ہندوستانی جمہوریت بمقابلہ پاکستانی جمہوریت اور قولِ جناح ۔۔۔؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2025-12-26

ہندوستانی جمہوریت بمقابلہ پاکستانی جمہوریت اور قولِ جناح ۔۔۔؟

india-vs-pakistan-democracy-jinnah-vision-assumptions-modern-reality

راقم الحروف مکرم نیاز نے اپنی فیس بک ٹائم لائن پر دونوں پڑوسی ممالک کے موازنے/تقابل سے ممکنہ گریز کی پالیسی پر عمل کیا اور سماجی/لسانی سطح پر بہتر روابط و تعلقات کی برقراری کو ترجیح دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن بعض اوقات اظہارِ خیال ضروری ہو جاتا ہے ۔۔۔ خصوصاً اس وقت جب مذہبی یا سیاسی شخصیات کو تقدس کا درجہ دے دیا جائے اور ان کے اقوال یا نظریات کا معروضی، دانشورانہ اور عصری طرز پر جائزہ لینے کے بجائے انہیں جوں کا توں قبول کر لیا جائے۔

ہمارے نزدیک یہ بحث ہی فضول ہے کہ گزرے وقت کی سیاسی شخصیات میں کس کا درجہ بڑا تھا اور کیوں؟ اسی طرح اُس دور کے حالات کے مطابق جن نظریات کی پیداوار ہوئی (مثلاً دو قومی نظریہ)، ان پر آج کے حالات کے مطابق بحث غیرضروری ہی نہیں بلکہ وقت کا صریح زیاں ہے۔ دیکھئے، جب دو ملک (بلکہ تین ملک) وجود میں آ گئے اور ہر ملک اپنے اپنے شہریوں کے ساتھ سیاسی، سماجی، ثقافتی، مذہبی، تعلیمی و معاشی سطح کی اچھی/خراب زندگی کی راہوں پر آگے بڑھ رہا ہے، اس پر نظر رکھنے کے بجائے ہم ماضی میں جا کر آخر کیوں کھوج لگائیں کہ یوں ہوتا تو ووں ہوتا؟؟
پڑوسی ملک پاکستان کے ہمارے ایک عزیز صحافی و کالم نگار دوست نے ہندوستانی جمہوریت پر سوال کھڑا کرتے ہوئے ایک کالم لکھا ۔۔۔ جسے چند دیگر نے بھی اپنی اپنی وال پر شئر کیا۔ ایسے کالم یہاں فیس بک پر تقریباً یر روز نظر سے گزرتے ہی ہیں، انہیں ہم پڑھ کر بھی اس لیے نظرانداز کرتے ہیں کہ وقت کی کمی ہے، کون ان بحثوں میں الجھے۔ مگر اس بار لکھنے والے نہ صرف ہمارے خاص دوست ہیں بلکہ انہوں نے کچھ ایسی باتیں لکھ ڈالیں جن کا جواب دینا کسی ہندوستانی اردو داں کا بھی فریضہ بنتا ہے۔ کالم نگار نے مولانا ابوالکلام آزاد اور محمد علی جناح کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا کہ ۔۔۔
"۔۔۔ لوگ مولانا آزاد کو گلوریفائی کرتے ہیں۔ مولانا آزاد ایک عالم اور سکالر کے طور پر قابل احترام ہیں، مگر بہرحال سیاسی طور پر ان کی فکر میں نہ صرف نقائص تھے بلکہ وہ کانگریس کو سمجھ ہی نہیں پائے۔۔۔۔۔ اس کے برعکس قائداعظم جو بنیادی طور پر کوئی عالم یا بڑے سکالر نہیں تھے، وہ ایک اعلیٰ درجے کے وکیل اور غیر معمولی فراست والے سیاستدان تھے۔ قائداعظم کی بھارتی جمہوریت اور وہاں کی ہندو قیادت کے بارے میں جو ریڈنگ تھی، وہ حیران کن حد تک درست نکلی۔"
مولانا آزاد کے حوالے سے جو کہا گیا ۔۔۔ اس کا جواب ہمارے قابل و فاضل دوست رشید ودود بہتر دے سکتے ہیں لہذا یہ کام ان کے حوالے سمجھیے۔ البتہ دلچسپ بات یہ ہے کہ کالم نگار نے مولانا آزاد کو "گلوریفائی" کرنے پر تشویش تو جتائی مگر جب یہی کام وہ اپنے قائد جناح کے حوالے سے کرتے ہیں تو ایسا کرنا انہیں عین بجا لگتا ہے۔ ہے ناں دلچسپ بات؟
سوال یہ ہے کہ۔۔۔ 1943 میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے محمد علی جناح کے صدارتی خطبہ کا جو حصہ نقل کیا گیا ۔۔۔ کیا وہ سو فیصد درست نکلا ہے؟ ہمارے دوست نے وہ قولِ جناح کچھ یوں نقل کیا ہے:

""جمہوریت سے کانگریس کی مراد ہندو راج ہے تاکہ مسلمانوں پر غالب آیا جائے جو کہ ایک بالکل مختلف قوم ہیں ،ثقافت میں اور ہر چیز میں مختلف ہیں۔ کانگریس صرف ہندو قوم پرستی اور ہندو راج کے لئے کام کر رہی ہے ۔ ہم نے جمہوریت تیرہ سو سال پہلے سیکھ لی۔ جمہوریت ہمارے خون میں ہے جبکہ جمہوریت ہندو معاشرے سے اتنا ہی دور ہے جتنا قطب شمالی۔ آپ میں سے تو ایک زات کا ہندو دوسری زات کے ہندو سے پانی تک نہیں پیتا۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟ کیا یہی دیانت داری ہے ؟ہم جمہوریت کے حق میں ہیں، مگر ایسی جمہوریت کے حق میں نہیں جو پورے ملک کو گاندھی جی کے آشرم میں تبدیل کر دے۔ ایک ایسے معاشرے اور ایسی قوم میں تبدیل کر دے جس میں ایک مستقل اکثریت ایک مستقل اقلیت میں رہنے والی دوسری قوم کو تباہ یا اقلیت کو عزیز ہر شے کو برباد کر کے رکھ دے۔""

ہمارے نزدیک جناح صاحب کا متذکرہ بیان نہ صرف ایک سیاسی بیان تھا بلکہ اس میں سیاسی مبالغہ آرائی (بحوالہ: قطب شمالی) بھی شامل تھی۔ جناح صاحب نے اپنے "دو قومی نظریے" کو تقویت دینے اور تقسیمِ ملک کو جواز عطا کرنے کی خاطر اسے پیش کیا تھا۔ البتہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ۔۔۔ اس وقت کی سیاسی صورتحال میں مسلم اقلیت کی حقیقی تشویش اور ہندو معاشرے کے حقیقی مسائل (ذات پات کا نظام) کو اس بیان کے ذریعے اجاگر کیا گیا تھا۔ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ جمہوریت کا بنیادی ستون ضرور ہے لیکن ۔۔۔ جمہوریت کی تعریف اس ایک ایشو سے کہیں زیادہ وسعت رکھتی ہے۔ جمہوریت، دراصل ایک کثیر جہتی اور پیچیدہ نظام ہے جس میں کئی عناصر شامل ہوتے ہیں:
** آزادانہ اور منصفانہ انتخابات: باقاعدگی سے انتخابات کا انعقاد جہاں تمام شہریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہو۔
** آزادی اظہار اور اجتماع: شہریوں کو آزادانہ طور پر بولنے، لکھنے اور پرامن طور پر اجتماع کرنے کا حق۔
** قانون کی حکمرانی اور آزاد عدلیہ: تمام شہریوں کے لیے مساوی قانون کا نفاذ اور ایک خودمختار عدالتی نظام۔
** شہری آزادیوں کا تحفظ: بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت۔
** آئینی بالادستی: حکومتی اختیارات کی آئین کے ذریعے تحدید۔
** کثیر الجماعتی نظام: مختلف سیاسی جماعتوں کا وجود اور انہیں مقابلہ کرنے کا حق۔
** اقلیتوں کے حقوق: اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی اور سیاسی حقوق کا تحفظ جمہوریت کا ایک لازمی اور اہم جزو ضرور ہے، لیکن یہ جمہوریت کی واحد یا مکمل تعریف نہیں ہے۔ ایک ملک جمہوری ہو سکتا ہے لیکن اگر وہ اقلیتوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتا تو اسے "خامیوں والی جمہوریت" یا "جزوی طور پر آزاد" قرار دیا جا سکتا ہے، جیسا کہ حال میں ہندوستان کو بھی انہی مسائل کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے۔


جناح صاحب کا متذکرہ قول نقل کرکے، کالم نگار جب یہ لکھتے ہیں:
"قائد اعظم کا بیاسی سال قبل پرانا یہ خطاب پڑھ کر آج کے بھارت کو دیکھیں تو بالکل یہی منظرنامہ نظر آئے گا۔"
تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی جمہوریت کی تعریف کو صرف "اقلیتوں کے تحفظ" والے عنصر تک محدود کر دیا ہے۔
یہاں ایک سادہ سا سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ: کیا 1947 کی آزادی کے بعد سے ہندوستان کبھی بھی دنیا کی ٹاپ دس یا ٹاپ پچاس جمہوریت پسند ممالک میں شامل نہیں رہا؟
واضح رہے کہ مختلف عالمی اشاریے، معیار وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں، اور ان اداروں نے جمہوریت کے مختلف پہلوؤں (مثلاً: شہری آزادی، سیاسی شرکت، حکومتی کارکردگی، پریس کی آزادی) کی بنیاد پر درجہ بندی کی ہے۔
آزادی کے ابتدائی چند دہائیوں میں (1950 تا 1970)، ہندوستان کو دنیا کی ایک "نوجوان مگر مضبوط" جمہوریت کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اس وقت، بہت سے نئے آزاد ہونے والے ممالک فوجی بغاوتوں یا آمرانہ حکومتوں کی طرف جا رہے تھے، جبکہ ہندوستان ایک جمہوری راستہ اختیار کر رہا تھا۔ اس تناظر میں، ہندوستان کو یقینی طور پر سرفہرست جمہوری ممالک میں شمار کیا جاتا رہا تھا۔ 1975 میں ایمرجنسی کا نفاذ ایک بڑا دھچکا تھا، جس نے عارضی طور پر ہندوستان کی جمہوری ساکھ کو متاثر کیا۔ تاہم، ایمرجنسی کے بعد انتخابات کا انعقاد اور جمہوری عمل کی بحالی نے ہندوستان کی جمہوری لچک کو ثابت کیا، جس کے بعد اس کی عالمی ساکھ دوبارہ بحال ہو گئی۔ اب، جدید دور کے ڈیموکریسی انڈیکسز، جو زیادہ جامع اور پیچیدہ معیار (جیسے شہری آزادی، پریس کی آزادی، اقلیتوں کے حقوق) استعمال کرتے ہیں، کے مطابق: ہندوستان کی پوزیشن میں حالیہ برسوں میں کمی آئی ہے۔


کالم نگار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ: قائداعظم (محمد علی جناح) نے یہ کبھی نہیں کہا کہ پاکستان ایک سیکولر جمہوری ملک ہوگا بلکہ اس کے برعکس انہوں نے بارہا یہ کہا کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہوگا۔
ہمارے نزدیک یہ صرف الفاظ کا کھیل ہے۔ آپ سیکولر جمہوری ملک کہیں یا اسلامی جمہوری ملک ۔۔۔ کیا فرق پڑتا ہے؟ کیا لفظ "اسلامی" شامل کر لینے سے: بنیادی جمہوری اقدار، عوامی حقوق کا تحفظ، اداروں کی پائیداری، مذہبی/مسلکی رواداری اور سیاسی نظام کی لچک ۔۔۔ ان سب سے چھٹکارا مل جاتا ہے؟
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ: پاکستان نے اپنی 77 سالہ تاریخ کے تقریباً نصف حصے میں فوجی حکمرانی دیکھی ہے، جس نے جمہوری اداروں کو پنپنے نہیں دیا اور سیاسی عدم استحکام کو جنم دیا۔ اس کے برعکس، ہندوستان نے مسلسل ایک جمہوری آئینی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے ترقی کی ہے، جس نے اسے عالمی سطح پر ایک منفرد مقام عطا کیا ہے۔


اگر کوئی پوچھے کہ بحیثیت جمہوری ملک، ہندوستان نے گذشتہ 77 برسوں میں کیا ترقی کی ہے؟
ذیل میں چند نکات ہندوستان/پاکستانی موازنہ کے بطور پیش ہیں، جن کا منصفانہ جائزہ لینے کے بعد، ہر غیرجانبدار قاری کو اندازہ ہو جائے گا کہ محمد علی جناح کا قول محض ایک سیاسی قول تھا جس میں مستقبل کے ہندوستان کی جو پیشین گوئی کی گئی تھی وہ محض ایک انفرادی مفروضہ تھا جو مکمل سچ ثابت نہیں ہو سکا۔


بیس نکاتی موازنہ

1) جمہوریت کا پائیدار تسلسل (Sustained Democracy):
ہندوستان: مسلسل جمہوری نظام کی برقراری۔
پاکستان: کئی بار جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر فوجی حکومتیں قائم ہوئیں۔


2) انتخابی عمل اور شفافیت (Electoral Process and Transparency):
ہندوستان: انتخابات کو عالمی سطح پر عام طور پر آزاد اور منصفانہ مانا گیا۔
پاکستان: انتخابات پر دھاندلی اور فوجی مداخلت کے الزامات عام رہے ہیں۔


3) آزاد عدلیہ (Independent Judiciary):
ہندوستان: عدلیہ نسبتاً خودمختار رہی ہے۔ (پی۔آئی۔ایل کے ذریعے عام لوگوں کے لیے انصاف تک آسان رسائی، حکومتی ایگزیکٹو اقدامات پر عدالتی نظرثانی)۔
پاکستان: عدلیہ پر فوجی اور حکومتی دباؤ کا اثر و رسوخ اکثر محسوس کیا جاتا ہے، جس سے اس کی آزادی متاثر ہوتی ہے۔


4) آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی (Constitutional Supremacy and Rule of Law):
ہندوستان: آئین کو بالادستی حاصل ہے۔ (دنیا کا سب سے بڑا، جامع اور وسیع تحریری آئین، ترامیم کے باوجود بنیادی اصولوں اور ڈھانچے کا تحفظ، تمام سرکاری اداروں اور شہریوں کے لیے قانون کی حکمرانی کا اطلاق)
پاکستان: فوجی حکومتوں نے آئین کو بارہا معطل یا منسوخ کیا اور اپنی مرضی کے مطابق ترمیم کی، جس سے آئین کی بالادستی کمزور پڑتی گئی۔


5) وفاقیت اور لسانی، مذہبی تنوع کا انتظام (Federalism and Management of Linguistic & Religious Diversity):
ہندوستان: لسانی بنیادوں پر ریاستوں کو منظم کیا اور وفاقیت کو مضبوط کیا۔ (آرٹیکل 371، مختلف قبائلی علاقوں اور شمال مشرقی ریاستوں کو خصوصی آئینی حیثیت اور خود مختاری۔ کثیر لسانی اور کثیر مذہبی معاشرے کو جمہوری فریم ورک میں کامیابی سے منظم کیا گیا)
پاکستان: لسانی، نسلی اور مسلکی بنیادوں پر شدید تنازعات اور علیحدگی کی تحریکوں کا سامنا (مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننا)


6) مکالمہ اور اظہار رائے کی آزادی (Freedom of Speech and Expression):
ہندوستان: آزادی اظہار پر دباؤ کے باوجود میڈیا کی وسعت برقرار (مثلاً: روش کمار، فے ڈیسوزا، پرسون باجپائی)
پاکستان: میڈیا پر حکومتی اور فوجی سنسر شپ، اور صحافیوں پر تشدد کے واقعات زیادہ عام رہے ہیں۔


7) اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ (Protection of Minority Rights):
ہندوستان: اقلیتوں کو آئینی تحفظات حاصل ہیں۔ (آئینی آرٹیکلز 29 اور 30، اقلیتوں کو ثقافتی اور تعلیمی حقوق کی ضمانت، قومی اقلیتی کمیشن کا قیام، جو اقلیتی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتا ہے، اقلیتی تعلیمی اداروں کو خود مختاری)۔
پاکستان: مذہبی اقلیتیں (ہندو، عیسائی، احمدی) اکثر امتیازی سلوک، ظلم اور تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔


8) خوراک کی خود کفالت (Food Self-Sufficiency - Green Revolution):
ہندوستان: سبز انقلاب کے ذریعے خوراک میں خود کفالت حاصل کی گئی ہے۔ (گندم، چاول، دودھ کی پیداوار میں عالمی طور پر سرفہرست، فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کے ذریعے اناج کے بڑے ذخائر کی برقراری)۔
پاکستان: زرعی شعبے میں چیلنجز اور خوراک کی فراہمی کے مسائل کا اب بھی سامنا ہے۔


9) غربت میں کمی (Poverty Reduction):
ہندوستان: بڑے پیمانے پر غربت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار ضمانت ایکٹ، پردھان منتری جن دھن یوجنا، سستے نرخوں پر خوراک کی فراہمی۔۔۔ ورلڈ بنک کے مطابق، 2005 سے 2021 تک تقریباً 415 ملین افراد کو غربت سے نکالا گیا۔
پاکستان: معاشی عدم استحکام، افراط زر، اور سماجی تحفظ کے کمزور نظام کے باعث غربت میں کمی کی رفتار سست رہی ہے۔


10) تعلیم کی وسیع پیمانے پر فراہمی (Massive Expansion of Education):
ہندوستان: تعلیم کے پھیلاؤ اور معیار میں نمایاں ترقی۔ (عالمی معیار کے لاتعداد ادارے، بشمول آئی آئی ایم ایس اور آئی آئی ٹی۔ سروا شکشا ابھیان اور راشٹریہ مَدھیامک شکشا ابھیان جیسے پروگراموں کے ذریعے پرائمری اور سیکنڈری تعلیم تک رسائی میں اضافہ۔)
پاکستان: کم خواندگی کی شرح (خاص طور پر دیہی علاقوں اور خواتین میں)، تعلیمی معیار میں کمی، اور ناکافی بجٹ کے مسائل۔


11) صحت عامہ سہولیات کی توسیع (Expansion of Public Health Facilities):
ہندوستان: صحت عامہ میں نمایاں پیشرفت (پولیو اور چیچک جیسی مہلک بیماریوں کا کامیابی سے خاتمہ، ماؤں اور بچوں کی شرح اموات میں نمایاں کمی، عوام کے لیے آیوشمان بھارت جیسے بڑے ہیلتھ انشورنس پروگرام)
پاکستان: بنیادی صحت کی سہولیات، صاف پانی اور صفائی کا فقدان۔ صحت کے شعبے میں کم سرمایہ کاری۔


12) خواتین کو بااختیار بنانا (Women Empowerment):
ہندوستان: خواتین کی سیاسی اور سماجی شرکت میں اضافہ (مقامی خود مختار اداروں جیسے پنچایت میں خواتین کے لیے 33 فیصد نشستوں کا تحفظ، "بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ" مہم)
پاکستان: خواتین کو قانونی اور سماجی دونوں سطح پر چیلنجز کا سامنا، صنفی عدم مساوات اب بھی نمایاں۔


13) جوہری اور خلائی ٹیکنالوجی میں ترقی (Advancements in Nuclear and Space Technology):
ہندوستان: جوہری اور خلائی ٹیکنالوجی میں قابل ذکر کامیابیاں (دنیا کی چھ بڑی خلائی طاقتوں میں شمولیت، کم لاگت خلائی مشن کے لیے عالمی سطح پر تسلیم شدہ، منگل یان اور چندریان مشن میں کامیابی)
پاکستان: جوہری صلاحیت کا حامل مگر خلائی پروگرام نسبتاً محدود۔


14) انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT) انقلاب (Information Technology Revolution):
ہندوستان: آئی ٹی خدمات فراہم کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک اور عالمی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے ایک اہم ہب (بنگلور: سلیکون ویلی آف انڈیا، ٹاٹا کنسلٹنسی، انفوسس، وپرو عالمی سطح کی آئی۔ٹی کمپنیاں، آدھار جیسے بڑے ڈیجیٹل شناختی نظام کا کامیاب نفاذ)
پاکستان: آئی ٹی سیکٹر میں ترقی واضح ہے لیکن حجم اور عالمی اثر و رسوخ میں ہندوستان سے کافی پیچھے۔


15) مضبوط دفاعی صلاحیت (Robust Defense Capability):
ہندوستان: دفاعی صلاحیت جمہوری اداروں کے ماتحت (گلوبل فائر پاور انڈیکس کے مطابق: دنیا کی چوتھی سب سے مضبوط فوجی طاقت، اقوام متحدہ کی امن فوجوں میں سب سے بڑے حصہ دار ممالک میں سے ایک، ڈی آر ڈی او کے ذریعے دیسی ساختہ میزائل اور جنگی طیاروں کی تیاری)
پاکستان: فوج کا سیاست میں غالب کردار، جمہوری اداروں کی کمزوری۔


16) آزاد خارجہ پالیسی (Independent Foreign Policy):
ہندوستان: غیر وابستہ پالیسی (سرد جنگ کے دوران اپنی خودمختاری کا اعلامیہ، بڑی طاقتوں کے بلاکس سے ہٹ کر اپنا علیحدہ مقام، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر کثیرالجہتی کی مضبوط وکالت)
پاکستان: اکثر علاقائی اور عالمی طاقتوں (جیسے امریکہ اور چین) کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنے میں مشکلات۔


17) انفراسٹرکچر کی ترقی (Infrastructure Development):
ہندوستان: بڑے پیمانے پر ترقی (میگا ہائی وے پروجیکٹس، میٹرو ریل نظام کا پھیلاؤ، بھارت مالا پراجیکٹ اور ساگر مالا پراجیکٹ کے ذریعے بندرگاہوں اور سرحدوں پر سڑکوں کا ترقیاتی کام)۔
پاکستان: سیاسی عدم استحکام، مالیاتی مشکلات اور کرپشن کے باعث انفراسٹرکچر کی ترقی سست اور غیر متوازن۔


18) سائنسی تحقیق اور ترقی (Scientific Research and Development):
ہندوستان: سائنسی تحقیق میں وسیع سرمایہ کاری (انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ، کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ جیسے عالمی معیار کے تحقیقی ادارے، ایٹمی توانائی، بایو ٹیکنالوجی اور نینو ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں قابل ذکر پیشرفت، سائنسی اشاعتوں کی تعداد اور پیٹنٹس کی رجسٹریشن کے لحاظ سے دنیا کے سرفہرست ممالک میں شامل)
پاکستان: تحقیق و ترقی کے لیے وسائل اور ترجیحات محدود۔


19) جمہوریاتی لچک (Democratic Resilience):
ہندوستان: متعدد بحرانوں کے باوجود جمہوری لچک کا مظاہرہ (علاقائی شورشوں اور علیحدگی پسند تحریکوں کا مقابلہ اور قومی وحدت کی برقراری، ایمرجنسی کے بعد جمہوری عمل کی بحالی، دہشت گردی اور اندرونی خلفشار کے باوجود انتخابی عمل کا تسلسل)
پاکستان: جمہوری تاریخ فوجی بغاوتوں، آئینی بحرانوں اور سیاسی عدم استحکام پر مبنی۔


20) عالمی سطح پر نرم طاقت (Global Soft Power):
ہندوستان: متنوع ثقافت اور اقدار کے ذریعے عالمی نرم طاقت کا حصول (یوگا اور آیوروید کو عالمی سطح پر متعارف و مقبول کروایا گیا، ہندوستانی فلموں کا دنیا بھر میں اثر و رسوخ، ہندوستانی پکوان، تہوار اور روحانی اقدار کا عالمی سطح پر پھیلاؤ)
پاکستان: عالمی تاثر اکثر علاقائی تنازعات اور دہشت گردی کے بیانیوں سے متاثر رہا۔


خلاصہ کلام:

یہ بات مان لینے کے بعد کہ ہندوستانی جمہوریت کو بھی اپنے اندرونی مسائل اور کچھ عالمی انڈیکسز میں تنزلی کا سامنا ہے، اگر پھر بھی اس کا موازنہ پاکستان کی جمہوری تاریخ اور موجودہ صورتحال سے کیا جائے تو نتیجہ بالکل واضح اور قطعی ہوگا۔ اور وہ یہی ہے کہ:
ہندوستانی جمہوریت، اپنی موجودہ خامیوں اور چیلنجز کے باوجود، پاکستان کے جمہوری نظام کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ مستحکم، پائیدار اور آئینی اصولوں پر مبنی ہے۔ اور ہندوستان نے مسلسل ایک جمہوری آئینی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے ترقی کی ہے، جس نے اسے عالمی سطح پر ایک منفرد مقام عطا کیا ہے۔


***
سید مکرم نیاز
مدیر اعزازی ، "تعمیر نیوز" ، حیدرآباد۔
16-8-544, New Malakpet, Hyderabad-500024.
taemeernews[@]gmail.com

syed mukarram niyaz
Syed Mukarram Niyaz
سید مکرم نیاز
Keywords: Indian democracy, Pakistan democracy, Muhammad Ali Jinnah quote, Jinnah's vision, Two-Nation Theory, India Pakistan comparison, Democracy index India, Democracy in South Asia, Post-independence India, Post-independence Pakistan, Jinnah's speech 1943, Democracy challenges India, Democracy stability Pakistan, Minority rights India, Secularism vs Islamic democracy
India vs. Pakistan Democracy: Jinnah's Prophecy and Modern Reality
Jinnah's Vision: How Indian Democracy Compares to Pakistan Today
A data-based comparative analysis of Indian Democracy, examining Pakistan-related narratives and Jinnah's assumptions.
Review/Analysis: Mukarram Niyaz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں