مارٹن کاخط
"اے نیگلیکٹیڈ گریو (A Neglected Grave) یعنی ایک نظر اندازشدہ قبر کی سرخی سے شائع ہونے والے مارٹن کے خط کے بعد غالب کے چاہنے والوں کی سوچ بدلی۔ قبر کو محفوظ کرنے کیلئے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور ادارے بننے لگے ۔ کئی ادارے بنے لیکن 1950ء کے بعد جب مولانا ابولکلام آزاد آ گئے اور انہوں نے اس وقت کے مرکزی سکریٹری ڈاکٹر شانتی سروپ اور دہلی کے کمشنر شنکر پرساد سے مل کر غالب سوسائٹی بنائی تو لوگ اس کے ساتھ جڑتے گئے ۔ 18!ستمبر 1953ء کو غالب سوسائٹی کی پہلی میٹنگ ہوئی اور 2سال میں کام مکمل ہو گیا۔ سیٹھ گھنشیام داس بڑلا نے غالب کی قبر کیلئے اس وقت سب سے زیادہ 15ہزار روپئے چندہ دیا تھا۔ کولکتہ سے انگریزی میں کامریڈ اخبار نکالنے والے مولانا محمد علی جوہر نے 2500روپئے دئیے تھے ۔ تمام کوششوں کے درمیان غالب کی قبر کو مزار بننے میں طویل وقت لگ گیا۔ کام مکمل ہونے پر اس کا افتتاح 10فروری 1955ء کو ہوا۔ 28!ستمبر 2005ء کو محکمہ آثار قدیمہ نے اسے قومی یادگار قراردیا۔ قبر کے مزار بننے میں غالب کے خاندان والے ہی دشواریاں کھڑی کر رہے تھے ۔ دراصل ان کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا اور چندے سے مزار بنوانے میں وہ اپنی توہین محسوس کر رہے تھے ۔ مولانا ابولکلام آزاد، مرزا غالب خاندان کے نواب لوہارو سے جا کر ملے تو وہ کسی طرح راضی ہوئے اور انہوں نے 500روپئے مزار کیلئے اپنے پاس سے دئیے ۔ غالب نے شائد اپنی حیات میں اس چیز کو محسوس کر لیا تھا۔
ہوئے مرکے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
Dr. Martin historic report about Mirza Ghalib's grave
مکرمی
جواب دیںحذف کریںجناب مکرم صاحب
اتنا جو لکھا مضموں میں لیکن اصل مقصود ندارد جسکا ذکر کیا وہ کہان ہے اور کس حال میں ہے "مرزا کی مزار " کی اک عدد تصویر بھی لگا دی جاتی--اور جگہ کا ذکر بھی کہ مزار ہے کہاں