خدا کا وجود : اثبات و نفی - عقل اور ایمان بالغیب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2025-12-23

خدا کا وجود : اثبات و نفی - عقل اور ایمان بالغیب

does-god-exist-debate

بھارت میں مفتی شمائل ندوی اور جاوید اختر کے درمیان خدا کے وجود پر ہونے والا دو گھنٹے کا دنگل بڑے غور سے سنا۔ ایک طرف عقیدے کی ڈھال تھی اور دوسری طرف الحاد کی تلوار تھی لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ دونوں کے دلائل کی بنیاد ایک جیسی تھے۔
اس بحث میں سب سے دلچسپ تماشہ تب نظر آتا ہے جب مولوی اور ملحد ایک ہی دلیل کو اغوا کر کے اپنے اپنے کیمپ میں لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ Cosmological Argument ہے۔
مفتی صاحب نے سینہ تان کر کہا کہ صاحب یہ کائنات خود بخود کیسے بن گئی؟ انھوں نے کچھ زمینی مثالیں دیں اور پھر استدلال کیا کہ انھیں کسی نے بنایا ہے تو اتنی بڑی کائنات کا خالق کیوں نہیں؟
جاوید اختر صاحب نے وہی منطق الٹی کر دی کہ صاحب اگر ہر چیز کا خالق ہونا ضروری ہے تو پھر خدا کا خالق کون ہے؟ اگر خدا خود بخود موجود ہو سکتا ہے تو کائنات کو یہ رعایت دینے میں کیا قباحت ہے؟
یہ وہ پوائنٹ ہے جہاں فلسفہ اسے Infinite Regress کہتا ہے۔ مولوی جس منطقی سیڑھی سے اوپر چڑھتا ہے، ملحد اسی سیڑھی کو نیچے سے کاٹ دیتا ہے۔
دوسری دلیل ہمیشہ Teleological Argument ہوتی ہے۔
مولوی کا یہاں ہتھیار نظم و ضبط ہے۔ وہ کہتا ہے کہ سورج وقت پر نکلتا ہے، انسانی آنکھ کی ساخت پیچیدہ ہے، یہ سب ایک ذہین ڈیزائنر کی علامت ہے۔
لیکن ملحد یہاں Entropy اور کائنات کے بگڑتے ہوئے نظم کا حوالہ دے کر کہتا ہے کہ اگر ڈیزائنر اتنا ہی کامل ہے تو کائنات میں اتنی خامیاں، بیماریاں اور بلیک ہولز کیوں ہیں؟
دونوں گروہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ جسے مولوی خدا کی قدرت کہتا ہے، اسے سائنسدان قوانینِ فطرت کہتے ہیں اور دونوں کے پاس اس کے آغاز کا کوئی ٹھوس لیبارٹری ٹیسٹ موجود نہیں ہے۔
مفتی صاحب نے ایک لفظ کا درجنوں مرتبہ استعمال کیا جسے Contingency یعنی امکانیت کا فلسفہ کہا جاتا ہے۔ اسے اسلامی فلسفے میں امکان و وجوب کہا جاتا ہے۔ یہ ارسطو سے ہوتا ہوا فارابی اور ابنِ سینا تک پہنچا اور آج بھی مذہبی سکالرز کا سب سے بڑا منطقی ہتھیار ہے۔ یہ لفظ وزن دار لگتا ہے مگر ملحد کے سامنے اس کی حیثیت اتنی ہی بودی ہو جاتی ہے جب وہ اسے پلٹ کر استعمال کرتا ہے۔
اب ذرا Contingency Argument دیکھیے۔


مفتی صاحب کا استدلال یہ تھا کہ کائنات کی ہر شے Contingent یعنی ممکن الوجود ہے۔ یعنی وہ چیز جو خود سے موجود نہیں ہو سکتی تھی، جس کا ہونا یا نہ ہونا برابر تھا، جسے وجود میں آنے کے لیے کسی بیرونی سہارے یا علت یعنی Cause کی ضرورت ہے۔
مفتی صاحب نے دلیل دی کہ چونکہ پوری کائنات Contingent ہے اس لیے اس کے لیے ایک Necessary Being یعنی واجب الوجود کا ہونا ضروری ہے جو خود کسی کا محتاج نہ ہو اور وہی خدا ہے۔
جاوید اختر جیسے ملحد اس فلسفے کو وہیں سے توڑتے ہیں جہاں سے یہ شروع ہوتا ہے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ اگر کائنات کی ہر شے کو علت کی ضرورت ہے تو آپ نے اچانک خدا پر پہنچ کر یہ اصول کیوں توڑ دیا؟ اسے Special Pleading کی Logical Fallacy کہا جاتا ہے جہاں آپ ایک قانون سب پر لاگو کرتے ہیں لیکن اپنے پسندیدہ کردار کو اس سے مستثنیٰ قرار دے دیتے ہیں۔
جاوید اختر کا اس پہ دوسرا اعتراض یہ تھا ہے کہ Matter یا Energy خود واجب الوجود کیوں نہیں ہو سکتے؟ اگر کسی ایسی چیز کا ہونا ضروری ہے جو ہمیشہ سے ہو تو وہ خالق کے بجائے کائناتی قوانین کیوں نہیں ہو سکتے؟
یہیں فلسفیانہ ڈیڈ لاک پیدا ہوتا ہے۔
مفتی صاحب جب Contingent کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو وہ منطق کے ایک ایسے قید خانے میں داخل ہو جاتے ہیں جہاں سے نکلنے کا راستہ صرف ایمان ہے کیونکہ منطق کبھی بھی یہ ثابت نہیں کر سکتی کہ وہ واجب الوجود ہستی وہی ہے جس نے کتابیں نازل کیں یا جو سزا و جزا دیتی ہے۔ منطق زیادہ سے زیادہ ایک فرسٹ کاز تک پہنچا سکتی ہے جو کہ ایک بے جان قوت بھی ہو سکتی ہے۔
دوسری طرف جاوید اختر جب اس کا رد کرتے ہیں تو وہ بھی یہ ثابت نہیں کر پاتے کہ کائنات عدم سے خود بخود کیسے پھٹ پڑی۔


جاوید اختر نے جب غزہ کے بچوں کے قتل عام کا سوال اٹھایا تو وہ دراصل فلسفے کا قدیم ترین سوال پوچھ رہے تھے کہ اگر خدا قادر مطلق ہے اور رحیم ہے تو وہ اس بربریت کو روکتا کیوں نہیں۔ مفتی صاحب نے وہی روایتی دفاع پیش کیا کہ خدا نے انسان کو Free Will دی ہے۔ اگر خدا ہر جگہ مداخلت کرے گا تو انسان کا امتحان ختم ہو جائے گا لیکن اس دلیل کی ستم ظریفی دیکھیں کہ ایک ظالم کی فری ول کو بچانے کے چکر میں مظلوم کے حقِ زندگی کو قربان کر دیا گیا۔ یہاں مولوی لاشعوری طور پر اسرائیلی بربریت کو ایک Necessary Evil بنا کر پیش کر دیتا ہے تاکہ اس کا الہامی نظام منطقی طور پر ٹوٹنے نہ پائے۔
جاوید اختر نے کہا کہ اگر کسی کا ریپ ہو رہا ہو تو یہ ریپیسٹ کی فری ول ہے اور بیچارہ وکٹم اس کا شکار ہو گیا اور آپ نے ریپ کو خدا کی فری ول قرار دیا۔ یہی نقطہ انھوں نے غزہ پہ استعمال کیا۔
بحث کے دوران جب غزہ کے بچوں کے تذکرے پر مفتی صاحب نے خدا کے عادل ہونے کی دہائی دی تو جاوید اختر نے الحاد کا سب سے مہلک تیر چلایا۔ ان کا کہنا تھا کہ انصاف نامی کوئی شے کائنات کے بنیادی ڈھانچے میں موجود ہی نہیں ہے، یہ محض انسانوں کا اپنا تراشا ہوا ایک سوشل کنسٹرکٹ ہے۔
جاوید صاحب کی منطق یہ تھی کہ کائنات اپنے عمل میں بے رحم اور Indifferent ہے۔ شیر جب ہرن کو چیرتا ہے تو کائنات کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کا کہنا تھا کہ انسان نے اپنی بقا کے لیے انصاف کا ایک تصور ایجاد کیا تاکہ وہ ایک دوسرے کو مار نہ ڈالیں۔
مفتی صاحب نے اس کے جواب میں جو فری ول کا لبادہ اوڑھا، وہ دراصل اسرائیلی بربریت کو ایک منطقی جواز فراہم کرنے کے مترادف ہو گیا۔ مولوی کی مجبوری یہ تھی کہ اگر وہ یہ تسلیم کر لے کہ خدا اس ظلم کو نہیں روک رہا، تو اس کے قادرِ مطلق ہونے پر سوال اٹھتا ہے، اور بلکل یہی اعتراض جاوید صاحب نے اٹھایا کہ پھر خدا قادر مطلق کیسے ہوا۔ اگر وہ کہے کہ خدا کی مرضی یہی ہے تو خدا کے رحیم ہونے پہ سوال اٹھتا ہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ مولوی نے خدا کو بچانے کے لیے انسانی تڑپ اور احساس کو قربان کر دیا جبکہ ملحد نے انسانی احساس کو بچانے کے لیے خدا کو ہی کائنات سے نکال باہر کیا۔
جاوید اختر کا موقف یہ تھا کہ اگر خدا محض ایک خاموش تماشائی ہے جو امتحان کے نام پر بچوں کا قتلِ عام دیکھ رہا ہے، تو ایسے خدا کا وجود بے معنی ہے۔۔


یہاں بحث کا دوسرا بڑا ٹکراؤ ہوا جسے فلسفے میں Euthyphro Dilemma سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔
مولوی نے یہاں Divine Command Theory پیش کی اور ان کے نزدیک اخلاقیات وہ ہے جو خدا نے طے کر دی۔ اگر خدا کہے کہ یہ صحیح ہے تو وہ صحیح ہے، چاہے انسانی عقل اسے تسلیم کرے یا نہ کرے۔ ان کے نزدیک بغیر مذہب کے اخلاقیات کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں کیونکہ پھر ہر کوئی اپنی مرضی کی اخلاقیات بنا لے گا۔
جاوید اختر نے اخلاقیات کو ارتقائی اور سماجی قرار دیا۔ ان کا استدلال تھا کہ سچ بولنا، رحم کرنا اور قتل نہ کرنا انسانوں نے آپس میں مل کر ایک سماجی معاہدے کے تحت سیکھا ہے تاکہ معاشرہ تباہ نہ ہو۔ انہوں نے مذہب کو اخلاقیات کا دشمن ثابت کرنے کے لیے تاریخ کی جنگوں اور مذہبی شدت پسندی کی مثالیں دیں کہ کیسے مقدس احکامات کے نام پر خون بہایا گیا۔
اس مرحلے پر پہنچ کر یہ بحث ایک عجیب مضحکہ خیزی کا شکار ہو جاتی ہے۔
جاوید اختر جب اکثریت کی اخلاقیات کی بات کرتے ہیں، تو وہ بھول جاتے ہیں کہ اگر کل Majority کسی نسل کشی کو صحیح قرار دے دے ، جیسا کہ مفتی صاحب نے مثال دی کہ جیسے جرمنی میں نازیوں کے وقت ہوا تو ان کے فلسفے کے پاس اسے روکنے کی کوئی Absolute بنیاد نہیں ہوگی۔
یہاں وہ زمین کی اکثریت کی جانب گئے تو مولوی نے اسی اکثریت کے عقیدے کے مطابق خدا کے وجود کو ماننے کو ضروری قرار دیا۔ بعد ازاں جاوید صاحب نے اکثریت کے اس فلسفے پہ نظر ثانی کی اور خود کہا کہ انھوں نے اکثریت کا لفظ غلط استعمال کیا۔


اس کے علاوہ بھی کئی پہلو چھیڑے گئے جیسے جاوید اختر صاحب کا اصرار رہا کہ اگر خدا ثابت ہو جائے تو faith کی ضرورت نہیں جبکہ مفتی صاحب نے faith اور belief کے درمیان فرق کی ان کو تعریفوں کو ماننے سے انکار کر دیا۔
یہ پوری بحث ہی اس لیے فضول ہے کہ مولوی عقل کو استعمال کر کے اس مقام تک پہنچنا چاہتا ہے جو صرف وجدان یا ایمان سے حاصل ہوتا ہے۔ اور ملحد عقل کو استعمال کر کے اس چیز کی نفی کرنا چاہتا ہے جو عقل کی حدود سے باہر ہے۔
دونوں ایک ہی لاٹھی سے ایک دوسرے کو ہانکنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خدا کا ثبوت منطق کی ممکن اور واجب کی اصطلاحات میں نہیں بلکہ انسان کی اس لاچاری میں ہے جہاں اس کی عقل جواب دے جاتی ہے۔
فلسفے کی دنیا میں اس بحث کو حل کرنے کی کوششیں صدیوں سے جاری ہیں جیسے عانوئل کانٹ کانٹ نے واضح کر دیا تھا کہ انسانی عقل کی ایک حد ہے۔ ہم صرف ان اشیاء کو سمجھ سکتے ہیں جو Space اور Time کے دائرے میں ہوں۔ خدا اس دائرے سے باہر ہے لہذا عقل نہ اسے ثابت کر سکتی ہے نہ ہی رد۔


برٹرینڈ رسل کے مطابق خدا کا وجود ایک ایسا مفروضہ ہے جس کے حق میں یا خلاف ثبوت فراہم کرنا عقلِ انسانی کے بس کی بات ہی نہیں یعنی وہ Agnosticism کے قائل ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا کا وجود کبھی بھی سائنسی لیبارٹری یا منطقی مباحثے کا موضوع رہا ہی نہیں ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کسی شخص نے بھی ریاضی کے فارمولے کی طرح خدا کے وجود کا ثبوت دیکھ کر سجدہ نہیں کیا۔ مذہب کی بنیاد ایمان بالغیب یعنی بن دیکھے مان لینے پر ہے۔ اگر خدا ریاضی کے اصولوں کی طرح ثابت ہو جائے تو پھر ایمان کی کوئی فضیلت ہی باقی نہیں رہے گی بلکہ وہ ایک حقیقت بن جائے گی۔ ملحد کا یہ مطالبہ کہ خدا کو خوردبین کے نیچے دکھایا جائے، اتنا ہی مضحکہ خیز ہے جتنا مولوی کا یہ دعویٰ کہ وہ منطق سے خدا کو ثابت کر دے گا۔
مفتی شمائل ندوی اور جاوید اختر کی بحث دراصل دو ایسی ریل گاڑیوں کا ٹکراؤ تھا جو الگ الگ پٹریوں پر دوڑ رہی تھیں۔ مولوی جس خالق کو ثابت کرنے نکلا ہے وہ منطق کی قید میں نہیں آتا اور ملحد جس عدم وجود کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے وہ اس کائنات کی وسعتوں کو محض مادی آنکھ سے دیکھنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔


آخر میں دونوں کیمپ میں خوشی منائی گئی مگر جیت کسی کی نہیں ہوئی بلکہ بس دو گھنٹے تک لفظوں کی جگالی ہوئی کیونکہ خدا عقل کی دلیل نہیں بلکہ دل کا تیقن ہے۔ جہاں عقل ختم ہوتی ہے وہیں سے یا تو انکار شروع ہوتا ہے یا اعتبار۔


The Existence of God: Proving and Denying - Reason and Faith in the Unseen. Opinion by: Mohd Nasir Siddiqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں