tagore workshop jamia millia
ٹیگوریت ایک زماین میں اصطلاح بن گئی تھی۔ اس کا زبردست اثر اس زمانے میں اردو کے نثر نگاروں پر پڑا۔ ٹیگور شناسی اور ٹیگور کے تراجم کی موجودہ کوشش کو دیکھ کر ہمیں خوشی ہورہی ہے۔ ٹیگور ادبیات کے تراجم ذخیرہ ادب میں ایک اہم اضافہ ہے۔ ترجمہ خوبصورت ہو یا نہیں اس کی درسگی پہلی شرط ہے۔ ان خیالات کا اظہار شعبہ اردو جامعہ ملے اسلامیہ کے زیر اہتمام "ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم" کے تحت ٹیگور کی کہانیوں، مضامین اور شاعری کے ترجمے پر پانچ روزہ ورکشاپ کے افتتاحی اجلاس میں ممتاز نقاد اور دانشور پروفیسر شمیم حنفی نے کیا۔ افتتاحی سیشن کی صدارت پروفیسر آفاق احمد، پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر عتیق اﷲ اور صدر شعبہ اردو پروفیسر خالد محمود نے کی۔ پروفیسر شمیم حنفی نے مزید کہاکہ کوئی بھی ترجمہ فائنل نہیں ہوتا بلکہ اس میں خوب سے خوب ترکا امکان ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ ٹیگور کی تخلیقات کا ترجمہ کرتے وقت اس بات کا خیال رہے کہ گذشتہ ترجموں سے بہتر ہو۔ پروفیسر عتیق اﷲ نے کہاکہ ترجمہ کرتے وقت بے حد محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ترجمے میں اصل متن کا ہمیشہ لحاظ رکھنا چاہئے۔ بالخصوص شاعری کے ترجمے میں کسی رو سے بہہ جانا مناسب نہیں۔ پروفیسر خالد محمود نے اپنے صدارتی خطبے میں کہاکہ یہ بے حد خوشی کی بات ہے کہ گیتانجلی، گارڈنر اور ٹیگور کی دوسری تخلیقات کے ترجمے کا کام جامعہ میں بے حد تندہی سے شروع ہوچکاہے۔ جامعہ کا ماضی شاندار ہے اور ترجمے کے حوالے سے جامعہ کی اہم شناخت رہی ہے۔ پروفیسر شہپر رسول نے شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ٹیگور پروجیکٹ کی جانب سے سبھی شرکاء کا استقبال کیا۔ ٹیگور پروجیکٹ کے کوآرڈنیٹر پروفیسر شہزاد انجمن نے ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم اور ورکشاپ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ یہ پروجیکٹ ایک بڑا چیلنج ہے اور اس کام کو خوب سے خوب تر کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔ اس ورکشاپ میں "گیتانجلی" اور "دی گارڈنر" کے علاوہ ٹیگور کی کہانیوں اور ان کے مضامین کا بھی ترجمہ کیا جائے گا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں