2002 کا گجرات نہیں بھول سکتے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-01-31

2002 کا گجرات نہیں بھول سکتے

اس وقت ملک کی سیاست میں عجیب طرح کا اچھال ہے ۔ سیاسی پارہ ساتویں آسمان پر ہے ۔ کسی کے نشانے پر ایس سی ایس ٹی ہے تو کوئی اگلے انتخابات میں مودی کو وزارت عظمی کے عہدہ کا امیدوار مان رہا ہے ۔ کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ اگلے عام انتخابات کے لئے را ہول گاندھی کو وزارت عظمی کا امیدوار بنایاجائے ۔ کسی کا یہ کہنا ہے کہ اگلا لوک سبھا انتخاب مودی بنام راہل، یا راہل بنام مودی ہو گا۔ بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں ہیں اور یہ بالکل درست بھی ہے کہ ہر شخص کو ایک جمہوری ملک میں آئین اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی بات مکمل رکھنے کا اختیار حاصل ہے ۔ لیکن جب کوئی قانون کو ہاتھ میں لے کر اسے اپنی جاگیر سمجھنے لگے تو پھر یہ قانون کے رکھوالوں کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر لگام لگائیں اور قانون کو ہاتھ کا کھلونا سمجھنے والوں کو واجبی نصیحت دیں ، تاکہ وہ مستقبل میں قانون کو ہاتھ میں لنے کی بات تو دور اس کے ساتھ مذاق کرنے کی بھی جرأ ت نہ کر سکیں ۔ تاہم عرض تحریر یہ ہے کہ اس وقت عام انتخابات میں جبکہ تقریباً ایک سال رہ گیا ہے ملک کی دو سیاسی جماعتیں ، برسراقتدار کانگریس اور حزب اختلاف بی جے پی میں وزارت عظمی کے عہدے کی امیدواری کیلئے ہوڑمچی ہوئی ہے ۔ کچھ کانگریس لیڈران دبے الفاظ میں تو کچھ کھلے عام یہ کہہ رہے ہیں کہ راہل گاندھی کو پارٹی کا نائب صدر بنائے جانے کے بعد اب اس بات کا اعلان کر دیا جانا چاہئے کہ وہ اگلے عام انتخابات میں وزارت عظمی کے عہدے کیلئے پارٹی کے امیدوار ہوں گے ۔ لیکن کانگریس اعلیٰ کمان ابھی تک خاموش ہے ۔ کانگریس راہل گاندھی کو وزارت عظمی کے عہدے کا امیدوار اعلان کرے گی یا نہیں ، اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہو گا۔ اسی طرح جس طرح کہ اس بارے میں رائے زنی کرنا درست نہیں ہو گا کہ راہل گاندھی کو وزارت عظمی کے عہدے کا امیدوار اعلان کرنے کے بعد اس کی اتحادی جماعتوں کا رخ اور رویہ کیا ہو گا۔ کیونکہ راہل گاندھی کو وزارت عظمی کے عہدے کا امیدوار اعلان کرنے یا نہ کرنے کی خبروں کے سامنے آنے کے بعد سے لے کر اب تک کانگریس کو چھوڑکر شاید یوپی اے کے کسی اتحادی کی رائے سامنے نہیں آئی ہے ۔ جہاں تک بی جے پی اور این ڈی اے کی ہے تو بی جے پی کے ایک سینئر رہنما یشونت سنہا نے ابھی حال ہی میں ملک کے ایک پرائیوٹ ٹی وی چینل سے بات چیت میں کہاکہ پارٹی کارکنوں کا یہ دباؤ ہے کہ مودی کو وزارت عظمی کے عہدے کا امیدوار بنایاجائے ، اس سے پارٹی کو کافی فائدہ ہو گا۔ اس مطالبہ پر غور کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر مودی کو وزارت عظمی کے عہدے کا امیدوار بنایا جاتا ہے تو اس سے پارٹی کو مدد ملے گی۔ و وٹروں میں اعتماد بڑھے گا۔ فیصلہ پارٹی اور مرکزی قیادت کو کرنا ہے ۔ لیکن عام کارکنوں کی یہی رائے ہے کہ مودی کو وزارت عظمی کے عہدے کا امیدوار بنایاجائے ۔ مسٹر سنہا نے اپنی ہی پارٹی کے سابق صدر نتن گڈکری پر بھی نشانہ سادھتے ہوئے کہاکہ ان سے پارٹی کو نقصان پہنچاہے ۔ وہ این ڈی اے کی اتحادی جماعت متحدہ جنتادل پر بھی نشانہ سادھنے سے باز نہیں آئے اور یہاں تک کہہ ڈالا کہ اگر وہ چاہیں تو رشتہ توڑبھی سکتے ہیں ۔ شاید یشونت سنہا کو اس بات کا احساس ہو گیا ہو گا کہ جنتادل یو کی طرف سے بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار وزارت عظمی کے امیدوار ہو سکتے ہیں اور اس مسئلے پر بی جے پی جنتادل یو میں دراڑپڑسکتی ہے اتحاد ٹوٹ سکتا ہے اس لئے انہوں نے ابھی سے ہی یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ اگر مودی کو وزارت عظمی کا امیدوار بنائے جانے کے مسئلے پر جنتادل یو، بی جے پی کا ساتھ چھوڑکر این ڈی اے سے الگ بھی ہو جائے تب بھی پارٹی اور مرکزی قیادت کو مودی کو بی جے پی کی طرف سے وزارت عظمی کی امیدواری کا اعلان سے بعض نہیں آنا چاہئے ۔ جبکہ شیوسینا سشما سوراج کو وزارت عظمی کے عہدے کا امیدوار بنانے کی وکالت کر رہی ہے تو جنتادل یو ابھی تک خاموش بیٹھا ہوا ہے اور اس کے لیڈران کہہ رہے ہیں کہ اس کا فیصلہ این ڈی اے کی میٹنگ میں ہو گا۔ یعنی این ڈی اے میں وزارت عظمی کی امیدواری کیلئے لیڈران کی قطار لگی ہوئی ہے ۔ کیا مودی کے مسئلے پر جنتادل یو، بی جے پی کاساتھ چھوڑکر این ڈی اے سے الگ ہو گا؟ یہ مستقبل قریب کی بات ہے ۔ جس کا جواب اگلے تقریباً چھ ماہ سے ایک سال کے اندر ملک کو مل جائے گا لیکن ہندوستان کے عوام شائد ابھی یہ نہ بھولے ہوں کہ جب مرکزی وزیر داخلہ نے یہ بیان دیا کہ بی جے پی اور آرایس ایس کے ٹریننگ کیمپوں میں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے تو اس پر نتیش کمار تلملا گئے جس سے صاف ظاہر ہے کہ نتیش کے پس پردہ کون سی ذہنیت کام کر رہی ہے ۔ وزارت داخلہ کے بیان سے مایاوتی کے دل کو بھی ٹھیس پہنچی اور انہوں نے بھی کہاکہ "وزیر داخلہ کے بیان سے ملک کے ہندوؤں کو ٹھیس پہنچی ہے "۔ جبکہ ان کے اعتراضات کی کوئی معقول وجہہ نہیں ہے کیونکہ آر ایس ایس جیسی جماعت اکیلی ملک کے ہندوؤں کی ٹھیکیدار نہیں ہو سکتی ہے جس طرح کہ "سیمی" پر پابندی عائد کر دی گئی اور ملک کے مسلمانوں کی ٹھیکیدار نہیں تھی۔ جبکہ سیمی پر اپبندی ٹریبیونل میں ثابت نہیں ہونے کے بعد حکومت نے سپریم کورٹ میں "سیمی" کے خلاف پابندی کی اپیل کی۔ تاہم حکومت کے پاس اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آر ایس ایس کے لوگ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں اور وزیر داخلہ نے اس تعلق سے بیان بھی دیا۔ اس کے باوجود اب تک حکومت کی خاموشی بلاشہ سوالوں کے گھیرے میں ہے ۔ جب اڈونی جیسے لوگ یہ کہتے ہوئے نہیں تھک رہے تھے کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہو تا بلکہ دہشت گرد مسلمان ہوتے ہیں (جبکہ حقائق اور مشاہدات یہ بتاتے ہیں کہ دہشت گردی کے نام پر لوگ پکڑے جاتے ہیں اور بری ہونے والے مسلمان ہوتے ہیں ) اُس وقت مذکورہ سیاسی رہنماؤں کو سانپ سونگھ گیا تھا اور انہوں نے ایک لفظ بھی ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے حق میں بولنے کی جسارت نہیں کی تھی۔ بہرحال مودی کو وزارت عظمی کے عہدے کا امیدوار بنانے میں کچھ مسلم رہنما اور اہل قلم بھی پیچھے نہیں ۔ کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ گجرات میں مسلم پولیس اہلکار مودی نے بھرتی کئے ہیں تو کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ اگر مودی معافی مانگ لیں تو انہیں معاف کیا جاسکتا ہے ۔ شاید یہ حضرات 2002ء کا گجرات بھول گئے ہیں یا انہیں بھلانے کیلئے کہار جا رہا ہے ۔ یا انہیں یہ پتہ نہیں کہ جن مسلم پولیس اہکاروں کی تقرری کی وہ بات کر رہے ہیں انہیں مودی کے پہلے کے گجرات میں بھرتی کیا گیا تھا۔ جن آنکھوں نے گجرات کا سانحہ 2002 دیکھا تھا جن ماؤں کے رحم میں بچوں کو زندہ ماردیا گیا تھا جن بہنوں کا سہاگ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اجڑگیا جن کی مانگوں میں سندور بھرنے والا کوئی نہیں رہا جن سے ان کے والدین ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھین لئے گئے اور جن کے عزیز و اقربا کو زندہ جلادیا گیا وہ 2002 کا گجرات نہ بھول سکتے ہیں اور نہ ہی مودی حکومت کو معاف کر سکتے ہیں ۔ کیونکہ مودی کے اقتدار میں تعینات پولیس اہلکاروں نے میڈیا کے سمانے یہ بات کھل کر کہی کہ "مودی نے کہا تھا کہ ہندوؤں کو اپنی بھڑاس نکالنے دو"۔ اگر مودی کو گجرات کا ہٹلر کہا جائے تو اس میں بالکل غلط کچھ نہیں ہو گا کیونکہ بقول مودی ان کے دور اقتدار میں گجرات میں ترقی ہوئی ہے ۔ اگر مودی کی بات کو بہ فرض محال تسلیم کر بھی لیاجائے تو کیا ہٹلر جس کے ہاتھ خون آلود ہیں اس کے دور میں ترقی نہیں ہوئی تھی؟ جی نہیں ، بالکل ترقی ہوتی تھی لیکن ترقی کا مطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ لوگوں کا خون بہا کر ترقی کی جائے اور ترقی اسی کانام ہے تو بلاشبہ ہندوستان کیا دنیا کا کوئی بھی انصاف پسند ایسی ترقی کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہو گا۔ قارئین کو بتادیں کہ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مودی حکومت کے گنا ہوں کو بھول کر آگے بڑھا جائے ، شاید وہ یہ بھول رہے ہیں کہ جنوبی افریقہ میں ٹروتھ اینڈ ریکنسائلیشن ایک ادارہ انصاف تھا جس نے نازی جرمنی کے کارناموں پر مصالحت پر زوردیا تھا لیکن کمیشن کے قیام کے پیچھے یہ فلسفہ تھا کہ جو واقعات پیش آئے وہ خوفناک حد تک ظالمانہ تھے یعنی مفاہمت کے علمبرداروں کو بھی اس بات کا کہیں نہ کہیں اعتراف تھا کہ نازی کا کارنامہ انسانیت دشمنی پر مبنی تھا۔ لیکن معصوموں کے قتل کے مقدمات کا عدلیہ میں سامنا کر رہے مودی، احمد پٹیل جیسے سینئر لیڈر کو احمد میاں پٹیل کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں جو ان کے ذہن کی عکاسی کیلئے کافی ہے ۔ کیونکہ اہنسا کوئی ایسا لبادہ نہیں جسے جب چاہا پہن لیا اور جب چاہا اتاردیا۔ پس ملک مودی کے کالے کارناموں کو کبھی معاف نہیں کر سکتا ہے ۔ گجرات انڈیا نہیں ہے اور ہندوستان کے عوام مودی کے کارناموں سے واقف ہیں اس لئے وہ بھی مودی کو کبھی معاف کر ہی نہیں سکتے اور مودی جس دن اس ملک کے وزیر اعظم بن گئے وہ اس ملک کی تاریخ کا سب سے سیاہ دن کہا جائے گا۔

will not forget 2002 gujarat - Column by: Tariq Anwar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں