صنف نازک پر ظلم و ستم - بیداری وقت کی اہم ضرورت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-15

صنف نازک پر ظلم و ستم - بیداری وقت کی اہم ضرورت

صنف نازک پر درندوں کا ظلم وستم، بیداری وقت کی اہم ضرورت۔ فاطمہ عالمہ

ملک میں خواتین پر ہورہے جنسی تشدد، ہراسانی، آبروریزی، اور ظلم و ستم کے خلاف ریاست ملکی سطح کی خواتین کی تنظیم نیشنل ویمنس فرنٹ کی تمل ناڈو شاخہ کی جانب سے ریاست گیر مہم چلایا جا رہا ہے، خواتین کی یہ تنظیم بلا تفریق مذہب و ملت، ریاست کی تقریبا تمام اسکولوں، کالجوں، اور بس اسٹینڈ، ریلوے اسٹیشن اور دیگر عوامی مقامات میں پہنچ کر خواتین کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم کے سلسلے میں بیداری لانے اور خواتین کو ان تمام مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرتی آ رہی ہیں، اس سلسلے میں تنظیم کی ریاستی صدر فاطمہ عالمہ نے راشٹریہ سہارا سے چنئی میں ہوئے save women's مہم کے دوران خصوصی بات چیت کرتے ہوئے، خواتین پر ہونے والے مظالم کے سلسلے میں اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان پر حکومت کرنے والی یو پی اے حکومت کی سربراہ ایک خاتون ہیں، اس کے علاوہ وہ ملک کی سب سے بڑی اور روایتی پارٹی کی صدر بھی ہیں، اسی طرح اس ملک کی صدر ہند بھی ایک خاتون ہیں، دہلی، مغربی بنگال، تمل ناڈو پر بھی خواتین ہی وزیر اعلی کے عہدوں پر فائز ہیں، اس کے علاوہ ملک کے انتظامی امور بھی خواتین کا ایک بڑا طبقہ اپنی خدمات انجام دیتا آ رہا ہے، جہاں ایک طرف ملک میں خواتین ہر شعبہ میں ترقی کر رہی ہیں، وہیں ملک کی خواتین ہوس کا شکار ہوتی آ رہی ہیں، اور خواتین کو جنسی کشش بجھانی والی ایک اشیاء کے طورپر دیکھا جا رہا ہے، اس کی تازہ مثال 16دسمبر کی رات چلتی بس میں ایک طالبہ کی اجتماعی آبروریزی کا المناک واقعہ ہمارے سامنے ہے، اس حادثہ کے بعد ایوانوں اور ملک کے کونے کونے میں اس کی مذمت کی گئی، جس کے پیش نظر حکومتوں نے وعدے کئے کے مستقبل آئند میں اس طرح کے جرائم پر کنٹرول کرنے کے سخت قانون بنائیں جائیں گے، اور مجرموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی، لیکن یہ تمام وعدے کاغذی وعدے ہی رہ گئے، انہوں نے ملک میں خواتین پر ہونے والے مظالم کی تفصیلات بتا تے ہوئے کہا کہ صرف دہلی میں 92فی صد خواتین کی عزت و آبرو سلامت نہیں ہے، اور دہلی میں assochamکے سروے رپورٹ کے مطابق کام پر جانے والی 36فی صد خواتین اپنی حفاظت کے سلسلے میں خوف میں مبتلا ہیں، اور یہ مظالم کا سلسلہ دہلی تک محدود نہیں ہیں، بلکہ ملک کا طول وعرض میں خواتین پر جنسی تشدد کے واردات میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے، نیشنل کرائم ریکارڈس بیوریو کے رپورٹ کے مطابق سال 2010-11میں 1,26,753 عصمت دری کے مقدمات درج کئے گئے ہیں، انہوں نے کہا یہ صرف درج شدہ مقدمات تعداد ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ کئی موقع اور مقامات پر جہاں عصمت دری کے مقدمے درج نہیں ہوئے ہیں، ان کی تعداد اگر ملائی جائے تو ان واقعات کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہونے کے امکانات ہیں، اسی طرح انہوں نے اسڈی آن چائلڈ ابیوس کی 2007 کی سروے رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں 53.22فی صد بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ رپورٹ چونکا دینے والا رپورٹ ہے، اس کی طرف عوام کواور خصوصی طور پر خواتین کا توجہ دینا بے حد ضروری ہے، اس کے علاوہ انہوں نے ملک میں خواتین پر مظالم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ صرف دہلی ہی میں نہیں بلکہ پورے ملک میں خواتین کے خلاف ہونے والے جنسی تشدد میں خواتین کی حفاظت کی ذمہ داری نبھانے کی بجائے خود پولیس اور ڈیفنس فورس کے نوجوان بھی خواتین پر ظلم کرتے آ رہے ہیں، عصمت دری کو ایک ہتھیار کے طور پر محکمہ پولیس اور فوج کے ذریعے استعمال کئے جانے کے کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں، سن1991میں جمو کشمیر بوسپورا گاؤں میں کئی خواتین کی عصمت دری میں فوج کے نوجوان ملوث رہے ہیں، اور سال 2008میں کشمیر کے شوپیاں علاقے میں دو لڑکیوں کو خود ڈیفنس فورس کے جوانوں نے عصمت دری کی تھی،اسی طرح سال 2004میں آسام رائفلس کے جوانوں نے منورما دیوی کی عزت لوٹ کر ان کا قتل کیا تھا، ایسے کئی ان گنت واقعات ہیں، جس کی مثالیں اور ثبوت ہمارے سامنے ہیں، انہیں مظالم کے خلاف پچھلے بارہ سال سے منی پور کی اروم شرمیلا نامی خاتون فوج کو دی گئی آرمڈ فورسس اسپیشل پاور ایکٹ (AFPSA) کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے مسلسل بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہوئی ہیں، لیکن ان کے اس مطالبے پر نہ ہی کسی سیاست دان نے یا میڈیا اور سماجی تنظیموں نے بالکل توجہ نہیں دی ہے، اسی طرح گجرات میں ہوئے فسادات کے دوران مسلم خواتین پر جومظالم ڈھائے گئے تھے، ان مظالم کی یاد آج بھی تازہ ہیں، اس کے علاوہ ملک میں دلت اور قبائلی خواتین پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے ، انہوں نے پریس کونسل آف انڈیا کے چیرمین جسٹس کاٹجو کے اس بیان کا حوالہ دیکر کہا کہ جس میں جسٹس کاٹجو نے کہا تھا کہ جس طرح دہلی میں ہوئے آبرو ریزی کا معاملہ ملک کے ایوانوں میں گونجا تھا، کیا یہی حادثہ اگر ملک کے دوسرے حصے یا دیہی علاقوں میں رونما ہوتا تو کیا ایوانوں اور میڈیا میں اسی طرح کا رد عمل ہوتا ؟ ان کے اس سوال کے جواب کا آج بھی ہمیں انتظار ہے، اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں ایسے اراکین اسمبلی بھی بدقسمتی سے موجود ہیں، جو اسمبلی میں بیٹھ کر فحش فلموں کا نظارہ کرتے ہیں، اگر ایسے لوگ ایوانوں میں رہیں گے تو خواتین کی حفاظت کے لیے قوانین کون بنائے گا؟ اور ہماری حفاظت کی ضمانت کون دیگا؟ انہوں نے اس گفتگو کے اختتام میں کہا کہ جنسی تشدد کے جتنے بھی واقعات رونما ہوئے ہیں، ان میں شراب کا اہم کردار رہا ہے، اور شراب کے نشے میں عصمت دری کے واقعات زیادہ رونما ہوئے ہیں، لہذا حکومتوں کو چاہئے کے وہ خواتین کے تحفظ کو مد نظر رکھتے ہوئے شراب پر مکمل پابندی لگانے کا اقدام کریں، اس کے علاوہ خواتین کے خلاف ہونے والے مظالم میں فلموں ، ریالٹی شوس، کا بھی اہم رول ہے، معاشرے میں خواتین کی تعداد نصف حصہ رہنے کے باوجود بھی خواتین مظالم کا شکار ہیں، اس کے لیے خواتین کو ہی آگے آنا ہو گا، اور ان مظالم کے خلاف یک جٹ ہو کر آواز اٹھانا ہو گا، صرف وقتیہ طور پر مظاہرے کر کے بعد میں ان واقعات کا بھول جانا عقل مندی نہیں ہے، بلا تفریق مذہب ملت، خواتین کے لیے آواز اٹھانے والی اس تنظیم کی صدر فاطمہ عالمہ کے احساسات سننے کے بعد عقل اسی نتیجے پر پہنچتی ہے کہ ملک میں خواتین کو برابری، سیاست میں حصہ داری، وغیرہ وغیرہ کا نعرہ صرف ایک سیاسی ہتھکنڈہ ہے، لیکن اصلیت میں یہی خواتین جو اعلی عہدوں پر فائز ہیں، انہوں نے کھبی بھی خواتین کے خلاف ہوتے آ رہے ان مظالم پر نہ ہی اپنے سخت موقف کا اظہار کیا ہے، اور نہ ہی اس سلسلے میں انہوں نے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائی ہیں، لیکن ملک کی خواتین طبقہ نے جن کو بھروسہ کر کے و وٹ دیا تھا، اور انہیں ایوانوں میں بھیجا تھا، وہ تو اپنے عہدوں کے نشے میں دھت ہیں، لیکن ملک میں کئی ہزار خواتین آج بھی روزانہ کہیں نہ کہیں جنسی تشدد کا شکار ہوتی آ رہی ہیں ۔

فیصل مسعود

Atrocities on women - Article by: Faisal Masood

2 تبصرے:

  1. nwf ne khuwateen ke liye bahot acha kaam kiya hai, aur kar rahi hai, aur karti rahegi yahi ummeed hai, yahi dua hai. delhi me bhi ab nwf dikhayee dene lagi hai

    جواب دیںحذف کریں
  2. Protection of Women is essentially requirement in present situation, Thanks for your Artical.

    جواب دیںحذف کریں