نصیر الدین ہاشمی - دکن کے نامور محقق اور مورخ - حیات و خدمات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-09-07

نصیر الدین ہاشمی - دکن کے نامور محقق اور مورخ - حیات و خدمات

Naseeruddin-Hashmi a deccan historian

لکھنؤ اور دہلی کے ساتھ ہندوستان میں اگر کسی سر زمین نے اردو کو پروان چڑھایا اور اس کی آبیاری کی ہے تو وہ سر زمین دکن ہے۔ یہ مردم خیز سرزمین قدیم زمانے سے ہی اردو کا گہوارا رہا ہے۔ بہمنی، قطب شاہی ادوار میں اردو نے ارتقائی مراحل طے کیے تو سلطنت آصفیہ کے دور میں اردو زبان و ادب بامِ عروج تک پہنچ گیا تھا۔ والیِ ریاست میر محبوب علی خان نے اپنے دورِ حکمرانی میں ریاست کی سرکاری زبان فارسی سے اردو کر دی جس کی بدولت سرکاری محکموں میں اردو کا رواج عام ہوا۔ اس کے علاوہ مدارس، کالجوں اور تعلیمی اداروں میں بھی اردو پڑھائی جانے لگی ۔ آپ نے تقریباً 42 سال حکومت کی اور کالج، مدرسےاور دارالعلوم وغیرہ قائم کرکے جدید علوم اور اسلامی علوم کی ترویج میں کردار ادا کیا۔ ہندوستان کے لاتعداد تعلیمی اداروں کو وظائف عطا کیے۔ مدرسہ علی گڑھ اور پھر ایم اے او کالج کی سرپرستی بھی کی۔
29اگست1911ء کو میر محبوب علی خان کے بیٹے میر عثمان علی خان سلطنت آصفیہ کے آخری بادشاہ مقرر ہوئے۔ آپ کا عہد برصغیر اور حیدرآباد کا زریں عہد تھا۔میر عثمان علی خان کے دور میں جامعہ عثمانیہ اور دارا لترجمہ کا قیام عمل میں آیا۔ مختلف علوم و فنون کی سینکڑوں کتابوں کی اردو اشاعت ہوئی اور مغربی علوم کے اردو تراجم ہوئے۔ آپ نے جلیل مانک پوری، داغ دہلوی، نظم طباطبائی، جوش ملیح آبادی، عبدالحلیم شرر، علامہ شبلی نعمانی، مولوی عبد الحق، ڈاکٹر محی الدین قادری زور غرض مختلف علوم و فنون کے لاتعداد ستاروں کو اپنے دربار میں جگہ دی۔ نصیر الدین ہاشمی بھی ایسے ہی رجال میں شامل تھے جنہوں نے سرکار عالیہ حیدرآباد سے وابستگی اختیار کی۔ انہوں نے ساری زندگی دکنی ادبیات کی خدمت میں وقف کر دی۔ دکنی ادب و ثقافت کا شاید ہی کوئی موضوع ایسا ہوگا جس پر نصیر الدین ہاشمی نے قلم نہ اُٹھایا ہو۔


نصیر الدین ہاشمی 17 رمضان 1312ھ مطابق 15 مارچ 1895ء کو ریاست حیدرآباد کے محلہ ترپ بازار میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق خاندانِ نوائط سے تھا۔ [1] اصل نام محمد نصیر الدین عبد الباری تھا، لیکن نصیر الدین ہاشمی کے قلمی نام سے مشہور ہوئے۔ دو بہنوں اور پانچ بھائیوں میں وہ چوتھے نمبر پر تھے۔ ان کے والد مولوی عبد القادر عالم دین ہونے کے ساتھ ریاست حیدرآباد کے سرشتہ عدالت میں منصف اور رجسٹرار بلدہ تھے۔ والد کے انتقال کے وقت نصیر الدین کی عمر صرف بارہ برس تھی، تب تک گھر پر ہی تعلیم حاصل کی۔ ان کی قرآن، دینیات، اردو، فارسی، ریاضی اور خطاطی کی تعلیم کے لیے استاد مقرر کیے گئے تھے۔والد کے انتقال کے بعد نانا کے یہاں قیام رہا۔ تین برس بعد نانا بھی انتقال کر گئے۔ مزید تعلیم کے لیے مدرسہ دار العلوم میں داخلہ لیا اور منشی اور مولوی عالم کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ مدرسہ دار العلوم میں امجد حیدر آبادی کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ ان سے تاریخ، فلسفہ، ریاضی اور عربی کا درس لیا کرتے تھے۔ امجد حیدر آبادی سے ان کا تعلق ساری عمر قائم رہا۔ پھر خانگی طور سے مدراس یونیورسٹی سے منشی فاضل کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ پھر جامعہ عثمانیہ سے انگریزی کے ساتھ میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ انہیں ادبی سرگرمیوں سے بھی دلچسپی تھی، چنانچہ وہ 'انجمن ثمرة الادب' کے سیکریٹری کے فراض انجام دیا کرتے تھے۔


انہیں بچپن ہی سے مطالعہ کابے حد شوق تھا۔ ناول، سفرنامے، تاریخ اور سوانح کی سینکڑوں کتابوں کا مطالعہ کیا۔ ملک میں قحط کے باعث تعلیم ترک کر دی اور عارضی ملازمت حاصل کی۔ انہوں تیس سال ملازمت کی۔ پہلے دس سال نان گزیٹڈ ملازم کی حیثیت سے کام کیا۔ پھر دوسرے دس سال تک دفترِ دیوانی و مال (ریکارڈ آفس) میں نائب مددگار رہے اور گزیٹڈ ملازم ہو گئے۔ آخری دس سال سرشتہِ رجسٹریشن و اسٹامپ میں مددگار ناظم رہے۔ رجسٹرار بلدہ مقرر ہوئے اور ناظم رجسٹریشن کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا۔ یہاں تاریخی کاغذات اور دستاویزات کو جو کہ منتشر اور لاپرواہی کے ساتھ رکھے ہوئے تھے انہیں یکجا کیا اور اُن کے مطالعہ سے خاصہ تاریخی مواد بھی اپنی تصانیف کے لیے اکٹھا کیا۔[2] یہ دفتر ہسٹاریکل ریکارڈ آفس کہلاتا تھا۔


نصیر الدین ہاشمی کی تصنیف 'تاریخ عطیات آصفی' اسی زمانے کی یادگار ہے۔ ملازمت کے مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے نصیر الدین ہاشمی کی کتاب دکن میں اردو شائع ہوئی۔ جس کے بعد ایک سال کے لیے انہیں انگلستان روانہ کیا گیا تاکہ وہاں دکھنی ادب کا مزید مواد فراہم کر سکیں۔ انگلستان، اسکاٹ لینڈ اور فرانس کے مختلف شہروں میں ایک سال قیام کیا اور وہاں سے دکھنی مواد اِکٹھا کر کے لانے اور ریکارڈ کے کام کا تجربہ بھی حاصل کیا۔ اب نصیر الدین ہاشمی گزیٹڈ افسر بن گئے اور دفتر کا اہم ترین صیغہ یعنی تصدیقِ اسناد ان کے ماتحت کر دیا گیا۔ انہیں اس صیغہ کی نگرانی کرتے ہوئے آٹھ سال ہو گئے تھے اور اس عرصہ میں زیادہ مشاہرہ والی نئی پوسٹ سرکار کی جانب سے منظور ہوئی۔ سنیارٹی اور کارگزاری کے لحاظ سے نصیر الدین ہاشمی اس پوسٹ کے زیادہ مستحق تھے مگر انہیں محروم کر دیا گیا۔ معتمد فنانس اور وزیر اعلیٰ نصیر الدین ہاشمی کی تائید میں تھے مگر ناظمِ سرشتہ ان کے مخالف ہوگئے اور دوسرے صاحب کی تائید کر دی، یوں نصیر الدین ہاشمی دل برداشتہ ہو گئے، دو ماہ کی رخصت لے لی اور جب واپس آئے تو ایک دوسرا صیغہ (محکمہ) ان کے ماتحت کر دیا گیا۔ غرض دفترِ دیوانی و مال (سینٹرل ریکارڈ آفس) کی بیس سالہ ملازمت کے بعد سرشتہِ رجسٹریشن و اسٹامپ میں ان کا تبادلہ ہو گیا۔ رجسٹرار بلدہ کی ذمہ داری نصیر الدین ہاشمی کے لیے ایک نیا کام تھا۔اس لیے ابتدائی چند دن اس نئے کام کی نوعیت سمجھنے میں گزر گئے۔ اس کے بعد انہیں صدر دفتر میں مددگار ناظمِ رجسٹریشن و اسٹامپ مقرر کر دیاگیا۔ جہاں انہوں نے پانچ برس خدمات انجام دیں۔ ناظمِ رجسٹریشن کے قائم مقام کی حیثیت سے انہیں مختلف مقامات کا دورہ کرنا پڑتا تھا۔
انہوں نے ریاست حیدر آباد کے تیرہ اضلاع اور ساٹھ پنسٹھ تعلقہ جات اور پندرہ سولہ جاگیرات کا دورہ کیا۔ دو ڈھائی ماہ کے بعد نئے متعین ناظم نے ان سے جائزہ حاصل کیا اور نصیر الدین ہاشمی ان کے ساتھ تقریباً چھ سات ماہ بحیثیت مددگار کام کرتے رہے۔ نئے ناظم سے اختلافات کی وجہ سے نصیر الدین ہاشمی نے سابقہ خدمت رجسٹرار بلدہ پر واپسی کی درخواست کی، اس طرح رجسٹرار بلدہ کی خدمت پر واپس آ گئے۔ مارچ 1950ء میں پچپن سالہ عمر اور اکتیس سالہ ملازمت کے بعد وہ پنشن حاصل کر کے ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔[3]


نصیر الدین ہاشمی کی شادی ان کی ماموں زاد سے 11 شوال 1341ھ کو ہوئی۔ ان سے ایک فرزند ڈاکٹر ظہیر الدین ہاشمی اور چار دختر پیدا ہوئیں۔[4]


نصیر الدین ہاشمی نے زیادہ تر تحقیقی کام کیا ہے۔ وضاحتی فہرستیں مرتب کیں۔ سوانح اور تواریخ مرتب کیں۔ دکن کی خواتین شعرا پر کتابیں لکھیں۔ قدیم شعراء کے حالات منظر عام پر لائے اور ان کی خدمات ادبی حلقوں میں متعارف کروائیں۔ نصیر الدین ہاشمی کا سب سے اہم کارنامہ 'مثنوی کدم راؤ پدم راؤ' متن کی دریافت ہے۔ مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کا مخطوطہ جو دنیا بھر میں اس کتاب کا واحد نسخہ ہے، عمر یافعی کی ملکیت تھا اور 1949ء میں ان کے ذخیرہ کتب کے ساتھ انجمن ترقی اردو آ گیا تھا۔ یہ وہی نسخہ تھا جو ایک زمانے میں حیدرآباد دکن میں لطیف الدین ادریسی کے پاس تھا اور جس کا مطالعہ کر کے سب سے پہلے نصیر الدین ہاشمی نے اکتوبر 1932ء میں 'معارف' اعظم گڑھ میں ایک تعارفی مضمون 'بہمنی عہد کا ایک دکنی شاعر' کے عنوان سے قلمبند کیا تھا۔ بعد ازاں اسی نسخہ کی مدد سے ڈاکٹر جمیل جالبی نے مثنوی کدم راؤ پدم راؤ پر تحقیقی مقالہ لکھا اور جامعہ کراچی 1978ء میں انہیں ڈاکٹر آف لٹریچر (ڈی لٹ) کی ڈگری عطا کی۔
ان کی مطبوعہ کتابوں میں دکن میں اردو ، نجم الثاقب ، رہبر سفر یورپ ، یورپ میں دکھنی مخطوطات ، ذکر نبیؐ ، حضرت امجد کی شاعری ، خواتین عہد عثمانی ، خیابان نسواں ، مدراس میں اردو ، مقالات ہاشمی ، خوتین دکن کی اردو خدمات، فلم نما، تذکرہ دار العلوم ، تاریخ عطیات آصفی ، حیدر آباد کی نسوانی دنیا ، مکتوباتِ امجد ، تذکرہ مرتضٰی ، عہد آصفی کی قدیم تعلیم ، آج کا حیدر آباد ، تذکرہ حیات بخشی بیگم ، دکھنی ہندو اور اردو ، کتب خانہ سالار جنگ کی وضاحتی فہرست ، کتب خانہ آصفیہ اسٹیٹ سینٹرل لائبریری کے اردو مخطوطات (دو جلدیں)، دکھنی قدیم اردو کے چند تحقیقی مضامین ، دکھنی کلچر، مولوی عبد القادر شامل ہیں۔
اس کے علاوہ اعلیٰ حضرت میر محبوب علی خان کی سوانح 'المحبوب' کے نام لکھی جو کہ اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خان کی پابندی کی وجہ سے اشاعت سے محروم رہ گئی تھی۔ نصیر الدین ہاشمی کے فرزند ڈاکٹر ظہیر الدین ہاشمی نے 1995ء میں شائع کرایا۔ اس کے علاوہ 'حالات بھونگیر' غیر مطبوعہ ہے جو کہ نصیر الدین ہاشمی کی ابتدائی نگارشات میں شامل ہے۔


نصیر الدین ہاشمی کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہو کر 26 ستمبر 1964ء حیدرآباد، بھارت میں وفات کر گئے۔ وہ درگاہ حضرت سید احمد بادِپا [Dargah Hazrat Syed Ahmed Baad-e-Paa]، احمد نگر، بنجارہ ہلز، حیدرآباد میں مدفون ہیں۔[5]


حوالہ جات:
1۔ ڈاکٹر افضل الدین اقبال، حالات زندگی مولوی نصیر الدین ہاشمی، مشمولہ: دکن میں اردو، مولف: نصیر الدین ہاشمی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی، جولائی 2002ء، ص 22
2۔ واجدہ فرزانہ، نصیر الدین ہاشمی ایک مطالعہ ، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد، ناشر: بزم تخلیق ادب پاکستان، 2011ء، ص 15
3۔ نصیر الدین ہاشمی ایک مطالعہ، ص 16
4۔ نصیر الدین ہاشمی ایک مطالعہ، ص 17
5۔ ڈاکٹر افضل الدین اقبال، حالات زندگی مولوی نصیر الدین ہاشمی، مشمولہ: دکن میں اردو، مولف: نصیر الدین ہاشمی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی، جولائی 2002ء، ص 23
***
محمد عارف سومرو
موبائل/واٹس ایپ : 00923002936827
محمد عارف سومرو

Naseeruddin Hashmi, a legend historian and researcher of Deccan. - Essay: Muhammad Arif Soomro

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں