مخدوم کا عوامی لہجہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2012-12-17

مخدوم کا عوامی لہجہ

مخدوم محی الدین بیسویں صدی کے ان شعراء میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی زندگی اور شاعری عوام کیلئے وقف کردی۔ ترقی پسند تحریک سے وابستگی سے قبل ہی ان کے مزاج میں انسان دوستی، مساوات اور عوام پسندی شامل تھی۔ اس لئے کہ ان کی پرورش اس ماحول میں ہوئی تھی جہاں ایک ہی صف میں محمود اور ایاز کھڑے ہوتے تھے۔ انہوں نے پوری زندگی ایک عام آدمی کی زندگی کی طرح گزاری۔ بچپن کے مسائل، جوانی کی ٹھوکریں، معاشرتی پریشانیاں سب کچھ ان کی زندگی کاحصہ رہیں۔ پانچ برس کی عمر تھی کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والدہ نے کسی اور کے ساتھ گھر بسالیا۔ چچا نے سرپرستی کی۔ خوش قسمتی سے چچا ایک انسان دوست اور اچھے انسان تھے۔ جن کا اثر مخدوم نے بھی قبول کیا وہ اپنے چچا کے ساتھ مل کر محنت کش عوام اور کاشت کاروں کی مدد کرتے۔ مخدوم کا بچپن گاؤں میں گذرا۔ اس لئے وہ کسانوں اور مزدوروں کی پریشانیوں سے واقف تھے۔ خود انہوں نے بھی زندگی کو ایک مزدور کی طرح جیا۔ کبھی ٹھیلے پر تصویریں رکھ کر سڑکوں پر گھوم گھوم کر بچیں۔ کبھی ٹیونش کئے۔ مسجد کے فرش پر سوکر اور بھوکے رہ کر بھی زندگی گذاری۔ مخدوم کے یہاں جو عاجزی وانکساری تھی وہ مسجد میں جھاڑو لگایا کرتے تھے اور نمازیوں کے لئے وضو کاپانی مہیا کرتے تھے۔ مذہبی مساویانہ تعلیم جو ان کے لاشعور میں بسی ہوئی تھی اس کی اس اشتراکیت نے آگ پر تیل کا کام کیا۔ بچپن ہی سے ان کے چچا انہیں دنیا کے سیاسی و سماجی حالات سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ روس میں عوام کی جیت ہوئی ہے۔ عوام کے نمائندے برسر اقتدار ہیں۔ مخدوم بھی اپنے ملک میں عوام کی حکومت کے خواب دیکھ رہے تھے۔ آزادی کی جدوجہد سے وہ نوجوانی ہی سے واقف تھے۔ گاندھی جی، مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہرکے مداح تھے۔ ان کے ذہن میں آزادی کا تصور صرف اقتدار کی منتقلی نہیں تھا بلکہ وہ چاہتے تھے کہ آزادی ایسی ہو جس میں حکومت عوام یعنی مزدوروں اور کسانوں کے ہاتھ میں ہو تاکہ عوام کا یہ طبقہ جو سرمایہ داروں کے جبر و استبداد سے کچلا جارہا ہے جن کی زندگی قبر کے اندھیرے کی طرح تاریک ہے۔ سماج میں ایک باعزت اور باوقار زندگی گذار سکے۔

یہ جنگ ہے جنگ آزادی
آزادی کے پرچم کے تلے
ہم ہند کے رہنے والوں کی
محکموں کی مجبوروں کی
آزادی کے متوالوں کی
دہقانوں کی مزدوروں کی
یہ جنگ ہے جنگ آزادی
آزادی کے پرچم کے تلے
وہ جنگ ہی کیا وہ امن ہی کیا
دشمن جس میں تاراج نہ ہو
وہ دنیا دنیا کیا ہوگی
جس دنیا میں سوراج نہ ہو
وہ آزادی آزادی کیا
مزدور کا جس میں راج نہ ہو

عوام لہجہ اور عوام کی حمایت میں کہی گئی یہ نظم اپنے زمانے میں مقبول ترین نظم تھی۔ ادب کا جو حصہ عوام میں مقبول ہوتاہے وہ عوام کی ملکیت بن جاتا ہے اور عوامی ادب کا حصہ ہوجاتاہے۔ عوامی ادب کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ اس کا خالق کہیں کھوجاتاہے۔ صرف گیت زبان زد خاص و عام رہتا ہے۔ مخدوم کے کلام کی سادگی اور عوام فہمی کے سبب ان کے کئی گیت عوامی گیت بن گئے۔


Makhdoom ka awami lahja - Ibn-e-Kanwal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں