ریاستِ مہاراشٹر کی تاریخ محض جغرافیہ یا سیاست تک محدود نہیں، بلکہ یہ تہذیب، مذاہب، تجارت اور روحانیت کے باہمی امتزاج کا نتیجہ ہے۔ موجودہ ریاستِ مہاراشٹر یکم مئی 1960ء کو لسانی بنیاد پر وجود میں آئی، جب سابقہ بمبئی ریاست کو تقسیم کر کے مہاراشٹر اور گجرات بنائے گئے۔ تاہم اِس جدید ریاست کے پیچھے ہزاروں برس پر محیط تاریخی ورثہ موجود ہے۔ مغربی مہاراشٹر اور ساحلی پٹی کو عموماً ''کوکن'' یا ''تَل کوکن'' کہا جاتا ہے، جو ہمیشہ سے سمندری تجارت، ثقافتی میل جول اور مذہبی رواداری کا مرکز رہی ہے۔ ممبئی، تھانہ، کلیان، پالگھر، رائے گڑھ، رتنگیری اور سندھودرگ کے علاقے اسی کوکن پٹی میں آتے ہیں۔ چونکہ کوکن ساحلی علاقہ ہے، یہاں عرب، ایرانی اور افریقی تاجروں کی آمد بہت قدیم زمانے سے رہی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اس خطے کی سماجی ساخت میں ابتدا ہی سے بین الاقوامی اثرات شامل رہے ہیں۔
مہاراشٹر میں اسلام کی آمد
مہاراشٹر میں اسلام کی آمد محض فوجی فتوحات کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ اس کی بڑی وجہ تجارت، اخلاق اور دعوت و تبلیغ رہی۔ اسلام سے پہلے بھی عرب تاجر کوکن کے ساحلی شہروں جیسے چول، دابھول، تھانہ اور سندھو دریا کے قریب علاقوں میں آتے جاتے تھے۔ اسلام کے ظہور کے بعد انہی تاجروں نے مسلمان ہو کر ہندوستان میں تجارت اور دعوت کے لیے آمد جاری رکھی۔ ان تاجروں کی دیانت داری، سچائی اور وعدے کی پابندی نے مقامی آبادی پر گہرا اثر ڈالا۔ چول، دابھول، سوپارہ، کولابہ، بھیم اور تھانہ جیسے شہر اسلام کے ابتدائی مراکز بن گئے۔ یہاں عرب، ایرانی اور مقامی نو مسلم آباد ہوئے اور مساجد، مدارس و تجارتی مراکز قائم ہوئے۔ رفتہ رفتہ یہ ثقافتی و مذہبی اثرات اندرونِ ملک تک پھیلنے لگے۔
مسلمانوں کی سادہ زندگی، مساوات کا تصور، ذات پات کے امتیاز سے پاک نظام اور اخلاقی برتری نے خاص طور پر نچلے طبقے کے ہندوؤں کو متاثر کیا؛ اسی لئے بہت سے لوگوں نے ذات پات کے ظلم سے نجات پانے کے لیے اسلام قبول کیا۔ ابتدائی دور میں ہندو-مسلم تعلقات عمومی طور پر پرامن رہے، مگر بعد کے ادوار میں سیاسی مفادات، معاشی رقابت اور بیرونی سازشوں کے سبب کشیدگیاں بھی پیدا ہوئیں۔
تاریخی شواہد کے مطابق اسلام سب سے پہلے ساتویں ہجری میں جنوبی ہند کی ریاست کیرلا میں رسول اللہ ﷺ کے زمانے ہی میں تجارتی روابط کے ذریعے پہنچ چکا تھا۔ بعد ازاں خلیفہء ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانِ خلافت 15ویں ہجری میں والی بحرین و عمان حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی حضرت حکم بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر کو فتح و تجارت کی غرض سے کوکن کے ساحلی علاقوں تھانہ، بھروچ اورچیمبورکی طرف بھیجا۔پھر92ویں ہجری میں اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک کے دور میں سترہ سالہ محمد بن قاسم کی فتح سندھ (712ء) نے برصغیر میں اسلام کے سیاسی و تہذیبی اثرات کو وسعت دی، جس سے کوکن اور مہاراشٹر کی موجودہ مسلم بستیوں کو استحکام ملا۔ مؤرخ بلاذری کی فتوح البلدان اور دیگر عربی و فارسی تاریخی مصادر اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ ہندوستان میں اسلام کی اشاعت تدریجی، پرامن اور مقامی ثقافت سے ہم آہنگ رہی۔
مہاراشٹر میں غیر اسلامی و اسلامی سلطنتیں
قدیم زمانے میں موجودہ مہاراشٹرکا بیشتر علاقہ (Deccan)کہلاتاتھا۔ اسلام کی آمد سے قبل یہاں مختلف طاقتور ہندو سلطنتوں کی حکمرانی رہی، جن میں ساتواہن، واکاٹک، چالوکیہ، راشٹرکوٹ اور یادو خاندان نمایاں ہیں۔ ان سلطنتوں نے دکن میں مضبوط سیاسی نظم، مقامی تہذیب اور مذہبی روایات کو فروغ دیا۔تیرھویں صدی میں دہلی سلطنت نے دکن کی جانب پیش قدمی کی، جس کے نتیجے میں یہاں مسلم اقتدار کا آغاز ہوا۔ علاؤالدین خلجی اور بعد ازاں محمد بن تغلق کے عہد میں دکن پر دہلی سلطنت کا اثر مضبوط ہوا۔
1347ء میں بہمنی سلطنت کے قیام نے دکن کی تاریخ کا رخ بدل دیا۔ بہمنی سلاطین نے ایک منظم انتظامی ڈھانچہ قائم کیا اور علم، فنِ تعمیر اور مذہبی رواداری کو فروغ دیا۔ تاہم داخلی اختلافات، جانشینی کے تنازعات اور طاقت کی کشمکش کے باعث بہمنی سلطنت زوال پذیر ہوئی اور اس کے بطن سے پانچ دکنی ریاستیں وجود میں آئیں۔ ان میں نظام شاہی (احمد نگر)، عادل شاہی (بیجاپور) اور قطب شاہی (گولکنڈہ) خصوصاً کوکن اور مغربی مہاراشٹر میں سیاسی و ثقافتی اعتبار سے مؤثر رہیں۔ اسی دور میں علما، صوفیہ اور تاجر بڑی تعداد میں اس خطے میں آئے، جس سے دینی مراکز، تجارتی سرگرمیوں اور سماجی ہم آہنگی کو تقویت ملی۔ انتظامیہ، تجارت، فنِ تعمیر اور مذہبی آزادی نے مقامی سماجی ڈھانچے کو مضبوط کیا۔
سترھویں صدی میں دکن میں مغلوں اور مراٹھوں کے درمیان طویل سیاسی و عسکری کشمکش جاری رہی۔ شاہجہان اور خصوصاً اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں مغل اقتدار دکن تک وسیع ہو گیا، مگر اسی زمانے میں مراٹھا طاقت بھی ابھر کر سامنے آئی۔ چھترپتی شیواجی مہاراج نے مراٹھوں کو منظم کر کے ایک مضبوط ریاست کی بنیاد رکھی اور کوکن و مغربی مہاراشٹر میں ایک نئے سیاسی دور کا آغاز کیا۔ اس کے باوجود، مراٹھا اقتدار کے زمانے میں بھی کوکن اور ساحلی علاقوں میں مسلمان آبادی، دینی مراکز اور صوفی روایت بڑی حد تک برقرار رہی، جو اس خطے کی تاریخی مذہبی ہم آہنگی کی واضح مثال ہے۔
اولیائے کوکن اور روحانی روایت
کوکن کے خطے میں اسلام کے فروغ میں صوفیائے کرام کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ان بزرگوں نے مقامی زبان، رسوم و رواج اور سماجی ساخت کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہ صرف دینی تعلیم دی بلکہ عدل، اخلاق، سماجی اصلاح اور انسانی خدمت کو اپنی دعوت کا محور بنایا۔ اسی حکیمانہ اور نرم طرزِ دعوت کے باعث اسلام عوام کے دلوں میں گھر کرتا چلا گیا۔ یہاں ہم کوکن کے چند نمایاں اولیائے کرام کا مختصر تعارف پیش کرتے ہیں۔
مخدوم فقیہ علی مہائمی شافعی علیہ الرحمہ
مخدوم فقیہ علی مہائمی علیہ الرحمہ(ولادت: 10 محرم 776ھ— وفات: 8 جمادی الاولیٰ 835ھ)آٹھویں صدی ہجری کے ممتاز صوفی بزرگ، جید فقیہ، مفسرِ قرآن اور کثیرالتصانیف عالم تھے۔ برصغیر میں فقہِ شافعی کے اولین اور مستند شارحین میں آپ کا شمار کیا جاتا ہے۔ آپ کا اصل نام علاء الدین علی، کنیت ابو الحسن اور لقب زین الدین تھا۔ آپ کا تعلق نوائط قبیلے سے تھا، جو مدینہ منورہ سے ہجرت کر کے کوکن (موجودہ ممبئی) میں آباد ہوا۔آپ کی ولادت ماہم میں ہوئی۔ والدِ محترم مولانا شیخ احمد ایک جلیل القدر عالم اور متمول تاجر تھے، جن کی نگرانی میں آپ نے کم عمری ہی میں قرآن، حدیث، فقہ، تفسیر اور دیگر علومِ عقلیہ و نقلیہ میں مہارت حاصل کر لی۔
آپ کو ہندوستان میں قرآنِ مجید کی اولین باقاعدہ تفسیر تحریر کرنے کا شرف حاصل ہے، جو تبصیر الرحمٰن یا تفسیرِ مہائمی کے نام سے معروف ہے۔ اس تفسیر کو بعد کے اکابر علما، بالخصوص شاہ ولی اللہ دہلوی نے نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ آپ نے سو سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔ روحانی اعتبار سے آپ سلسلہ ء کبرویہ سے وابستہ تھے اور شریعت و طریقت کے جامع عالم تھے۔تغلقی عہد اور گجرات کے سلطان احمد شاہ (سلطنتِ مظفریہ) کے زمانے میں آپ قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز رہے، نیز سلطان کی ہمشیرہ سے آپ کا نکاح بھی ہوا۔ 8 جمادی الاولیٰ 835ھ کو آپ کا وصال ہوا اور آپ ماہم ہی میں مدفون ہوئے۔ آج بھی آپ کا مزار عقیدت و احترام کا مرکز ہے، جہاں ہر سال عرس کے موقع پر بلا تفریقِ مذہب لاکھوں افراد حاضری دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر سال دسمبر میں ماہم میلہ بھی منعقد ہوتا ہے، جو کوکن کی مشترکہ روحانی و ثقافتی روایت کی علامت ہے۔
پیر حاجی علی شاہ بخاری علیہ الرحمہ
پیر حاجی علی شاہ بخاری علیہ الرحمہ المعروف حاجی علی با با (وفات: تقریباً 1431ء)پندرہویں صدی عیسوی کے مشہور صوفی بزرگ، صاحبِ کرامت ولی اور سلسلہء کبرویہ و سہروردیہ سے وابستہ تھے۔ آپ کا تعلق ازبکستان کے تاریخی شہر بخارا کے ایک متمول تاجر خاندان سے تھا۔ دنیاوی تجارت اور دولت ترک کر کے آپ نے حجِ بیت اللہ کا ارادہ کیا، اور سفرِ حج کے بعد برصغیر پہنچ کر موجودہ ممبئی کے علاقے ورلی میں قیام فرمایا۔آپ نے اپنی پوری زندگی دعوتِ اسلام، روحانی اصلاح اور خدمتِ خلق کے لیے وقف کر دی۔ روایات کے مطابق آپ نے وصیت کی تھی کہ وفات کے بعد آپ کو دفن نہ کیا جائے بلکہ کفن سمندر کے حوالے کر دیا جائے۔ چنانچہ جس مقام پر آپ کا جسد یا کفن آ کر ٹھہرا، وہی جگہ بعد میں آپ کی درگاہ کی بنیاد بنی۔ 16 ربیع الآخر کو آپ کا وصال ہوا۔آج سمندر کے ساحل کے قریب ایک چھوٹے ٹاپو پر واقع حاجی علی درگاہ ممبئی کی شناخت بن چکی ہے، جہاں بلا تفریقِ مذہب لاکھوں عقیدت مند حاضری دیتے ہیں۔ یہ درگاہ کوکن کی صوفی روایت، مذہبی رواداری اور انسانی یکجہتی کی روشن علامت ہے۔
حضرت حاجی ملنگ شاہ باباعلیہ الرحمہ
حضرت حاجی عبدالرحمٰن مہاجر مکی علیہ الرحمہ المعروف حاجی ملنگ شاہ بابا بارہویں صدی عیسوی کے جلیل القدر صوفی بزرگ تھے۔ آپ کی ولادت 30 ربیع الاول 623ھ کو طنطا، مصر میں ہوئی۔ روحانی اعتبار سے آپ سلسلہ ء احمدیہ بدویہ سے منسلک تھے اور عظیم صوفی بزرگ حضرت شیخ احمد بدوی علیہ الرحمہ کے مرید و خلیفہ تھے۔روایات کے مطابق جب آپ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو وہیں آپ کو حکمِ الٰہی ہوا کہ دعوت و تبلیغ کے مقصد سے ہندوستان کا سفر کریں۔ چنانچہ اپنے شیخ حضرت احمد بدوی علیہ الرحمہ کے ارشاد پر آپ کوکن تشریف لائے اور یہیں سے دعوتِ اسلام کا سلسلہ شروع کیا۔ آپ اپنے مریدوں کے ساتھ موجودہ مہاراشٹر کے علاقے کلیان کے قریب برہمن واڑی گاؤں پہنچے۔ اس وقت یہ علاقہ خوف، بدامنی، فتنہ و فساد اور سحر و جادو کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔حضرت حاجی ملنگ شاہ باباعلیہ الرحمہ نے اپنی روحانی قوت، اعلیٰ اخلاق، اصلاحی تعلیمات اور دعوتِ خیر کے ذریعے لوگوں کے دلوں سے خوف و وہم دور کیا اور علاقے میں امن و اطمینان کی فضا قائم کی۔ مقامی روایات کے مطابق اس علاقے کے راجہ نل آپ کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوئے اور اپنی بیٹی کا نکاح آپ سے کر دیا۔ اسی طرح ایک نیک سیرت برہمن کیتکر خاندان کا ذکر بھی ملتا ہے جس نے آپ کی خدمت کی۔ آپ نے اس خاندان کو دعاؤں سے نوازا، اور یوں یہ مقام ہندو مسلم ہم آہنگی اور باہمی احترام کی ایک روشن مثال بن گیا۔
آپ کا وصال 7 صفر المظفر690ھ میں ملنگ گڑھ کی پہاڑی پر ہوا، جہاں بعد میں آپ کی درگاہ قائم کی گئی جو آج حاجی ملنگ درگاہ کے نام سے معروف ہے۔ یہ درگاہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوؤں کے لیے بھی عقیدت اور احترام کا مرکز ہے۔ آج بھی یہاں ہندو وہیوتدار (متصرف) اور مسلم متولی مشترکہ طور پر درگاہ کے انتظامات انجام دیتے ہیں، جو کوکن اور مہاراشٹر کی صوفی روایت میں مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کی ایک نادر مثال ہے۔حضرت حاجی ملنگ شاہ باباعلیہ الرحمہ کا سالانہ عرس عموماً ماہِ شعبان المعظم یا بعض روایات کے مطابق ماہِ رجب المرجب میں نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے، جس میں بلا تفریقِ مذہب بڑی تعداد میں عقیدت مند شرکت کرتے ہیں۔
حضرت سید ملک حسین شاہ قادری علیہ الرحمہ
حضرت سید ملک حسین شاہ قادری علیہ الرحمہ المعروف دیوان شاہ بابا بھیونڈی کے قدیم اور صاحبِ کرامت صوفی بزرگ تھے۔ آپ کا تعلق سلسلہ ء قادریہ سے تھا۔ روایات کے مطابق آپ کے خاندان کی اصل نسبت عرب یا عراق سے تھی، جہاں سے ہجرت کر کے یہ خاندان دکن میں آباد ہوا۔ آپ کی ولادت کرنول،آندھرا پردیش میں ہوئی۔آپ کا سلسلہء نسب سولہویں پشت پر عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے۔ آپ حسنی و حسینی سید تھے۔ تاریخی روایات کے مطابق آپ کے خاندان کو سلاطینِ احمد نگر نظام شاہی اور بیجاپور عادل شاہی کی جانب سے مختلف جاگیریں اور سرکاری مناصب عطا کیے جاتے رہے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ 1636ء میں آپ پہلے نظام شاہی سلطنت کے زیرِ انتظام رہے، بعد ازاں عادل شاہی سلطنت کے ساتویں سلطان محمد عادل شاہ کے عہد میں وزارتِ مالیہ میں دیوان کے منصب پر فائز ہوئے۔ اسی دور میں آپ کو کوکن کی جاگیریں اور دیوانی عطا کی گئی، اور آپ دکن سے کوکن آ کر انتظامی و سیاسی ذمہ داریاں انجام دینے لگے۔
جب پرتگیزی طاقتوں نے کوکن پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو آپ نے فوجدار ملا احمد نائطی کے ساتھ مل کر ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انہیں شکست دی۔ اکتوبر 1657ء میں جب چھترپتی شیواجی مہاراج نے کوکن کے کلیان اور بھیونڈی پر تسلط قائم کیا تو حضرت دیوان شاہ باباعلیہ الرحمہ نے اپنے سرکاری عہدے سے سبکدوشی اختیار کر لی اور عزلت و درویشی کو ترجیح دی۔21جمادی الآخر 1076ھ بمطابق 1665ء میں آپ نے اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ فرمایا۔
آپ نہایت زاہد، متقی اور شریعت و طریقت کے جامع بزرگ تھے۔ عوام الناس کے مسائل سننا، مظلوموں کی داد رسی کرنا اور لوگوں کی روحانی رہنمائی کرنا آپ کی زندگی کا مستقل معمول تھا۔ چونکہ آپ سرکاری طور پر دیوان کے منصب پر فائز رہے، اسی نسبت سے آپ دیوان شاہ کہلائے، جبکہ درویشی میں شانِ استغنا کے باعث آپ کو شاہ کا لقب ملا۔روایات کے مطابق آپ کے حسنِ اخلاق، دعا اور روحانی اثر سے بہت سے لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں اور کئی افراد آپ کے دستِ حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی آپ سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔ وصال کے بعد آپ کا مزار بھیونڈی میں مرجعِ خلائق بن گیا، جہاں صدیوں سے عرس اور زیارت کا سلسلہ جاری ہے۔ مقامی تاریخ میں آپ کو بھیونڈی کی روحانی شناخت قرار دیا جاتا ہے، اور آپ کا سالانہ عرس آج بھی پورے احترام و عقیدت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
موجودہ مہاراشٹر اور مسلمان
آج کا مہاراشٹر آبادی، صنعت، تجارت، تعلیم اور سیاست کے اعتبار سے ہندوستان کی اہم ترین ریاستوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں ہندو اکثریت میں ہیں، تاہم مسلمان، عیسائی، بودھ، جین اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی نمایاں تعداد میں آباد ہیں۔ مہاراشٹر کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب تقریباً 11 تا 12 فیصد کے درمیان ہے، جبکہ کوکن، ممبئی، تھانہ اور بھیونڈی جیسے علاقوں میں یہ شرح نسبتاً کہیں زیادہ پائی جاتی ہے۔
کوکن کے خطے میں مسلمان صدیوں سے سماجی، تعلیمی اور معاشی سطح پر سرگرم اور مؤثر کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ یہاں مسلمانوں نے ہزاروں سرکاری و نجی اسکولوں، مدارس اور دینی و عصری تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی، جن سے نہ صرف مسلم بلکہ غیر مسلم طبقہ بھی مستفید ہوتا رہا ہے۔ سماجی فلاح و بہبود کے میدان میں بھی مسلمانوں نے نمایاں خدمات انجام دیں اور تعلیم، صحت، رفاہِ عامہ اور قدرتی آفات کے مواقع پر امدادی سرگرمیوں کے لیے سیکڑوں سماجی و رفاہی تنظیمیں اور ٹرسٹ قائم کیے۔
سیاسی میدان میں بھی مہاراشٹر خصوصاً کوکن کے مسلمان مکمل طور پر غیر فعال نہیں رہے، بلکہ مختلف ادوار میں بلدیاتی اداروں سے لے کر اسمبلی اور پارلیمنٹ تک اپنی نمائندگی درج کراتے رہے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے مہاراشٹر کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ یہاں عبدالرحمن انتولے جیسے قدآور مسلم رہنما نے وزارتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالا، جو ریاست کی کثرتِ ثقافت، جمہوری روایت اور آئینی مساوات کی ایک اہم مثال ہے۔ اسی طرح ممتاز دانشور و سیاست دان رفیق زکریا، ریاستی کابینہ کے سابق سینئر وزیر عارف نسیم خان، مرکزی کابینہ کے سابق رکن غلام مرتضیٰ بناتوالا اور سماجی و فکری اصلاح کے علمبردار حامد دلوائی جیسی شخصیات اس حقیقت کی نمائندگی کرتی ہیں کہ مہاراشٹر کے مسلمان نہ صرف سماجی و تعلیمی بلکہ سیاسی و انتظامی میدان میں بھی ریاست اور ملک کی تعمیر میں سرگرم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔مجموعی طور پر مہاراشٹر کے مسلمان اس ریاست کی معاشرتی تشکیل، تہذیبی تنوع اور جمہوری عمل کا ایک فعال اور ناگزیر حصہ ہیں، اور آج بھی مختلف چیلنجز کے باوجود اپنی شناخت، کردار اور خدمات کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
کتابیات
کتاب الہند، ابو ریحان البیرونی
فتوح البلدان، امام احمد بن یحییٰ بلاذری
لبّ اللباب فی تحریر الانساب، امام جلال الدین سیوطی
جامع تاریخِ ہند، خلیق احمد نظامی
تاریخِ کوکن، ڈاکٹر مومن محی الدین
تذکرہ دیوان شاہ بابا، ڈاکٹر مومن محی الدین
تحفۃ المجاہدین، شیخ زین الدین مخدوم ثانی ملیباری
حضرت مخدوم مہائمی، محمد انور عالم
تاریخِ فرشتہ، محمد قاسم فرشتہ
تاریخِ کلیان، مفتی عصمت بوبیرے
مہاراشٹر کی مختصر تاریخ، پرویز عالم
ممبئیِ عظمیٰ کی مختصر تاریخ، توفیق احسن برکاتی
Ubaid Ansari
H/No: 633, Ammara Manzil, Near Sahil Hotel,
Gouri Pada, Dandekarwadi (Po), Bhiwandi, Thane (Dt),
Maharashtra - 421302





کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں