ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:3 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-21

ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:3

« پچھلی قسط --- اگلی قسط »

ابن الوقت کی تقریب

یہ دور آج کا نہیں بلکہ آج سے 100 سال سے بھی پہلے کا دور تھا۔ جب انگریز ہندوستان میں حکومت کر رہے تھے اور ان کی زبان اور تہذیب کو تعلیم یافتہ نوجوان اختیار کرنے میں فخر محسوس کر رہے تھے ۔
یہ زمانہ 1888ء کا زمانہ تھا جب شمالی ہندوستان (North India) میں جو نوجوان مسلمان دلی میں پڑھتے تھے اپنی پرانی تہذیب سے بیزاری کا اظہار کرنے لگے تھے ۔ پرانے خیال کے لوگوں کی نظر میں انگریزی کا پڑھنا ایسا تھا جیس آدم نے وہ گیہوں کا دانہ کھالیا ہو جسے جنت میں کھانے سے منع کیا گیا تھا۔
ایسے حالات میں ابن الوقت نے انگریزوں کی وضع قطع اختیار کی جبکہ انگریزی پڑھنا کفر اور انگریزی چیزوں کا استعمال اسلام سے ہٹ جانے کے برابر ہوتا تھا۔ ابن الوقت ایک ایسے خوشحال اور شریف خاندان کا آدمی تھا۔ جن کے پاس مشرقی علم کی دولت باپ، دادا کے زمانے سے چلی آ رہی تھی۔
اس خاندان میں بعش طبیب (یونانی علاج کرنے والے ) تھے ۔ بعض مفتی (دین کے فتوی دینے والے ) اور بعض وعظ کرنے والے تھے ۔ شاہی قلعے سے ان کی آمدنی مقرر تھی۔ ابن الوقت ایسے وقت کالج میں داخل کیا گیا تھا تاکہ اس کی عربی فارسی معیاری ہو جائے ۔ اُس کا شمار اچھے لڑکوں میں ہوتا تھا۔ وہ حساب میں کمزور تھا لیکن تاریخ، جغرافیہ، سیاست اور اخلاقیات اس کے پسندیدہ مضامین تھے ۔ اُسے ہر سال طلائی تمغہ (Gold Medal) ملتا تھا۔ اس کا ذہن بہت اچھا تھا۔ وہ 6سال تک مدرسے میں پڑھتا رہا۔
مذہب کے بارے میں اس کی معلومات خوب تھیں ۔ ابن الوقت کی طبعیت میں خود داری بہت تھی۔ وہ سوائے استاد کے کی ہم جماعت یس کچھ پوچھے کو اچھا نہ سمجھتا۔
ابن الوقت کوئی بھی رائے دیر سے قائم کرتا مگر جب ایک بار رائے قائم کر لیتا تو بدلتا نہیں تھا۔ اس کی رائے تھی کہ کسی قسم میں Govtسلطنت کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس قوم کے خیالات، محرکات اور عادات یعنی تمام حالات ضرور بہتر ہیں اور یہ کہ سلطنت قوم کی بہتری کا ایک لازمی نتیجہ ہے ۔ یہی وجہہ تھی کہ وہ ہر انگریزکو خواہ وہ کم تر ہی کیوں نہ ہو، بڑی عزت کی نظر سے دیکھتا۔ اس خیال کے آدمی کو انگریزی پڑھا لکھا ہونا چاہئے تھا ۔ مگر ہوا یہ کہ ماں باپ کی وفات کے بعد خاندانی جاگیرداری اس کے ذمہ آپڑی۔ اگرچہ کہ اس کے بڑے بھائی ایک اور بھی تھے اور چاہتے تو وہ سنبھال لیتے مگر ان کو اپنے وظیفے پڑھنے سے فرصت نہ تھی۔ لہذا ابن الوقت کو بڑا بھاری کارخانہ سنبھالنا پڑا۔ جس کے سنھالنے میں وہ مدرسے کو وقت نہ دے پایا اور مدرسہ چھوڑدیا۔ اپنے طورپر مطالعہ اور اخبار بینی جاری رکھی۔
انگریزی کی ضرورت نے اسے انگریزی سیکھنے کی طرف متوجہ کیا۔ چونکہ وہ ذہین تھا۔ اس لئے انگریزی جاننے کیلئے بہت کوشش کرتا تھا۔ وہ انگریزی سمجھ تو لیتا تھا لیکن بے تکلف بات چیت میں مہارت حاصل نہ کر سکا کیونکہ ایک مقولے کے مطابق آدمی اپنی مادری زبان کے علاوہ دوسری زبان کے ماہر ہونے کا حق ادا نہیں کر سکتا۔

اس مقولے کے ثبوت میں "صاحب قاموس" کی حکایت بیان کی گئی ہے ۔ عربی کی لغت میں سب سے زیادہ مستند اور معیاری لغت "قاموس" کہلاتی ہے ۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ "قاموس" کا تربیت دینے والا یعنی "صاحب قاموس" عربی نہیں تھا بلکہ عجمی تھا مطلب یہ غیر عربی تھا۔ اس کی مادری زبان عربی نہیں تھی لیکن اس کو بچپن سے زبان عربی سیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ جہاں تک عجم میں ممکن تھا سیکھ پڑھ لیا۔ (عجم دنیا کے وہ علاقے ہیں جو عرب سے ہٹ کرہیں ۔ ویسے "عجم" کے معنی ہیں " گونگے " جو عربی لفظ ہے مطب یہ کہ عرب اپنی زبان دانی کے آگے سب کو گونگے سجھتے تھے !) ہاں تو صاحب قاموس برسوں عربی زبان کے پیچھے خاک چھاننا پھرا اور ساری عمر کی تلاش کے بعد "قاموس" بنائی تو ایسی کہ ساری دنیا اس کو سند مانتی ہے ۔ لیکن خدا کو زبان دانی کا پردہ فاش کرنا تھا۔ اس نے عرب کی ایک بی بی سے نکاح کیا۔ رات کو "چراغ بجھادے " کو عربی محاورے میں بولنے کے بجائے چراغ قتل کر دے بس کیا تھا۔ بی بی تاڑگئی۔ صبح اٹھ کر قاضی سے فریاد کرنے گئی خدا جانے بی بی رہی یا گئی مگر میاں کی عربیت ظاہر ہو گئی۔


Urdu Classic "Ibn-ul-Waqt" by Deputy Nazeer Ahmed - Summary episode-3

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں