محبوب خاں صاحب سے پہلی ملاقات کی یادیں تو دھندلی ہیں، لیکن یہ کوئی دس برس پرانی بات ہے جب انھوں نے ماموں جان جناب حفیظ نعمانی کے خاکوں کا مجموعہ"بجھے دیوں کی قطار" حاصل کرکے لیے رابطہ کیا تھا۔ اس واقعہ کے بعدہمارے درمیان ایک ایسی رفاقت کا آغاز ہوا جو وقت کے ساتھ گہری ہوتی چلی گئی۔ ان سے فون پر گاہے بگاہے گفتگو رہتی، جو ادب، زندگی اور لکھنؤ کی گلیوں سے لے کر علمی مباحث تک پھیلی ہوتی تھی۔
25 دسمبر 2020 ء کو شمس الرحمن فاروقی صاحب کے انتقال پر انھوں نے 'فاروقی صاحب' کے عنوان سے ایک مضمون لکھا، جسے ہم نے سہ ماہی'کاوش' کے خصوصی شمارے میں شامل کیا، جو شمس الرحمن فاروقی اور پروفیسر ظفر احمد صدیقی کو خراج عقیدت پیش کرتا تھا۔ اس مضمون میں محبوب خاں نے فاروقی صاحب کی شخصیت، ان کے ادبی و پیشہ ورانہ سفر، اور ان کے ساتھ ذاتی تعلقات کی سحر انگیز یادیں قلم بند کیں۔ انھوں نے فاروقی صاحب کی سادگی، علمی گہرائی، ادبی خدمات، اور وقت کے ساتھ ان کے لہجے میں آنے والی تلخی، جھنجھلاہٹ، اور بے تکلفی کو ایک سادہ مگر دل نشین انداز میں بیان کیا۔ مضمون میں گورکھپوری کی پہلی ملاقات سے لے کر الہ آباد اور لکھنؤ میں ان کے ساتھ گزرے لمحات، ان کی نفیس طبیعت، مہمان نوازی، اور علمی گفتگو کی گہرائی کا ذکر ہے۔ یہ مضمون فاروقی صاحب کی یاد کو ہمیشہ تازہ رکھنے والا ایک شاندار خراج تحسین ہے۔
محبوب صاحب نے اردو رسالوں کا ایک روشن دور دیکھا تھا۔اس کی یادیں ان کا قیمتی سرمایہ تھیں۔گذشتہ برس ڈاکٹر شمع افروز زیدی نے"بیسویں صدی کے منتخب افسانے" جلد اول مرتب کر کے شائع کی، تو خاں صاحب نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
"ساٹھ کی دہائی میں کتابیں پڑھنے کا شوق ہوا تو کھلونہ سامنے تھا، اس دور میں Animated کہانی بے حد پسند آتی تھیں۔ بڑے ہوئے تو چھپ چھپ کر 'جاسوسی دنیا' اور 'شمع' پڑھا، لیکن 'بیسویں صدی' گھر میں آتا اور پورا گھر بلکہ آس پڑوس کے لوگ بھی 'بیسویں صدی' کی معیاری کہانیاں اور صاف ستھرے ماحول کو پسند کرتے تھے۔ 'بیسویں صدی' خوشتر گرامی صاحب سے رحمان نیر صاحب کے پاس آیا تو طباعت اور گٹ اپ دیدہ زیب ہوگیا۔ رحمان نیر صاحب کے پاس تجربہ تھا اور روبی پبلیکیشن سے رسالے اور کتابیں پہلے سے ہی نکل رہے تھے۔ نیر صاحب کے بعد بھی رسالہ بند نہیں ہوا اور آج بھی چھ ماہ کے وقفہ پر خصوصی نمبر کی شکل میں محترمہ شمع افروز زیدی کی ادارت میں شائع ہو رہا ہے۔ محترمہ شمع افروز زیدی نے بیسویں صدی کے خزانہ سے شاہکار کہانیوں کو کتابی شکل میں شائع کرنا شروع کیا ہے۔ ابھی پہلی جلد آئی ہے جس میں 70/ کہانیاں شامل کی گئی ہیں۔ بیسویں صدی کے پاس بے شمار شاہکار کہانیاں ہیں اور ایک کے بعد دوسری کتابوں کے ذریعہ تاریخی کہانیاں آپ تک پہنچیں گی۔"
رسالوں اور کتابوں سے ان کی دوستی اور تعلق ان کی زندگی کی ایک اہم سرگرمی تھی۔وہ نہ صرف رسالوں کو خریدتے تھے بلکہ اس کے خریدار بنانے کے لیے کوشش بھی کرتے تھے۔ملک زادہ صاحب سے ان کا تعلق اور خصوصی لگاؤ جگ ظاہر ہے۔اور اسی سبب وہ رسالہ "امکان"کو پسند کرتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد جب "امکان" سہ ماہی شائع ہونے لگا تو خاں صاحب نے اس کے لیے اپنی وال پر باقاعدہ ایک پوسٹ لگائی اور لکھا:
سہ ماہی "امکان"
ملک زادہ منظور احمد مرحوم کی یادگار نشانی اب سہ ماہی شائع ہورہا ہے۔آج جناب پرویز ملک زادہ صاحب رسالہ عنایت کرگئے۔بہترین مضامین،غزلیں اور افسانے۔درخواست ہے کہ امکان کی ممبر شپ لیجئے اور منفرد رسالہ گھر بیٹھے حاصل کیجیے۔
لاک ڈاؤن کے دنوں میں خاں صاحب کے ادبی جوہر زیادہ کھل کر سامنے آئے۔ مضامین کے ساتھ ساتھ انھوں نے افسانوں اور کہانیوں کی تخلیق بھی کی۔ ان کی ایک کہانی "آدمی کو میسر نہیں افسانہ نگار ہونا" ادب کی دنیا میں شہرت، جعلسازی، اور منافقت کی تلخ حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے۔ یہ ایک طنزیہ کہانی ہے جو ایک ایسے شخص کی جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے جو افسانہ نگار بننے کا خواب دیکھتا ہے، لیکن ایک ایسی دنیا میں جا پہنچتا ہے جہاں کہانیاں فروخت ہوتی ہیں۔ کہانی کا کردار'لافانی' منافقت کی علامت ہے، جو دوسروں کی کہانیاں چوری کر کے بیچتا ہے۔ یہاں محبوب خاں کا اسلوب طنزیہ مگر رواں ہے، جو روزمرہ کی زبان کو"خوشبو میں رچا بسا خط"اور"خوابوں کا قطب مینار" جیسے استعاروں سے سجاتا ہے۔ فطری ڈائلاگ کرداروں کی نفسیات کو کھولتے ہیں، اور "یہاں کہانیاں ملتی ہیں" جیسا طنز قاری کو کہانی سے باندھ دیتا ہے۔ اس کہانی کا پیغام واضح ہے کہ اصلی ادب محنت، خلوص، اور تخلیقی صلاحیت کا مرہون منت ہوتا ہے۔
ان کی ایک اور کہانی"بلیک اینڈ وائٹ" معاشرتی منافقت، کرپشن، اور اخلاقی تضادات کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ کہانی ایک شخص کی جدوجہد کے گرد گھومتی ہے جس کا بیٹا موت کے دہانے پر ہے، اور وہ حلال کمائی کی تلاش میں نکلتا ہے تاکہ اپنے بیٹے کو بچا سکے۔ کہانی ایک تلخ موڑ پر ختم ہوتی ہے جہاں سفید (حلال)دولت تو نہیں ملتی، لیکن بیٹا سفید چادر (موت کی چادر) اوڑھ لیتا ہے۔ کہانی کا جذباتی آغاز، وسط میں منافقت، اور اختتام میں سفید چادر کا ٹوئسٹ قاری کے دل کو چھو لیتا ہے۔
حفیظ نعمانی صاحب کے انتقال کے بعدراقم الحروف نے ان کی حیات و خدمات پر ایک کتاب مرتب کی، اس کتاب کے اجرا کی تقریب میں خاں صاحب بایں وجہ شریک نہ ہو سکے۔ چند روز بعد وہ آفس تشریف لائے اور دونوں کتابیں خریدیں، حالانکہ میں نے اصرار کیا کہ وہ بطور ہدیہ قبول کر لیں، مگر ان کا مزاج اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔اس ملاقات میں ادبی موضوعات اور کتابوں پر دلچسپ گفتگو ہوئی جو ہمیشہ یاد رہے گی۔
واٹس ایپ پر ان کے میسجیزمیرے لیے ایک قیمتی تحفہ ہوا کرتے تھے۔ ایک روز انھوں نے پوچھا: کیا اقبال محمود(ایم ایل اے، سنبھل) کبھی منسٹر نہیں رہے؟ میں نے بتایا کہ سماج وادی پارٹی کی حکومت میں وہ ایک بار اسٹیٹ منسٹر اور دو بار کیبنٹ منسٹر رہے ہیں۔ انھوں نے ہنستے ہوئے کہا: مجھے بھی یہی پتا ہے، لیکن انیس انصاری کو اس کا علم ہی نہیں۔تب میں نے بھی ہنس کر کہہ دیا کہ "ان کا علم بس اتنا ہی ہے"۔ زوردار قہقہہ لگایا اور بات ختم ہوگئی۔19 اکتوبر 2023ء کو پروفیسر شارب ردولوی کی یاد میں میرا مضمون روزنامہ"آگ" میں شائع ہوا۔ خاں صاحب اس وقت امریکہ میں تھے، انھوں نے مضمون پڑھ کر واٹس ایپ پر لکھا:
"مجھے آپ پر فخر ہے، یہاں ابھی دوپہر کے تین بجے ہیں۔ 'آگ' اور 'اودھ نامہ' پڑھا۔ بہت اچھا لکھا ہے۔ حفیظ نعمانی صاحب کے بعد شارب صاحب کا وصال بہت تکلیف دہ ہے۔ یہ بہت Pureلوگ تھے۔ ایسے انسان دوست اب کہاں؟ بھائی آپ لکھتے رہئے۔ بے لاگ، بے خوف۔"
24 نومبر 2024ء کو سنبھل میں جامع مسجد کے سروے کے باعث حالات خراب ہوئے۔ اتفاق سے میں اس وقت سنبھل ہی میں تھا۔30/نومبر کو واپسی پر"تشد کے بعد سنبھل میں خوف و ہراس کا ماحول" موضوع پر ایک مضمون لکھا، جو کئی اخبارات میں شائع ہوا۔ روزنامہ"آگ"نے 2/دسمبر 2024ء کو یہ مضمون شائع کیا۔ خاں صاحب نے پڑھ کر میسج کیا:
"محترم بھائی! سنبھل پر آپ کا مضمون پڑھا، آپ مسلسل لکھا کیجئے، اللہ نے آپ کو قلم کی طاقت دی ہے۔ آپ جیسے لوگوں کی ضرورت ہے، ورنہ وہی روایتی مضامین۔۔۔"
معتبر صحافی جناب قطب اللہ بھائی کی یاد میں راقم کا مضمون روزنامہ "آگ" میں شایع ہوا۔ خاں صاحب نے حسبِ سابق مضمون پڑھ کر میسج کیا:
"بہت اچھا کیا قطب اللہ بھائی پر لکھ کر۔ انھوں نے خود بتایا تھا کہ وہ میرے رشتہ دار ہیں۔ میری ایک کزن ان کے یہاں بیاہی تھیں۔ آخری ملاقات آپ کے معصوم صاحب والے پروگرام میں ہوئی تھی۔ سلامت علی مہدی، پروانہ ردولوی، حفیظ نعمانی صاحبان کے بعد اگر کسی نے متاثر کیا تو وہ قطب اللہ صاحب نے۔۔۔"
مذکورہ تمام میسجیز دراصل ہمارے رشتے کی گرم جوشی کے گواہ ہیں۔ 11/ مئی 2025ء کو "صدی کا صحافی: حفیظ نعمانی" کے موضوع پر سمینار تھا، لیکن ایک دوست کے آپریشن کی وجہ سے خاں صاحب شریک نہ ہو سکے۔اس کے بعد وہ تاشقند، سمرقند، اور بخارا کے سفر پر چلے گئے، جہاں سے انھوں نے فیس بک کے ذریعے تاریخ کے اوراق ہم تک پہنچائے۔ لکھنؤ واپسی پر ملاقات کا ارادہ تھا،لیکن خاں صاحب بیمار ہوگئے اور تقریباًڈھائی مہینہ تک وہ میدانتا اسپتال میں داخلِ علاج رہے۔
افسوس! ان کی بیماری کی اطلاع ہمیں نہیں ملی اوربروز ہفتہ 23 اگست 2025 ء خاں صاحب عالم ارواح کے سفرپر روانہ ہوگئے۔اب ملاقات انشااللہ اس جہان میں ہوگی جہاں ایک دن ہم سب کو بھی دیر یا سویر پہنچنا ہے۔
دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر - انشائیہ از محبوب خاں
آدمی کو میسر نہیں افسانہ نگار ہونا - انشائیہ از محبوب خان
گذشتہ لکھنؤ کی بہت سی کہانیاں ہم نے ان سے سنیں۔ لکھنؤ کے نئے پرانے کھانوں کا ذکر بھی خوب رہتا تھا۔لکھنؤ کی اچھی محفلوں،اچھی کتابوں اورکہانیوں نیزاچھے کھانوں کا جب بھی ذکر ہوگا،ان کی یاد آتی رہے گی۔
محبوب خاں کی سرگرمیوں کے بہت سے پہلو تھے۔ان کی نظر بہت سے ایسے پہلو ؤں پر ہوتی تھی جس کا عام حالات میں ہم لوگ اندازہ نہیں کرسکتے تھے۔ان کا ایک مضمون ان کے اسی غور و فکر والے نظریے کا غماز کہا جاسکتاہے۔"شاعر یا گلوکار: غزل کا اصلی خالق کون" کے عنوان سے ان کا یہ مضمون روزنامہ'آگ' کے سنڈے ایڈیشن (19/ جولائی 2020ء، صفحہ 4) میں شائع ہوا۔ اس مضمون کا انداز شگفتہ اور اسلوب دل کش تھا۔ انھوں نے ایک فکر انگیز سوال یہ کیا:
"۔۔۔سوچئے اور فیصلہ کیجئے کہ کسی غزل یا نظم کے لیے شاعر اہم ہے یا گلوکار۔ ایک شاعر زندگی کے حوادث، سانحات اور جذبات کے نشیب و فراز کو اپنی آواز اور موسیقی کی آمیزش سے، غزل کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے، جب کہ گلوکار کی آواز اور موسیقی کی سوز و آہنگ دل تک پہنچتی ہے۔"
یہ مضمون شاعر اور گلوکار کے کردار کو متوازن انداز میں پیش کرتا ہے۔ خاں صاحب کا کہنا تھا کہ شاعر غزل کا اصل خالق ہے، جو اپنے جذبات کو لفظوں کی مالا میں پروتا ہے، لیکن گلوکار اسے اپنی آواز کے جادو سے امر کر دیتا ہے۔ دونوں کا رشتہ لازم و ملزوم ہے—شاعر کی تخلیق کو گلوکار عوام کے دلوں تک پہنچاتا ہے۔ مضمون کی زبان رواں، قصہ گوئی سے بھرپور، اور جذبات سے لبریز ہے، جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔آپ اس پہلو سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن غور و فکر والے اس ذہن سے انکارنہیں کرسکتے۔
خاں صاحب کا ایک اور مضمون "پنجابی سوداگران کا اردو پریم" اردو ڈائجسٹس کے عروج و زوال کی داستان ہے۔ یہ مضمون کراچی سے شائع ہونے والے شکیل عادل زادہ کے ڈائجسٹ "سب رنگ" کی کہانی بیان کرتا ہے، جو دو لاکھ اشاعت تک پہنچا۔ شکیل صاحب ایک پنجابی تاجر خاندان سے تھے۔ دوسری طرف، ہندوستان میں یوسف دہلوی کا"شمع"فلمی خبروں، ادب، اور معیاری اشاعت کے ساتھ مقبول ہوا۔ دونوں نے اپنے وقت میں ادبی ذوق عام کیا، لیکن معیار سے سمجھوتہ نہ کرنے کی ضد ان کے زوال کا سبب بنی۔ یہ مضمون اردو ڈائجسٹ کی تاریخ اور ان کے سماجی اثرات کو سمجھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
محبوب خاں صاحب علی گڑھ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کرنے گئے تھے، لیکن پروفیسر شہریار، جو ان کے بڑے بھائی کے دوست تھے،انھوں نے مشورہ دیا کہ بہتر مستقبل کے لیے ہسٹری ڈیپارٹمنٹ جوائن کرو اور سول سروسز کے امتحانات کی تیاری کرو۔ خاں صاحب حیران رہ گئے، لیکن ان کے مشورے کو رد کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ شہریار صاحب کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے سول سروسز کے لیے سخت محنت کی۔ شہریار صاحب نے ان کی سرکاری تعیناتیوں کے لیے جدوجہد کی اور اس سلسلے میں ایک مرتبہ اپنے قریبی دوست مسٹر پی ایل پونیا (آئی اے ایس) سے ناراض بھی ہوگئے تھے۔ ایک طویل مدت تک محبوب خاں صاحب مرادآباد میں پوسٹیڈ رہے۔ لہٰذا ہمارے درمیان مرادآباد اور لکھنو دونوں کا ذکر رہتا تھا۔ خاں صاحب کی یادداشت بہت اچھی تھی۔ پرانے اور بہت پرانے واقعات بھی انھیں اچھی طرح یاد تھے۔ کھانوں کے وہ بہت شوقین تھے۔ اور کتابیں ہمیشہ خرید کر پڑھتے تھے۔ گاہے گاہے اپنے فیس بک پیج سے کتابوں کا تعارف کراتے اور اساتذہ سخن کے کلام سے بھی مستفید کرتے رہتے تھے۔ ہائے افسوس! ہمارا محبوب دنیا سے رخصت ہوگیا اور لکھنؤ کی یہ روشن شمع ہمیشہ کے لیے تاریک ہوگئی۔
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
خان محبوب طرزی : لکھنؤ کا ایک مقبول ناول نگار - محمد اویس سنبھلی
اویس سنبھلی
رابطہ: 7905636448
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں