وہ صبح کبھی تو آئے گی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-01-26

وہ صبح کبھی تو آئے گی

آج26/جنوری 2013کی صبح ہے ۔ چاروں طرف جمہوریہ منانے کی دھوم مچی ہوئی ہے ۔ آج ہی کے دن 1950ء میں ہندوستان کو ایک جمہوری ملک قرار دیا گیا اور دستور ہند ہندوستانی عوام کے حوالے کیا گیا۔ ہندوستان کے سیکولر و سماجی انصاف ر مبنی ایک آئین کاتحفہ دینا اس وقت کیلئے بہت بڑا تاریخی قدم تھا ورنہ 1947ء کے ارد گرد جو ماحول بنا اور پاکستان کو جس طرح ایک مذہبی ملک قراردیا گیا ویسی صورتحال اب اس جنوبی ایشیاء کو دیکھنے کو نہ ملے تو بہتر ہے ۔ بہرحال ہمیں اپنے دستور ہند پر فخر ہے جس نے مذہب، ذات، نس، علاقائی تفریقات کے باوجود سبھی فرقے کو ایک ساتھ باندھ کر رکھنے کی کامیاب کوشش کی۔ حالانکہ کنسٹی چیونٹ اسمبلی میں بحث کے دوران ڈاکٹر امبیڈکر نے ڈرافٹنگ کمیٹی اور اسمبلی میں استحصال زدہ طبقات کی معقول نمائندگی و موجود ممبران کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر آئین ہند میں قانونی پیچدگی نہ رکھی جائے تو استحصال طبقات و اقلیتوں کے خلاف مستقبل کے پارلیمنٹ میں ایسے فیصلے کئے جاسکتے ہیں جو انہیں آزاد ملک میں غلامی کرنے پر مجبور کر دے ۔ حالانکہ اس خدشے کو بھانپتے ہوئے انہوں نے کئی اڑچنیں آین میں ایسی درج کروادیں جو دلتوں و آدی باسیوں کے حقوق کی پاسبانی کرتا ہے لیکن مسلمانوں کی بڑی پیشہ ور آبادی، مرکزی سرکاری کے ایک کابینی فیصلے سے حق ماری کی اس وقت شکار ہو گئی اور آج تک اسے جھیل رہی ہے ۔ 10/اگست1950کو ہی ایک آرڈر آیا جسے صدارتی حکم نامہ 1950ء کہتے ہیں ۔ اس آرڈر کے پیراگراف نمبر 3 کے ذریعہ شیڈول کاسٹ و شیڈول ٹرائب دونوں پر "ہندوستانی ہونالازمی" کی شرط جڑگئی اور یہی وجہہ دیا گیا کہ اقلیتوں میں شیڈول کاسٹ یا ٹراب ہوتے ہی نہہیں ہیں ۔ اس حکم نامہ میں پہلی ترمیم 1952ء میں کرشیڈول ٹرائب پر سے مذہبی قید یک مشت ہٹالی گئی۔ اس سے ٹرائبل نسب کے اقلیتوں کو تو راحت ملی لیکن شیڈول کاسٹ پر سے مذہبی قید کا نہیں ہٹانا مسلمانوں کی اکثریت آبادی کیلئے سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوا اور اس آرڈر کا ٹارگٹ دراصل مسلم آبادی ہی تھا اس لئے سکھوں و بودھوں کو تو دوبارہ اس زمرے میں یک بعد دیگر شامل کر لیا گیا لیکن اس سے پیدا شدہ مسلمانو کی حالت کا آ’ینہ سچر کمیٹی کے ذریعہ دکھایا گیا۔ آپ اندازہ لگا کر دیکھیں کہ جہاں ایک طرف ہندو قرقہ کے دلت سیاسی و بیورو کریسی حصہ داری میں کہاں سے کہاں چلے گئے وہیں مسلمانوں کیبڑی آبادی ان دلتوں کے روایتی چھوڑے ہوئے جگہوں کو بھرنے کیلئے مجبور ہو گئے ۔ بنکر، موچی، گیری، بھنگی گیری، پاسی گیری، قلندر کو آج کون مجبور ہے ؟ ٹائر پنکچر بنانا، بیڑی بنانا، کپڑے سلنا، مرغی کا انڈا بیچنا، سبزی و گوشت بیچنے کا کام کون کر رہا ہے ؟ کل تک جھگی جھونپڑیوں میں کون رہتا تھا اور آج اس میں کون سی آبادی کی تعداد زیادہ ہے ۔ رکشہ، ٹھیلہ چلانے ، کھیتوں و مکان بنانے میں مزدوری کون کر رہا ہے ؟ یہ سب آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں ۔ اس حق سے محروم رہنے کی وجہہ ہم نے نہ جانے کتنے ایم پی، ایم ایل اے ، ڈاکٹر، انجینئر ، افسر، پروفیسر کھودئیے نہ جانے کتنے غریبوں کو ہم اندر آواس یوجنا، عمر رسیدہ پنشن، لال کارڈ نہیں دلواسکے ، کتنے بچوں کی جاہلیت دور کروا کر تعلیم نہ دلواسکے ۔ ایک معمولی اور آئلین مخالف آرڈر نے ایک قوم کو کتنی بدحالی والی سطح پر پہنچادیا۔ اس سے بھی بڑی سازش مسلمانوں کے خلاف اور کوئی چار جاسکتا ہے جو 1950ء کے 10اگست کی کی گئی۔ ہندوستانی مسلمانوں کو ایک جمہوری طرز نظام میں کئی زخم اقلیتی اداروں ، پرسنل لاء و بابری مسجد کے آر میں دئیے گئے جو حق ماری 1950ء میں ماری گئی اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ اس نے ہمارے معاشرے کیلے میٹھے زہر کا سا کام کیا۔ 1994ء سے لمبی لڑائی کے ذریعہ (ملکی سطح) پر اب یہ معاملہ مرکں ی کابینہ و سپریم کورٹ دونوں کے درمیان آ کر معلق بنا ہوا ہے ۔ بس اب اس صبح کا انتظار ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو۔ سیکولر آئین اور آزاد سپریم کورٹ کی پہل سے یہ امید بندھی ہوئی ہے کہ وہ صبح ضرور آ گئے جس کا انتظار مسلمانان ہند گذشتہ 63برسوں سے کر رہے ہیں ۔

Woh subah kabhi to aayegi - A column by Dr. M. Aijaz Ali

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں