہ اس کا نام جاں نثا رہے ۔ اور وہ انگریز حاکم نوبل صاحب کا ارڈلی(Orderly) یعنی خدمت گذار ہے ۔ جاں نثار نے بتایا کہ غدر کے ہنگاموں میں نوبل صاحب ڈاک بنگلے میں زخمی ہو گئلے اور ابن الوقت سے نوبل صاحب کی جان بچانے کی درخواست کرنے لگے ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر صاحب آپ کے طفیل سے بچ گئے تو آپ کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے ۔ یہ سن کر ابن الوقت نے جو روزے سے تھا اپنے دونوں نوکروں سے عہدلیا کہ جان بچانے کی یہ کار روائی راز میں رکھیں ۔ کیونکہ اسے باغیوں سے ڈر تھا۔ بالاخر جاں نثار ان لوگوں کوزخمی نوبل صاحب کے پاس لے گیا۔ ابن الوقت اپنے نوکروں کی مدد سے نوبل صاحب کو سہارا دے کر اپنی بیوہ پھوپی کے نئے تعمیر شدہ خالی مکان میں لے گیا۔ ایک ایک نوکری باری باری سے رات میں سورہتا۔ ابن الوقت نے اس ڈر سے کہ کہیں کسی انگریز کو پناہ دینے کے جرم میں اس کے ساتھ کچھ کر نہ بیٹھیں پڑوس میں واقع شاہ حقانی کی خانقاہ کی راہ لی اور سوچنے لگا کہ اگر شاہ حقانی میرے سر پر ہاتھ رکھ دیں تو پھر کسی طرح کا خوف نہیں ۔ خانقان جانے پر پتہ چلا کہ باغیوں کا سردار انگریزوں کے خلاف اس لڑائی کو جہاد کا فتویٰ دینے کیلئے شاہ حقانی کے پاس آیا ہے ۔ ("جہاد" دراصل اسلام کی حمایت میں کافروں اور مشرکوں سے جنگ لڑنے کو کہتے ہیں ) لیکن شاہ صاحب فتویٰ نہیں دینا چاہتے وہ اس لڑائی کو زمین پر فساد کا نام دے رہے تھے ۔ ابن الوقت گھر لوٹا تو معلوم ہوا کہ انگریز نوبل صاحب کے زخم معمولی ہیں ۔ اور کمزور کے سبب بول نہیں پاتے ۔ مرہم پٹی کے بجائے ٹھنڈا پانی ٹپکانے سے مہینے دیڑھ مہینے میں سب زخم بھر آئے ۔ (یعنی ٹھیک ہو گئے ) کوئی تین سوا تین مہینے نوبل صاحب ابن الوقت ک یگھر رہے ۔ اس عرصہ میں دونوں کا ساتھ اتنا بڑھ گیا آج تک کسی ہندوستانی کا کسی انگریزکے ساتھ ایسا اتفاق نہیں ہوا ہو گا۔ نوبل صاحب کی مصروفیت سوائے ابن الوقت کے ساتھ وقت گذارنے کے اور کچھ نہیں تھی وہ کسی لمحہ ابن الوقت کا اپنے پاس سے ہٹنا پسند نہ کرتے تھے ۔ دونوں کی باتوں کا سلسلہ ختم نہ ہوتا تھا۔ جس میں یہ باتیں بحث میں آتیں کہ غدر ہوا جو کیوں ہوا؟ ہندوستان میں بسنے والی تمام قومیں کس فوجی طاقت کے ذریعہ غدر کو جاری رکھنے کی کوشش کریں گی۔ انگریزی حکومت سے لوگ راضی ہیں یا نہیں ؟ مسلمان اس غدر کو جہاد کا درجہ دیتے ہیں یا نہیں ؟ ابن الوقت نے نوبل صاحب کے ذریعہ انگریزوں کے تفصیلی حالات سے اس قدر واقفیت حاصل کی کہ بس آنکھوں سے دیکھنا باقی تھا۔ دراصل ابن الوقت کو ایک تو پہلے سے ہی انگریزوں کے ساتھ عقیدت تھی اور دوسرے یہ کہ اب نوبل صاحب کی صحبت میں یہ خیالات اور پکے ہو گئے ۔ اب نوبل صاحب ابن الوقت سے تقاضہ کرنے لگے کہ وہ کس طرح اُن کو انگریزی کیمپ پہنچادے ۔ کیونکہ نوبل صاحب کا تکیہ کلام ہو گیا تھا کہ ایسی خراب حالت میں وہ ملک اور قوم کی خدمت کرنے سے معذور ہو گئے ہیں ۔ نوبل صاحب نے کئی بار بگڑکر ابن الوقت کو دھمکایا کہ اگر مجھ کو زیادہ روکو گے تو میں خود نکل بھاگوں گا۔


Urdu Classic "Ibn-ul-Waqt" by Deputy Nazeer Ahmed - Summary episode-4

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں