حیدرآباد دکن - 17 ستمبر 1948 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-01-11

حیدرآباد دکن - 17 ستمبر 1948

تصویر بشکریہ : وکی پیڈیا
17-ستمبر
اس تاریخ کے حوالے سے کچھ سیاسی اور سماجی جماعتوں نے ایک خاص دن منانے کا اعلان کیا تھا۔ کسی نے اس دن کو "یومِ آزادی" کا عنوان دیا ، کسی نے "یومِ نجات" کسی نے "سقوطِ حیدرآباد دکن" ۔۔۔ کسی نے کچھ اور کسی نے کچھ ۔۔۔
بات دراصل یہ ہے کہ سن 1948ء میں اسی تاریخ 17-ستمبر کو انڈین یونین کی افواج نے ریاست حیدرآباد دکن (مملکتِ آصفیہ) پر یلغار کرتے ہوئے حیدرآباد کو (جبراً ؟؟) انڈین یونین میں ضم کر لیا تھا۔
جن جن جماعتوں نے یومِ آزادی یا یومِ نجات (یعنی : آصف سابع حضور نظام میر عثمان علی خان کی شخصی حکومت سے نجات) منانے کا اعلان کیا تھا وہ غالباً تاریخی واقعات اور حقائق سے لاعلم ہیں یا پھر ان کا واحد مقصد مسلمانوں کے خلاف تعصب کو ہوا دینا اور فرقہ وارانہ فساد کو بھڑکانا رہا تھا۔
اگر یہ فرقہ پرست طاقتیں سمجھتی ہیں کہ نظام حکومت کی شکست سے انہیں فتح حاصل ہوئی ہے تو پھر انہیں چاہئے کہ نظام حکومت کی جانب سے قائم کردہ عوامی سہولیات کی تمام عمارتوں اور یادگاروں کو بھی ختم کر دیں ۔۔۔ مثلاً :
عثمانیہ جنرل ہسپتال ، ہائی کورٹ ، ریاستی اسمبلی ، جامعہ عثمانیہ ، آصفیہ لائیبریری ، نیلوفر ہسپتال ، عثمان ساگر ، حسین ساگر ، فلک نما پیلس ، خلوت پیلس ، نظامس عوامی ٹرسٹ وغیرہ وغیرہ

اس موضوع پر حیدرآباد کی واحد مسلم سیاسی جماعت "مجلس اتحاد المسلمین" کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے بجا طور پر بیان دیا تھا کہ :
یہ دراصل سنگھ پریوار کا ایجنڈا ہے۔ ہم سب ہندوستانی ہیں۔ ہمارے لئے "آزادی" کا مطلب صرف 15-اگست پے۔ باقی سب دیگر تاریخیں غیر ضروری ہیں۔ یہ دراصل مسلمان حکمرانوں کے خلاف نفرت اور تعصب کا پرچار ہے اور اس سے صرف جذبات کی آگ ہی بھڑکے گی۔ اگر فرقہ پرست طاقتیں یہ جتانا چاہتی ہیں تو اس ہی دن مسلمانوں سے چھٹکارا حاصل ہوا تھا تو انہیں اس تاریخی حقیقت کو بھی یاد کرنا چاہئے کہ اس ہی دن پولیس ایکشن کے ذریعے ریاستِ حیدرآباد میں دیڑھ لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا تھا۔

مملکت آصفیہ کی تاریخ پر عبور رکھنے والے ریٹائیرڈ آرمی کیپٹن لنگالہ پانڈو رنگا ریڈی ، اصل حقائق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
** آزادی کا مطلب یہ ہے کہ کسی غیر ملکی دباؤ یا حکمرانی سے چھٹکارا پانا۔ جبکہ نواب میر عثمان علی خان کوئی غیرملکی حکمران نہیں تھے۔
** ہندوستان سے ملحق ہونے والی دیسی شاہی ریاستوں کی ترتیب میں حیدرآباد کا نمبر 562 واں تھا۔
** سقوطِ حیدرآباد صرف اور صرف انڈین یونین کی فوجی کاروائی کے سبب ہوا تھا۔ کسی عوامی تحریک کا اس میں مطلق دخل نہ تھا۔
** نظام حکومت کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کا عمل 17-ستمبر کو نہیں بلکہ 18-ستمبر کو 4 بجے شام سے ہوا تھا۔
** نظام کی شاہی حکومت کو ختم کرنے کے بعد "جمہوریت" کا دور یکدم سے شروع نہیں ہو گیا تھا بلکہ فوجی حکومت قائم کی گئی تھی جو کہ طویل عرصہ تک برقرار رہی۔

Hyderabad Deccan - 17th September 1948

3 تبصرے:

  1. اس تاریخ کے سانحے کو بیان کرنے والے چند ہی بزرگ اب حیدرآباد میں حیات رہ گئے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. تاریخی کتاب "زوال حیدرآباد" کے مصنف سید حسین صاحب الحمدللہ ابھی حیات ہیں

      حذف کریں
  2. کتاب "زوال حیدرآباد" بےشک مستند دستاویز ہے

    جواب دیںحذف کریں