ڈاکٹر سیفی سرونجی نے ابن صفی اور عام قاری کے رشتے کو تلاش کرتے ہوئے ان صفی کی برتری اور عوام الناس سے ہم رشتگی کو اپنے مخصوص انداز اور عالمانہ بصیرت کی روشنی میں پیش کیا۔ ڈاکٹر شان فخری نے ان صفی کی کردار نگاری کی انفرادی عظمت اور دوررسی اور دوربینی کے اثرات اپنے مقالے میں پیش کئے جنہیں بہت سراہا گیا۔ جناب عارف اقبال نے ابن صفی کا نصب العین اور کارنامے کا احاطے کرتے ہوئے اردو کی ترویج و اشاعت میں ابن صفی کی خدمات کو پیش کیا جس میں عوام میں اردو کو مقبول عام بنانے میں خاص رول ادا کرنے اور اسی نوع کی تحریک جگانے کا راز کھولا گیا۔ پرویفسر مناظر عاشق ہرگانوی نے ابن صفی کے جاسوسی ناولوں میں اردو کا ذکر کرکے پیش نظر اپنی عالمانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس طرح کیا کہ ابن صفی کے یہاں طنز و مزاح کے عناصر کے چٹخارے ان کے ناولوں کے موضوع سے انصاف کرتے ہوئے اردو زبان اوراس کے املا اور اصوات کے تعلق سے ابن صفی کے اشاروں اور کنایوں کے برتنے کے سلیقے اور مہارت سے خاطر خواہ بحث کی۔ حکومت ہند سے وابستہ جناب نیلابھ صاحب نے ابن صفی کے ناولوں کے اسلوب اور استفادے اور ماخذات سے بحث کرتے ہوئے بتایا کہ انگریزی میں جاوسی ناولوں کی مستحکم اور قدیم روایت پائی جاتی ہے البتہ اردو میں اس نوع کی کتب اکثر ٹھیلوں پر فروخت ہوتی رہی ہیں اور شائد اس کیلئے آج ہم اس ادب کا محاسبہ کرنے کی شروعات اسی نوع کے ادب کے تخلیق کا ابن صفی جنہیں بنیاد گزار بھی کہا جاسکتا ہے کہ خدمات کے اعتراف سے کررہے ہیں۔
ابن صفی کی پیروڈی لکھنے والے فاروق ارگلی نے ابن صفی کے سماج سروکار تلاش کرتے ہوئے بتایا کہ اردو زبان و ادب کی تاریخ میں نظیر اکبر آبادی کے بعد عوامی مقبولیت حاصل کرنے والا پہلا شخص ابن صفی ہے اور اس نے اردو کی ترویج و ترقی میں اپنی تحریروں کے ذریعہ ایک انقلاب پیداکیا۔ ابن صفی کی تقلید میں اردو اور ہندی میں کئی سیریزشروع ہوئیں لیکن ابن صفی کی فکری بلندی اور قدرت تحریر کی منزل کوئی نہ پاسکا البتہ ان نقلی ناولوں میں ابن صفی کا دم خم نہ سہی مگر کھپ ان ناولوں کی بھی کچھ کم نہیں تھی۔
ابن صفی کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوںنے تقسیم ہند کے سانحے کو کسی بھی طورپر زیر قلم نہیں آنے دیا۔ اس سہ روزہ سمینار کے دوسرے روز کا دوسرا اجلاس دوپہر 2:30 بجے شروع ہوا جس میں انہوں نے ابن صفی کے کرداروںکے نفسیاتی بشری کی خصوصیات کو مختلف زمروں کی صورت میں پیش کیا اور موثر طریقہ اظہار اپناتے ہوئے سامعین کو طلسم کی حدتک متوجہ کرلینے کا ہنر دکھایا۔
جناب قائد حسین کوثر نے ابن صفی فن اور شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے کانپور، الہ آباد اور لاہور کی آبادیوں پر ابن صفی کی تحریروں کے اثرات کا جائزہ پیش کیا۔ ڈاکٹر فرحت احساس نے اسرارناروی یعنی ابن صفی کی شاعری اور فکشن کی فکری آمیزش کا نتیجہ پیش کرتے ہوئے بتایاکہ ابن صفی اصلاً شاعر تھے لیکن بسیار نویسی کے جھونکے انہیں ناول نویسی کی طرف لے آئے۔
ڈاکٹر خالد جاوید نے اپنے مقالے میں ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ابن صفی موزونی طبع سے شروع ضرور ہوئے لیکن ان کی ذہنی فکر اور ان کے تخلیقی وجدان کے عکس آخر ان کے ناولوں ہی کی بدولت ہماری یادوں اور عملی زندگی میں آج تک محفوظ ہے۔ جناب مختار ٹونکی نے اپنے مخصوص اسلوب انشائیہ نگاری کے انداز میں اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے ابن صفی کے ناولوں اور مکالموں کے طنزیہ و مزایہ پرتیں کھولنے اور ان کے بہاؤ کے ساتھ سامعین کا رشتہ جوڑنے کی کامیاب کوشش کی۔
Ibn-e-Safi seminar in Jamia Millia
shandar
جواب دیںحذف کریںخاکسار نے اپنی زیرطبع کتاب "ابن صفی-شخصیت اور فن" میں اس سیمنار کی روداد شامل کی ہے، اسے امین بھایانی صاحب نے تحریر کیا ہے