ہم اور ہماری جمہوریت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-01-26

ہم اور ہماری جمہوریت

آج ہم اپنی جمہوریت کا جشن منا رہے ہیں ۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا جشن ہے ۔ اُس آئین کا جشن ہے جو دنے یا کا سب سے مفصل آئین کہلاتا ہے ۔ اُس قوم کا جشن ہے جو جمہوریت پسند واقع ہوئی ہے ۔ اُس نظام حکومت کا جشن ہے جس کی اساس جمہوریت ہے ۔ لیکن اس سے قبل کہ ہم اس جشن میں کھوجائیں اور یوم جمہوریت کے اختتام پر اس "ریک روزہ رسم" کو بھول کر پھر اپنے معمول پر آ جائیں ، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دن کم ازکم اس ایک دن میں وطن عزیز کی جمہوریت کے بارے میں سوچا جائے کہ 6دہائیوں سے زیادہ عرصہ میں ہم نے اسے تقویت بخشی یا کمزور کیا ہے ، اسے کامیاب بنایا ناکام کیا ہے ؟ پنڈت نہرو کی وہ مشہور تقریر جو انہو ں نے غلامی کی تاریکی چھٹنے کے بعد اور آزادی کا سورج طلوع ہونے سے پہلے یعنی 14اور15 اگست کی درمیانی شب میں کی تھی اب بھی عوامی ذہنوں میں ، اگر ذہنوں میں نہیں تو کتابوں میں ضرورمحفوظ ہے ۔ اس کا ایک ایک جملہ تاریخی ہے ۔ انہی میں سے ایک یہ ہے کہ "آج ہم جس کامیابی کا جشن منا رہے ہیں یہ دراصل ایک موقع ہے جو ہمیں نئی کامیابیوں سے ہمکنار کر سکتا ہے ، کیا ہم اتنے بہادر ہیں کہ اس موقع کا فائدہ اٹھائیں اور مستقبل کے چیلنج کو قبول کریں ؟" اس میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ 65 برسوں میں ہماری جمہوریت باقی رہی لیکن جو سوال پنڈت نہرو نے کیا تھا کہ کیا ہم اتنے بہادر( اور عقلمند) ہیں کہ اس کا فائدہ اٹھائیں اور مستقبل کے چیلنج کو قبول کریں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جمہوریت کا باقی رکھنے میں کامیاب یہ قوم اس کی روح کو سنبھالے رکھنے میں کامیاب نہیں ہے ۔ اس کا سبب ہر شخص جانتا ہے کہ ہم نے جمہوریت کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کر لیا لیکن جمہوریت کو فائدہ پہنچانے کی اپنی ذمہ داری قبلو نہیں کی بلکہ اس سے پہلو تہی کر لیا۔ اس کی وجہہ سے جو بے ضابطگیاں پیدا ہوئیں اب اُن کی حیثیت امراض کہنہ کی سی ہے جن کا علاج امراض سے زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے ۔ یہی وجہہ ہے کہ ارباب اقتدار جنہیں بیماری سے ڈرنا چاہیل تھا علاج سے ڈرنے لگے ہیں ۔ جہاں تک جہوریت کو فائدہ پہنچانے یعنی فروغ دینے میں زبردست کاتاہی کا سوال ہے اس کا انتہائی تکلیف دہ نتیجہ یہ ہے کہ اب جمہوریت کے جسم میں جمہوریت کی روح کو تلاش کرنا مشکل ہورہا ہے اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے الفاظ میں چھپا ہوا اندیشہ درست ثابت ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ "آئین کتنا ہی بہتر کیوں نہ ہو اُسے برتنے والے بہتر نہ ہوں گے تو وہ کمتر ثابت ہو گا، اس کے برخلاف آئین کتنا ہی کمتر کیوں نہ ہو اُسے برتنے والے بہتر ہوں گے تو بہتر ثابت ہو گا۔ " ڈاکٹر امبیڈکر نے صرف خدشہ ظاہر کیا تھا کیونکہ اُس وقت تک ہم نے جمہوریت اور آئین کو نہ تو عملاً برتا تھا نہ ہی اس تجربے سے گذرے تھے لیکن50 برس کے تجربے کے بعد (جب جائزہ لیا گیا تو) جمہوریت کی 50ویں سالگرہ پر اُس وقت کے صدر جمہوریہ کے آر نارائن کو کہنا پڑا کہ آئیں نے ہمیں ناکام نہیں بلکہ ہم نے آئین کو ناکام کیا ہے ۔ اس پس منظر میں اگر ہم آزاد ہندوستان کی تاریخ کا دیانتدارانہ جائزہ لیں تو محسوس ہو گا کہ قصور نہ تو جمہوریت کا ہے نہ ہی جمہوری بنیادوں پر قائم آئین کا قصور ہے تو اُن لوگوں کا جو اس کے محافظ رہے اور قصور تو اُن عوام کا جنہوں نے سب کچھ محافظوں کے بھروسے پر چھوڑدیا اور اًُ سے ضروری باز پرس بھی نہیں کی۔ اس ملک میں آئین، قانون اور جمہوریت کا عملاً نافذ کیا گیا ہوتا تو بدعنوانی، نا انصافی، حق تلفی، جرائم کی پشت پناہی، مفاد پرستی اور استحصال کا بازار اس طرح گرم نہ ہوتا کہ کوئی جگہ ایسی نہیں رہ گئی جہاں اس کی تپش محسوس نہ ہوتی ہو!

We and our democracy - Editorial by Inquilab daily, mumbai

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں